ہم بدلنے والے نہیں! 

ہم بدلنے والے نہیں! 
ہم بدلنے والے نہیں! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


فرعون کی اہلیہ نے خود کو تب بدلا جب وہ خدائی کا دعویٰ کرنے والے شخص کے محل میں رہتی تھیں جبکہ حضرت نوح علیہ السلام کے صاحبزادے نے اس وقت بدلنے سے انکار کیا جب وہ نبیؐ کے گھر میں رہتا تھا۔ یہ بات حقیقت سے قریب تر ہے کہ خود کو بدلنے یا نہ بدلنے کا فیصلہ ہمارا اپنا ہوتا ہے۔ زندگی کے معاملات کو حالات کے سر تھونپنا، تمام مسائل کی جڑ ابتر حالات کو قرار دینا، خود کچھ نہ کرنا، خود کو نہ بدلنا ہمارا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ ہماری قوم نے پکا ارادہ کر لیا ہے کہ جو مرضی ہو جائے۔ ہم نے تاقیامت ایسے ہی رہنا ہے۔ جھوٹ، دھوکہ، ملاوٹ، کم تولنا اور رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں ذخیرہ کی گئی گھٹیا ترین اشیا کو انتہائی مہنگے داموں فروخت کر کے سارے سال کی کسر نکالنا تو کوئی ہم سے سیکھے۔ خیر سے سال میں اپنی کمائی کا ایک ہی تو مہینہ آتا ہے۔ ہماری بلا سے کوئی ناقص خوراک کھا کر مرے یا جئے۔ ہم نے کونسا مرنا ہے اور مر گئے تو قبر وحشر کو کس نے دیکھا ہے اور قبر میں جانے والے نے آکر کسی کو بتایا تھوڑا ہے کہ وہاں اس کے ساتھ کیا بیتی ہے۔ کیا ہوا اگر تھوڑا حرام کا مال یا افراد کا حق کھا بھی لیا ہے۔ جناب ہم نے کلمہ پڑھ رکھا ہے۔ روز محشر کالی کملے والے نبی آخر الزماں پیارے کریم مدنی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش ہم جیسے گناہ گاروں کے لئے ہی تو ہے اور پھر ہر سال عمرہ اور حج ہمارے گناہ بخشوانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ ہم رمضان شریف کے مقدس ماہ میں دن کو ہیرا پھیری کریں گے۔ رات کو تراویح بھی پڑھیں گے اور ہزاروں لوگوں کو افطاری کروا کر اللہ کے ہاں سرخرو ہو جائیں گے اور اللہ کی راہ میں خیرات کرنے والا کوئی ہم سا ہے تو سامنے لائیے۔ 


خاکسار نے ایک فکری نشست کے دوران ایک ارب پتی تاجر سے کہا۔ اللہ سوہنے کا آپ پر خاص کرم ہے۔ کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے۔ عزت، دولت،شہرت سبھی کچھ تو ہے۔ آپ ہر سال رمضان کریم میں اپنے ملازمین کو ایک تنخواہ بونس کے طور پر دے دیا کریں۔ ملازمین کو سال میں 15 چھٹیاں تنخواہ کے ساتھ زبردستی دیا کریں تاکہ وہ خوشی و غمی یا ایمرجنسی کی صورت میں ذہنی طور پر ان چھٹیوں کی بدولت پرسکون ہو کر کام کر سکیں۔ میں نے اس بزنس مین کو بتایا کہ ترکی میں ایک خاندان مکھن اور پنیر کا کام کرتا تھا۔ اچھے مستقبل کی تلاش میں اس خاندان کا ایک فرد امریکہ آ کر سکونت پذیر ہو گیا۔ اس شخص کے دوستوں نے اسے امریکہ میں اپنے آباؤ اجداد کا جدی پشتی کام شروع کرنے کا مشورہ دیا۔ اس آدمی نے اپنے دوستوں سے کہا۔ وہاں ترکی میں بھی مکھن، پنیر کا کام اور یہاں امریکہ میں بھی وہی کام وہ کوئی نیا کام کیوں نہ کرے؟ بالآخر اس نے بینکوں سے قرض لیکر مکھن، پنیر کا کام شروع کیا۔ دیکھتے دیکھتے۔ اس کا کام پھیلتا گیا حتیٰ کہ اس کے مکھن اور پنیر کی ہرطرف دھوم مچ گئی۔ ترکی کا وہ شخص ناصرف ارب پتی بن گیا بلکہ امریکی بزنس کمیونٹی کے بڑے ایوارڈ کا مستحق بھی قرار پایا۔ جب ترکی سے امریکہ پلٹ شخص سے اس کی کامیابی کا راز پوچھا گیا تو اس نے سادہ سے الفاظ میں کہا کہ جھوٹ سے پرہیز، ایمان داری سے مال بیچنا اور سب سے بڑھ کر اپنے ملازمین کو دل و جان سے عزیز رکھنا، ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا، ان کو غلام نہ سمجھنا، کامیابی کی کنجی ہے۔ 


قارئین، راقم نے اپنے تاجر دوست سے کہا کہ آپ بھی اگر ترک نژاد امریکی تاجر کی طرح اپنے ملازمین کو سر آنکھوں پر بٹھا کر اللہ کی رضا کے لئے ان کی مدد کریں گے۔ آپ یقین جانئے۔ اس کرہ ارض پر اللہ کسی ایک بھی شخص کا قرض نہیں رکھتا ہے۔ وہ رب کریم آپ کو نقصان سے بچائے گا۔ بیماری آپ سے کوسوں دور بھاگے گی۔ آپ کو علاج و معالجے کے لئے ہر ماہ ڈاکٹرز کے درشن نہیں کرنا پڑیں گے اور رمضان مقدس میں ملازمین کی مدد کرنے کو اللہ کے سات سو گنا سے ضرب دے دیجئے اور اللہ کے سات سو گنا کا حساب بھلا کون کر سکتا ہے۔ میری باتوں کو سن کر کمپنی کے مالک نے کہا، ڈاکٹر صاحب بات تو یقین کی ہے، میں نے کہا، اسی یقین اور امید پر تو دنیا قائم ہے۔ آپ ایک بار کر کے تو دیکھیں ……!


میں نے ان سے کہا۔ آپ ایک خیراتی اسپتال بھی چلا رہے ہیں۔ وہاں ہر ماہ بیس، پچیس لاکھ کی ادویات مریضوں کو مفت دیتے ہیں۔ پندرہ، بیس لاکھ روپے ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ کرتے ہیں کہ اللہ آپ کی خیرات کو قبول کر لے مگر دوسری طرف آپ کھڑے کھڑے لوگوں کو نوکری سے نکال بھی دیتے ہیں۔ ملازمین کو ایک دن کی چھٹی بھی نہیں دیتے۔ خوشی و غمی یا ایمرجنسی تک کو خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ کس قسم کی خیرات ہے۔ آپ کے گھر کے لوگ بھوکے ہیں۔ آپ مریضوں پر تو لاکھوں روپے نچھاور کر رہے ہیں مگر لوگوں کا حق کھانے میں آپ کا کوئی ثانی نہ ہے۔ خدارا! مظلوم کی آہ سے بچیں۔ عقل والوں کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا نشانیاں ہوں گی کہ اللہ تعالیٰ خیرات کا اجر سات سو گنا دیتا ہے تو حق کھانے والے کے نقصان کو بھی سات سو سے ضرب دے دیجئے!


میں نے اپنے تاجر دوست سے کہا۔ یہ ناچیز اس شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لے گا جو میرے اس سوال کا جواب دے دے کہ مریضوں پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کا تو ثواب ہے مگر ان مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور عملہ کو معقول تنخواہ اور ان کو ان کا جائز حق دینا گناہ ہے۔ میری بات سن کر وہ امیر شخص اپنا سا منہ لیکر رہ گیا۔ بدقسمتی سے اپنے دیس میں کھانے، دکھانے اور فارمولے کے ساتھ گناہ اور ثواب کے بھی اپنے اپنے معیار ہیں۔ قارئین نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سے کون انکار کر سکتا ہے۔ ان سے روگردانی پر چھترول تو ہو گی لیکن جنت میں لیجانے کی ضمانت تو مخلوق کی خدمت سے عبارت ہے۔ بطور ڈاکٹر اپنا مشاہدہ لکھ رہا ہوں کہ صبح سے شام تک مریضوں کو اپنا باپ، ماں، بہن، بیٹا، بیٹی سمجھ کر علاج کرنے والا ناصرف اللہ کے بہت قریب ہو جاتا ہے بلکہ اس ڈاکٹر کے روزمرہ کے رکے ہوئے کام ایسے ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور یہ بات بھی پتھر پر لکیر ہے کہ مخلوق کی خدمت کے اس اجر کو انسان اگر جان لے تو وہ چوبیس گھنٹے انسانوں کی خدمت ہی کرتا رہے۔ 
صد افسوس! زندگی اور کاروبار کو چار چاند لگانے والے میرے قیمتی مشورے کے جواب میں کہنے والا شخص کہ ڈاکٹر صاحب بات تو یقین کی ہے، اس جہان فانی سے کوچ کر گیا اور کاروبار میں بھی کروڑوں کا نقصان ہو گیا۔ اللہ سوھنا ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔ 

مزید :

رائے -کالم -