لمحہ موجود کی صورتحال!!
لمحہ موجود میں جو صورتحال نظر آ رہی ہے ضروری نہیں کہ وہ اسی طرح آئندہ انتخابات تک جاری رہے۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اگر صورتحال تبدیلی ہوئی تو وہ کس کے حق میں ہو گی ہمارے ملک کی سیاست کے تو رنگ ہی نیارے ہیں۔ پورے یقین سے پیشگوئی کرنے والوں کو عموماً یوٹرن لینا پڑتا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں کبھی کی مقبول ترین سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی تین صوبوں پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں چاروں شانے چت تھی۔ صرف سندھ بلکہ صرف اندرون سندھ میں کامیابی ملی۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تو صفایا ہی ہوگیا۔ صرف 1.8 فیصد ووٹ حاصل کر سکی اور چوتھے نمبر پر آئی۔ اہل پنجاب نے کہنا شروع کر دیا کہ ”پیپل پارٹی دی گل مک گئی اے“ آصف علی زرداری نے اپنے تمام تر سیاسی تجربے اور مہارت کو استعمال کرتے ہوئے زرداری خاندان کے چشم و چراغ بلاول کو بھٹو کا لاحقہ لگا کر پارٹی سربراہ بنایا ہی اس لئے تھا کہ بھٹو دور کی جذباتی محبت کو پھر سے اجاگر کیا جائے۔ اردو زبان پر کمزور گرفت کے باوجود بلاول نے جدوجہد جاری رکھی اور ہر عوامی جگہ پر اردو کو ہی اظہار خیال کا ذریعہ بنایا۔ اس سے یہ تو ہوا کہ ان کی زبان دانی پر بننے والے لطیفے کم ہو گئے۔ اب انہوں نے ایک قدم آگے بڑھایا اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے اعلان کردہ 23 مارچ کے لانگ مارچ سے پہلے ہی تنہا پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ کراچی سے شروع کر دیا۔
سندھ میں تو اس مارچ کو پذیرائی ملنا متوقع تھی۔ پنجاب البتہ چیلنج تھا۔ پنجاب کا سندھ سے آتے ہوئے پہلا ضلع رحیم یار خاں بھی پیپلزپارٹی کے لئے زرخیز سمجھا جاتا ہے۔ سابق گورنر مخدوم احمد محمود نے ہر الیکشن میں اپنے ضلع رحیم یار خاں سے اچھے نتائج دیئے ہیں۔ یہاں بھی بلاول کا پر جوش استقبال ہونے کے امکانات روشن تھے۔ اس کے بعد البتہ پی پی رہنماؤں کے لئے آزمائش تھی۔ جس میں پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب نے مخدوم احمد محمود اور سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں خاصی حد تک کامیابی حاصل کر لی۔ مارچ کے روٹ پر آنے والے ہر شہر میں بلاول بھٹو زرداری کے جلسے کامیاب رہے۔ ناقدین کا اگرچہ یہ کہنا ہے کہ بلاول سندھ سے ہی ہجوم ساتھ لے کر چل رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اچھا تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ اسلام آباد میں لانگ مارچ کیا نتائج حاصل کرتا ہے اس کا پتہ تو وہاں پہنچ کر ہی چلے گا البتہ لانگ مارچ نے جیالے کو جگایا ہی نہیں پرجوش بھی کر دیا ہے۔ یہی بلاول اور آصف زرداری کی کامیابی ہے۔ پیپلزپارٹی کے اچھے شو میں مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔ وہ اس طرح کہ لانگ مارچ کے پورے عرصے میں مسلم لیگ (ن) عدالتیں ہی بھگتتی رہی عوام میں آکر توجہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یوں میڈیا کی پوری توجہ پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ پر ہی رہی۔ متوقع تحریک عدم اعتماد میں بھی سابق صدر مملکت آصف زرداری کے فعال ہونے سے پیپلزپارٹی کو فائدہ ہوا ہے۔
پی پی کے لانگ مارچ میں آصف زرداری نے اپنی چھوٹی بیٹی آصفہ کو بھی متحرک کر کے اپنی فیملی کا ایک اور چہرہ نمایاں کر دیا ہے اور کہہ بھی دیا ہے کہ پنجاب میں آصفہ بھٹو زرداری پیپلزپارٹی کا چہرہ ہوں گی۔ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں پی ٹی آئی قیادت سے زیادہ مسلمہ لیگی قیادت مریم نوازشریف کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ خود مریم نے لانگ مارچ کے دوران آرام کر کے پیپلزپارٹی اور آصفہ بھٹو زرداری کو جگہ دی ہے۔ وہ مسلسل بلاول کے ساتھ ٹرک پر سوار رہیں۔ خانیوال میں جلسہ کے دوران جب بلاول خطاب کر رہے تھے تو ایک چینل (سماء ٹی وی) کا ڈرون کیمرہ آصفہ کے چہرے سے ٹکڑا گیا۔ انہیں فوری طور پر ملتان کے بختاور امین ہسپتال پہنچایا گیا۔ پانچ ٹانگے لگے۔ وہاں سے نکلنے لگیں تو ایکسپریس کے بیورو چیف اور صدر ملتان پریس کلب شکیل انجم نے اپنے موبائل سے ان کی تصویر بنائی۔ ان کے ایک سیکیورٹی گارڈ نے موبائل چھین لیا اور انہیں زبردستی گاڑی میں بٹھا کر خانیوال کی جانب تیزی سے روانہ ہو گئے۔ راستے میں برا بھلا کہا اور موبائل کا سارا ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیا۔ ملتان سے سترہ اٹھارہ کلومیٹر دور جا کر ویرانے میں شکیل انجم کو موبائل دے کر اتار دیا۔ اس واقعہ پر صحافیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ ابھی تو سرکار کا پیکا قانون صحافیوں پر نازل نہیں ہوا اور پیپلزپارٹی کا غیر اعلانیہ پیکا قانون لاگو ہو گیا۔ اس کی خبر جب پی پی قیادت کو ہوئی تو بلاول بھٹو زرداری سمیت ہر قابل ذکر رہنما نے فون پر شکیل انجم سے معذرت کا اظہار کیا۔ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادگان خود چل کر ان کے پاس پہنچے اور پارٹی کی طرف سے معذرت کی جو قبول کر لی گئی۔ یوسف رضا گیلانی خود بلاول کی ہدایت پر اسلام آباد جا چکے تھے ورنہ وہ اپنے شہر کے صحافی سے ملتے خیر یہ معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹ گیا۔
اگلے دن جب بلاول بھٹو لاہور میں ناصر باغ کے باہر جلسہ کر رہے تھے تو پی ٹی آئی کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان جنوبی پنجاب کے زرعی شہر میلسی میں جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ میلسی ضلع وہاڑی کا ایک تحصیلی صدر مقام ہے۔ یہ دیہی شہر ہے جس کی آبادی بھی کوئی زیادہ نہیں اس کے باوجود پی ٹی آئی خاصا بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب رہی اور وزیر اعظم عمران خان بھی عوام کا جم غفیر دیکھ کر جذباتی ہو گئے اور اپوزیشن دور کی یاد تازہ کر دی وہ موجودہ اپوزیشن پر اتنا گرجے برسے کہ وزیر اعظم نہیں اپوزیشن لیڈر لگ رہے تھے منڈی بہاؤ الدین کے بعد میلسی میں کامیاب جلسہ عام نے پی ٹی آئی کے اس دعوے کو تقویت دی ہے کہ کپتان ابھی بھی عوام میں مقبول ہے۔ اس موقعہ پر البتہ یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ شاہ محمود قریشی نے سندھ میں بلاول کے لانگ مارچ پر سرکاری پیسہ خرچ ہونے کا جو الزام لگایا تھا، وزیر اعظم کے جلسوں کے بعد اس کی کیا حیثیت رہ گئی۔ سرکاری مشینری کے تعاون سے وزیر اعظم کا جلسہ اگر جائز ہے تو بلاول کا جلوس کیسے ناجائز ہو گیا؟
بلاول کے لانگ مارچ سے حکومت کا تختہ ہونے کا دعویٰ درست ثابت ہو یا نہ ہو یہ بات درست لگتی ہے کہ عمران کا متبادل شہباز، حمزہ یا مریم نواز کی بجائے بلاول کو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ادھر عمران خان بڑے شہروں کی بجائے دیہی شہروں میں بڑے بڑے جلسے کر کے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ کپتان ہی مرد میدان ہے۔ ادھر ادھر نہ دیکھا جائے بلاول کے لانگ مارچ سے پنجاب پیپلزپارٹی کے تن مردہ میں نئی روح پھونکی جا رہی ہے اور جیالوں کی توقعات ایک بار پھر آسمان سے باتیں کر نے لگیں گی لیکن ابھی پنجاب فتح کرنا پیپلزپارٹی کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ ابھی پنجاب کے دو بڑے شہروں لاہور اور فیصل آباد سمیت جی ٹی روڈ کے گنجان آباد شہروں میں مسلم لیگ (ن) اور نوازشریف کی مقبولیت میں دم ہے۔ پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ میں جتنے لوگ شریک ہیں وہ سارے کے سارے اور ان کے گھرانے کسی ایک شہر میں ووٹ بنوا لیں اور ووٹ بھی ڈالیں تب بھی دو تین قومی اسمبلی کی نشستوں سے زیادہ نکالنا مشکل ہوگا۔ لانگ مارچ کو بلاول اور پیپلزپارٹی کا اچھا شو تو کہا جا سکتا ہے لیکن ابھی پنجاب میں بلاول کی لہر نہیں آئی جو الیکشن میں کامیابی کے لئے ضروری ہوتی ہے اور اگلی باری لینے کے لئے الیکشن جیتنا ضروری ہے جس کے امکانات ابھی واضح نہیں ہیں۔ خوش ہونے کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ ندیم افضل چن کی صورت میں تحریک انصاف کی اہم وکٹ گرا دی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ندیم افضل چن پیپلزپارٹی سے ہی تحریک انصاف میں گئے تھے۔ اب واپس اپنے گھر آ گئے ہیں اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ جب وہ تحریک انصاف کی لہر کے دوران 2018ء میں تحریک انصاف کے ٹکٹ یافتہ امیدوار تھے تو تب بھی ہار گئے تھے۔ اب وہ اپنی پارٹی کو کیا فائدہ پہنچالیں گے۔ پیپلزپارٹی کو آئندہ الیکشن میں نپجاب سے فیصلہ کن اکثریت اسی صورت مل سکتی ہے کہ تحریک انصاف غیر مقبول ہو جائے اور مسلم لیگ (ن) کو غیر قانونی جماعت قرار دے کر الیکشن سے باہر کر دیا جائے۔ پھر سونی گلیوں میں مرزا یار پھر سکتا ہے بلکہ دھمال بھی ڈال سکتا ہے۔