'ساس سسر اور والدین کو یہ حق نہیں کہ وہ پڑھی لکھی بچیوں کا علم باورچی خانے میں بند کریں،اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو پھر۔۔۔' مجیب الرحمان شامی نے یوم خواتین کے موقع پر مطالبہ کردیا
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن )معروف تجزیہ نگار اور سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے کہا ہے کہ خواتین کو گھر میں دبا کر رکھنے کی روایت ہندو معاشرے کی دین ہے ،یہ مسلمانوں کا کلچر نہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ کسی ماں باپ ،شوہر یا ساس سسر کو یہ حق حاص نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پڑھی لکھی خواتین کو نوکری کرنے سے روکیں اور ان کا سارا علم باروچی خانے میں بند کر کے رکھ دیں ، ایسے قانون بننے چاہئیں جن کے تحت اگر سسرال والے یا ماں باپ پڑھی لکھی خواتین کو نوکریاں نہیں کرنے دیتے تو پھر انہیں جرمانے کے ساتھ قوم کی رقم واپس کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اگر فقہ اور احادیث کو دیکھا جائے تو گھر کا کام کرنا عورت کی ذمہ داری نہیں ،اگر کوئی عورت نوکری کرتی ہے تو اس کی آمدنی پر حق بھی اسی کا ہے ۔
یو ٹیوب چینل لمحہ نیوز پر میزبان ڈاکٹرسویرا شامی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب میرے گھر بیٹی پیدا ہوئی تو بہت خوشی ہوئی کیونکہ اس سے پہلے اللہ نے مجھے اولاد نرینہ کی نعمت سے نواز دیا تھا،پہلے دو بیٹے پیدا ہو چکے تھے اگر تیسرا بھی بیٹا پیدا ہوتا تو پھر تھوڑی مایوسی ہوتی اور دل ذرا ٹوٹ جاتا کیونکہ اس بار بیٹی کی خواہش تھی ۔ان کا کہنا تھا مجھے بیٹی کی پیدائش بہت اچھی لگتی ہے کیونکہ رسول پاک ﷺ کے ہاں بھی بیٹی کی پیدائش ہوئی،بیٹی کی پیدائش کا اپنا مزہ ہے ،میں نے اپنی بیٹی کی پیدائش پر مٹھائی بانٹ کر خوشی کا اظہار کیا تھا ۔
مجیب الرحمان شامی نے کہا ہمارے گھرانے میں بیٹی اور بیٹے میں تفریق نہیں کی جاتی تھی ،میری والدہ کا گھر میں حکم چلتا تھا اور والد صاحب گھریلو معاملات میں کم دخل دیتے تھے ،میری والدہ پر اعتماد طریقے سے گھر چلاتی تھیں ،ہماری والدہ سخت رویے کے ساتھ ہمیں ڈسپلن میں رکھتی تھیں۔میزبان ڈاکٹر سویرا شامی نے سوال کیا کہ عام طور پر لوگ اپنے بیٹوں کو زیادہ پڑھاتے لکھاتے ہیں لیکن آپ نے اپنی بیٹی کو بھی یکساں مواقع فراہم کیے ،آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ بیٹی نے اگلے گھر چلے جانا ہے ،اسے پڑھا لکھا کر کیا کرنا ہے؟اس سوال پر مجیب الرحمان شامی نے جواب دیتے ہوئے کہا مجھے شوق تھا کہ ہمارے گھر میں کوئی ڈاکٹر بن جائے لیکن بیٹی ماس کمیونیکیشن کی طالبہ بنی اور پھر پی ایچ ڈی ڈاکٹر بن گئی ،یہ خواہش بہو نے پوری کی ،عثمان شامی کی شادی کے بعد ڈاکٹر مہک ہمارے گھر آئیں اور اب دو ڈاکٹر ہو گئے ،ایک میری بیٹی ڈاکٹر ہے اور دوسری بہو ڈاکٹر ہے ۔سینئر صحافی نے کہا کہ میرے پاس بہت سی ایسی شکایات آتی ہیں کہ سسرال والے پڑھی لکھی خواتین کو نوکریاں نہیں کرنے دیتے اور کہتے ہیں کہ گھر کے کام کاج اور بچوں کو سنبھالو ،ان شکا یات پر میں ہمیشہ بچیوں کی حمایت کرتا ہوں ،میں نے سابق وزرائے اعظم شوکت عزیز اور یوسف رضا گیلانی سے بھی اس بارے میں بات کی کہ ایسا قانون بننا چاہیے کہ جس کے تحت سسرال والوں کو یہ حق حاصل نہ ہو کہ وہ پروفیشنل ڈگری ہولڈرز اور پڑھی لکھی خواتین کو گھر بٹھائیں،ایسا کرنے پر انہیں سزا دی جانی چاہیے،پڑھی لکھی خواتین کو نوکریاں نہیں کرنے دی جاتی جس سے ملک کا ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے ،میں نے بار بار حکومتوں سے یہ بات کی ہے لیکن انہیں اپنی سیاست سے فرصت ملے تو پھر عقل کی بات ہو اور ایسے اقدامات کیے جائیں ۔
میزبان نے سوال کیا کہ ہمارے معاشرے میں مرد کو کیوں یہ شوق ہے کہ عورت کو دبا کر گھر میں رکھنا ہے ۔اس پر جواب دیتے ہوئے مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ یہ ہندو معاشرے کا کلچر ہے ،یہ مسلمانوں کی روایت اور عرب کلچر نہیں ہے ،عورت کی اپنی حیثیت ہے ،اگر ہماری فقہ اور احادیث کو دیکھیں تو گھر کا کام کرنا عورت کی ذمہ داری نہیں ہے ،روٹی پکانا ،کھانے کا اہتمام کرنا،بچے کو دودھ پلانا عورت کی ذمہ داری نہیں،اس کا معاوضہ اپنے شوہر سے طلب کر سکتی ہے ،اگر کوئی خاتون نوکری کرتی ہے تو اس کی آمدنی پر حق بھی اسی کا ہے ،وہ اپنی مرضی سے گھر پر جتنا چاہے خرچ کر سکتی ہے۔رسول پاک ﷺ حضرت خدیجہ کے مال کی تجارت کرتے تھے اور شراکت تھی ۔ایک عورت رسول پاکﷺکے پاس آئی اور فرما یا یار سول اللہﷺمیرا شوہر بڑا غریب ہے میں اپنی زکوة اسے دے دوں؟ آپﷺ نے کہا وہ اولین مستحق ہے ۔ڈاکٹرسویرا شامی نے سوال کیا کہ کیا عورت مارچ ٹھیک ہے ؟ مجیب الرحمان شامی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک حد تک بالکل ٹھیک ہے لیکن یہ حقوق مانگنے کی بات نہیں ہے ،لوگوں کو تعلیم دے کر اس معاملے کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایسا جہالت کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔ویڈیو دیکھیں ۔۔۔۔۔۔۔