ہم زندہ قوم ہیں،پایندہ قوم ہیں؟
فوج کی آئے روز شہادتیں ہوتی رہتی ہیں۔…… مسلح افواج میں کمیشنڈ افسروں اور سولجرز کی تعداد میں جو تناسب ہے وہ تقریباً ایک اور پچیس(25:1) کا ہے، یعنی ایک کمیشنڈ آفیسر کے مقابلے میں 25 سولجرز ہیں جن میں جونیئر کمیشنڈ آفیسر (JCOs)، نان کمیشنڈ آفیسرز (NCOs) اور سپاہی شامل ہیں۔ نان کمیشنڈ آفیسرز میں لانس نائک، نائک اور حوالدار اور جونیئر کمیشنڈ آفیسرز میں نائب صوبیدار، صوبیدار اور صوبیدار میجر شامل ہیں۔اس تناسب سے دیکھا جائے تو دشمن کے ساتھ جنگ میں 25 سولجرز کے مقابلے میں ایک کمیشنڈ آفیسر کو شہید ہونا چاہئے۔ (کمیشنڈ افسروں میں سیکنڈ لیفٹیننٹ، لیفٹیننٹ، کیپٹن، میجر، لیفٹیننٹ کرنل، کرنل، بریگیڈیئر، میجر جنرل، لیفٹیننٹ جنرل اور جنرل شامل ہوتے ہیں) اگرچہ یہ تناسب آرمی کی نفری کا ہے، لیکن تقریباً یہی تناسب ملک کی دوسری دو تین مسلح افواج (فضائیہ،بحریہ، میرین)کا بھی ہے۔ لیکن انڈیا کے ساتھ ہم نے گزشتہ 73 برسوں میں جو چار جنگیں لڑی ہیں 1947-48)ء،1965ء،1971ء اور 1999ء(ان میں کمیشنڈ افسروں کی شہادت کا گراف سولجرز کے مقابلے میں ان کی تعداد کے تناسب سے زیادہ (بلکہ بہت زیادہ) ہے۔…… کہنے کا مطلب ہے کہ آفیسر ہو یا سولجر سب کے سب گزشتہ پون صدی میں اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دشمن کے خلاف سینہ سپر ہوتے رہے ہیں،لیکن اس کے باوجود ہم نے دیکھا ہے کہ انڈیا کے ساتھ باقاعدہ (ریگولر) جنگوں میں آفیسرز کلاس اور سولجرز کی شہادتوں کو تو تشہیر و قبولیت کا وہی مقام دیا جاتا ہے جس کی وہ مستحق ہوتی ہیں۔ لیکن جب یہ باقاعدہ جنگ بے قاعدہ (ار ریگولر) جنگ میں تبدیل ہو جاتی ہے تو اس میں شہداء کا تناسب اگرچہ وہی رہتا ہے جو باقاعدہ جنگ میں ہوتا ہے لیکن میڈیا میں اس شہادت کی ترجمانی اور تشہیر وہ نہیں ہوتی جو دشمن کے ساتھ جنگوں میں دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔
دہشت گردوں کے خلاف جنگ بھی تو ملک دشمنوں کے خلاف جنگ ہوتی ہے۔ اس میں اب تک ہمارے70،80 ہزار آفیسرز اور جوان شہید ہو چکے۔ان میں اگر نصف تعداد سویلین شہدا کی بھی ہو تو 40ہزار فوجی تو لاریب شہید ہوئے، لیکن ان کی تشہیر میں ہمارا میڈیا چشم پوشی سے کام لیتا ہے۔ یہ رجحان، پریشان کن ہے۔ جنگ دشمن(انڈیا) کے خلاف ہو یا دہشت گردوں کے خلاف، شہید ہونے والوں کو اس سے غرض نہیں ہوتی۔ وہ تو وطن پر قربان ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے ہندو دشمن ہو یا مسلمان دہشت گرد، دونوں پاکستان کے دشمن ہیں۔ لیکن ہم آئے روز دیکھتے ہیں کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے جو آفیسرز اور جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ان کا ذکر خبروں میں اکثر سب سے بعد میں کیا جاتا ہے اور صرف اتنا ہی کیا جاتا ہے جتناISPR والے بتاتے یا لکھ کر دیتے ہیں۔
کسی محترم صحافی کو خدا یہ توفیق عطا نہیں کرتا کہ وہISPR کے ہینڈ آؤٹ سے ہٹ کر دہشت گردوں سے دو بدو ہونے اور شہادت پانے کے معرکہ ہائے حق و باطل کی تفصیلات کا کھوج لگائے، ان کے لواحقین کی تلاش کرے،اُن کے دکھ درد کی تفصیل میں کوئی سپیشل ایڈیشن شائع کرے، کوئی سپیشل ٹاک شو ایسا بھی آن ائر کرے جس میں شہید ہونے والے افسروں اور جوانوں کے ان زخموں پر مرہم رکھنے کا سامان کرے جو اس نے وطن کی حفاظت کی خاطر برداشت کئے۔مجھے اگرچہ ایک آدھ ٹی وی پروگرام ایسا بھی دیکھنے اور سننے کو ملا جس میں شہید کے لواحقین کے غم و الم کو دکھایا اور سنوایا گیا لیکن یہ آٹے میں نمک والی بات ہے۔ مین سٹریم میڈیا اس ذیل میں ظالمانہ غفلت اور مجرمانہ چشم پوشی کا شکار ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فوج ایسا کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی کہ یہ معاملہ مورال شکنی پر منتج ہو سکتا ہے۔…… مجھے اس دلیل سے اتفاق نہیں …… ہم آئے روز لائن آف کنٹرول، بلوچستان اور کے پی (وزیرستان) میں شہدا کی وہی ”چار سطری“ خبر دیکھتے اور پڑھتے ہیں جو فوج (ISPR) کی طرف سے جاری کی جاتی ہے۔اس کا یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ قوم کا ایک بڑا طبقہ ان شہیدانِ وطن کی حب الوطنی سے بے خبر ہے۔اگر چلتے چلتے کوئی خبر نظر سے گزری بھی یا خبرنامے میں دکھائی اور سنوائی بھی گئی تو اس کا اثر نہایت واجبی سا ہوتا ہے۔ ہم ریٹائرڈ لوگ جب آپس میں مل بیٹھتے ہیں تو اپنے جونیئر بھائیوں، بھانجوں، بھتیجوں اور دور و نزدیک کے رشتے داروں کی داستان ہائے غم کی تفاصیل معلوم کرتے ہیں۔اکثر کو ہم جانتے بھی نہیں البتہ ان کے بڑے بوڑھوں اور اپنے ہم عمر دوستوں کو جانتے ہیں کہ جن کے عزیز و اقارب اس کرب سے گزرے۔ دوسرے لفظوں میں ان فوجیوں کی شہادتوں کا علم، ملک گیر یا قوم گیر نہیں ہو پاتا۔ صرف ایک محدود سا طبقہ ہوتا ہے جو خود کبھی وردی پوش رہا ہوتا ہے اور اس نے شہید ہونے والے آفیسر، جے سی او، این سی او یا سپاہی کی شہادت اور شہامت کی تفصیل سے آگہی پائی ہوتی ہے اور دِل ہی دِل میں ”انا للہ وانا الیہ راجعون“ والی آیت پڑھی ہوتی ہے۔…… یہ بے خبری یا بے التفاتی یا کوتاہ نظری یا دانستہ و نادانستہ بے پرواہی ایک ایسا جرم ہے جس کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری طرف ہم ایک طویل عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان میں 1999ء کی کارگل جھڑپ(یا جنگ) کے بعد کوئی جنگ نہیں ہوئی،لیکن جنرل مشرف نے جب2001ء میں نجی ٹی وی چینلوں کی کھیپ منظر عام پر لانے کا اذنِ عام دیا تو درجنوں چینل منصہ شہود پر جلوہ گر ہوگئے اور بہت سے قومی اور صوبائی/ علاقائی اخبارات کو ڈیکلریشن مل گیا۔ لیکن یہی دو عشرے 2001)ء تا(2021 ہیں جن میں پاکستان کا روائتی دشمن(انڈیا) تو ہم پر حملہ آور نہ ہوا (یا ہم نے اس پر حملہ نہ کیا) لیکن غیر روائتی دشمن (دہشت گرد) بڑے طمطراق سے حملہ آور ہوا اور ہزاروں فوجیوں کو ”نگل“ گیا!…… ان عسکری شہادتوں کے علی الرغم ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے ”سیاسی جنگ و جدال“ کی جس طرح عکس بندی کی اس کا ایک شائبہ بھی غیر سیاسی/دہشت گردانہ ”قتل و قتال“ کی کوریج پر صرف نہ کیا……
صبح سے شام اور شام سے صبح ہو جاتی ہے اور درجنوں چینل صرف اور صرف سیاسی ہنگاموں کی شوٹنگ کرتے رہتے ہیں یا سماجی آویزشوں اور جھگڑوں کی بے معنی سی عکس بندی پر سارا زور صرف کر دیتے ہیں۔ اخبارات کی شہ سرخیاں بھی اگر کسی دہشت گردانہ حملے میں کسی شہادت کی خبر شائع کرتی ہیں تو وہ صرف ”خانہ پُری“ کی ذیل میں شمار کی جا سکتی ہے۔ سارا اخبار دوسری لایعنی/ سیاسی خبروں سے بھرا ہوتا ہے۔ سیاسی ہنگامہ آرائی کا ایک ایک پل زینت ِ سکرین و قرطاس بنایا جاتا ہے۔ تفصیل میں جاؤں گا تو آپ کا وقت ضائع کروں گا۔ آپ خود دیکھ لیجئے کہ جو لوگ وطن اور قوم کو تقسیم کرنے کے در پے ہیں ان کی شبانہ روز کوریج کی جاتی ہے۔ کیمروں کی ایک فوج ظفر موج ہر سیاسی ریلی/جلسے کو کور (Cover) کرنے دوڑتی نظر آتی ہے لیکن جو لوگ وطن کو ایک رکھنے کے مکلف ہیں اور جو اس سعی و کاوش میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں ان کی دو سطری/ یک کالمی خبر اخباروں میں دے کر سرخروئی حاصل کر لی جاتی ہے یا خبر نامے میں چند سیکنڈ کی وہ وڈیو دکھا دی جاتی ہے جوISPR کی طرف سے موصول ہوئی ہوتی ہے۔…… کیا کسی نے مین سٹریم یا پرنٹ یا سوشل میڈیا کو روکا ہے کہ وہ وطن پر قربان ہونے والوں کے غم اندوہ اور ان کے لواحقین کے درد و کرب کی کوریج نہ کرے؟…… اگر فوج کا کوئی ترجمان اس کی مناہی بھی کرتا ہے تو کیا اس پر کوئی ٹاک شو آن ائر کر کے فوج کے بیانیے کے سامنے بند نہیں باندھا جا سکتا؟…… ہم کیسی قوم ہیں کہ وطن پر قربان ہونے والوں کے حالات سے بے خبر ہیں اور جو وطن کو بیچ کھاتے ہیں ان کے قصیدہ گو ہیں؟…… اور طرہ یہ کہ ڈھول کی تھاپ پر اعلان کرتے نہیں تھکتے:
ہم زندہ قوم ہے پایندہ قوم ہیں
ہم سب کی ہے پہچان……
ہم سب کا پاکستان، …… پاکستان، پاکستان