حکومت نہ بتائے ہمیں کیا کرنا ہے ،براہ راست نشریات عدالت کااختیارہے حکومت کا نہیں ،سپریم کورٹ

حکومت نہ بتائے ہمیں کیا کرنا ہے ،براہ راست نشریات عدالت کااختیارہے حکومت کا ...
حکومت نہ بتائے ہمیں کیا کرنا ہے ،براہ راست نشریات عدالت کااختیارہے حکومت کا نہیں ،سپریم کورٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستوں کی کارروائی براہ راست دکھانے کی درخواست پرسماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ وفاقی حکومت نہ بتائے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ،براہ راست نشریات عدالت کااختیارہے حکومت کا نہیں۔
نجی ٹی وی اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستوں کی کارروائی براہ راست دکھانے کی درخواست پر سماعت جاری ہے، جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے جسٹس فائز کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیدی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ کارروائی براہ راست نشر کرنے کی استدعا نہیں کی جاسکتی ،نظرثانی کیس میں184/3 کی درخواست دائر نہیں ہو سکتی ،نظرثانی کیس میں کوئی نیا موقف نہیں اپنایا جاسکتا،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ قانون میں کھلی عدالت میں سماعت کا ذکر ہے میڈیا پر نشرکرنے کا نہیں ۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ براہ راست نشریات میڈیا کا حق ہے کسی فریق کا نہیں ،کسی میڈیا ہاﺅس نے براہ راست نشریات کی درخواست نہیں دی ،عامر رحمان نے کہاکہ کیاآزادی اظہار رائے کا مطلب براہ راست نشریات ہے؟جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ کہتے ہیں میڈیا پر پابندیاں ہیں ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت نے ہمیشہ میڈیا کی آزادی کی بات کی ہے ،عدالت نے کبھی سماعت کی براہ راست کوریج میڈیا کا حق قرارنہیں دیا۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ جسٹس فائز کا انحصار غیرملکی عدالتوں کے فیصلوں پر ہے ،اے اے جی نے کہاکہ میڈیا کی آزادی بھی قانون سے مشروط ہے مطلق نہیں ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ وفاقی حکومت نہ بتائے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ،براہ راست نشریات عدالت کااختیارہے حکومت کا نہیں ،اے اے جی نے کہاکہ حکومت کاموقف ہے یہ عدالتی نہیں سپریم کورٹ کاانتظامی معاملہ ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ حکومت کا ہمیں بتانے کااختیار نہیں توکسی سائل کا بھی نہیں ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالتی اورپارلیمانی کارروائی کی براہ راست نشریات میں فرق ہیں ،پارلیمان میں بحث عمومی، عدالت میں ٹیکنیکل ہوتی ہے ،عدالتی کارروائی میں استعمال زبان عام فہم نہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ ہم گلوبل ویلج میں رہ رہے ہیں دنیاکیساتھ چلنا ہوگا،عدالتی کارروائی میں کچھ بھی خفیہ نہیں ہوتا،سپریم کورٹ اس ملک کے عوام کی عدالت ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ گوادرکاشہری عدالتی کارروائی دیکھنا چاہے توکیسے روک سکتے ہیں؟شترمرغ کی طرح گردن زمین میں دیکر بیٹھنے کا فائدہ نہیں ،وکیل یا جج کوئی بدتمیزی کرے تو عوام کومعلوم ہوناچاہئے ۔