تبدیلی ہوش مندی کا تقاضا کر رہی ہے

تبدیلی ہوش مندی کا تقاضا کر رہی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج ملک میں تبدیلی کا نعرہ زور شور سے لگایا جا رہا ہے، بالخصوص میڈیا پر اس نعرے کی گونج سنائی دے رہی ہے اور نوجوانوں میں بھی یہ خواہش واضح نظر آرہی ہے ۔نوجوانوں کی خوش فہمی اور میڈیا کی ہوس بے معنی بھی نہیں، ملک کی ابتر صورت حال، خدمت کے نام پر لوٹ مار ، مفاہمت کے نام پر منافقت ، ترقی کے نام پر کرپشن کا جو بازار گرم رہا،اس نے جمہوریت کے نام پر عوام پر مسلط زرداروں کے ٹولے کی اہلیت اور حب الوطنی کا پول کھول دیا ۔کرپشن ، مہنگائی ، افراطِ زر ، بے روزگاری، لاقانونیت، قتل و غارت اور سیاسی دشنام طرازی نے نہ صرف عوام کی کمر توڑ دی ہے ،بلکہ ملک کی سا لمیت کو بھی داﺅ پر لگا دیا ہے ،نتیجتاً ہر سُومایوسی کے گہرے بادل چھا گئے ۔”گڈ گورننس“ کے تماشے نے واپڈا، پی آئی اے ، سٹیل مل جیسے اداروں کو بے حال کر دیا ہے، لیکن بدنیت بھوکے حکمرانوں کی بھوک ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ایسے حالات میں تبدیلی کا خیال، بہتری کی آرزو، اور روشن مستقبل کی امید ہی محفوظ و مستحکم پاکستان کی ضامن ہو سکتی ہے، مگرہم پاکستانی تبدیلی کے نام پر اتنی بار دھوکہ کھا چکے ہیں کہ اب تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں پر یقین ہی نہیں آرہا .... جبکہ محض نعروں سے تبدیلی ممکن بھی نہیں۔
قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کی محلاتی سازشوں کی سیاست سے اکتائے پاکستانی بھٹو کی تبدیلی کے نعرے کے اسیر ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ، شعلہ بیان مقرر اور عوامی نبض شناس راہنما کے طور پر جاگیردارانہ پس منظر کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا ۔ پوری قوم بالخصوص نوجوان تبدیلی کی اس مہم میں ان کے شانہ بشانہ ہو گئے ،مگر 1970ءکے انتخابات کا پہلا نتیجہ سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں برآمد ہوا۔ بلا شبہ یہ بہت بڑی تبدیلی تھی، پاکستان کا نقشہ تک بدل گیا۔پھر1971ءسے 1977ءتک اسلامی سوشلزم کے نام پر جو تبدیلیاں اس قوم نے دیکھیں ،انہیں بُھلا دینے میں ہی عافیت سمجھی گئی۔ذوالفقار علی بھٹو کی تبدیلیاں جب عوام کو نہ بھائیں تو تبدیلی کے روایتی ٹھیکیداروں نے ”تحریک نظام مصطفی‘ کا نعرہ بلند کیا ، عوام سڑکوں پر آئے اور اس تبدیلی کے نتیجے میں ضیاءالحق برآمد ہوئے پھر اسلامائزیشن کے نام پر ایسی تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں کہ عوام تو مدہوش رہے ،مگر قدرت کو حرکت میں آنا پڑا اور ضیائی اسلام کا باب فضا میں ہی بند کر دیا گیا ۔ ضیاءالحق کے بعد تبدیلی کا نعرہ تو سنائی نہ دیا، تاہم سیاسی قیادت کی گتھم گتھا سیاست نے عوام کو پریشان ضرور کر دیا ۔ اس دوران کہیں کہیں سے تبدیلی کی آواز پھر سنائی دینے لگی ۔
 1990ء کے انتخابات میں ”مصطفوی انقلاب“ کی دھوم ایسی گونجی کہ لوگ طاہر القادری کو قائد انقلاب کہنے لگے، مگر الیکشن کے نتائج نے ثابت کیا کہ عوام تبدیلی کے پہلے دھوکوں کے باعث اب محض خالی خولی نعروں سے متاثر ہونے والے نہیں۔ 93 کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ نے اسلامک فرنٹ کو تبدیلی کا ایجنٹ بنا کر پیش کیا ،مگر تبدیلی کا خواب پھر چکنا چور ہوا ،تاہم نادیدہ قوتیں نواز لیگ کو نقصان پہنچانے کے مقاصد میں کامیاب ہو گئیں۔ 97ءکے الیکشن میں عمران خان کامیاب چیرٹی مہم اور نیک کام کے بعد خود کو تیسری قوت سمجھنے لگے تھے۔ اس کے لئے انہوں نے پسِ چلمن رابطے بھی کئے، مگر تبدیلی کا خواب دن کو تارے گننے سے زیاہ متاثر کن ثابت نہ ہوا۔ 2002ءکے الیکشن میں عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں کردار کے ثمر میں ایک سیٹ پر کامیابی کا تحفہ حاصل کیا اور وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر ابھرے۔
ایک سیٹ کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے لئے سودے بازی کی کوشش عمرانی نرگسیت کا کمال تھی یا عمران خاں کے سیاسی فہم و مقاصد کا عکس.... خدا بہتر جانتا ہے ۔ وزارت عظمیٰ سے محرومی کی تاب نہ لاتے ہوئے تبدیلی کے علمبرداروں نے 2008ءکے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا ۔ اب ملک میں نئے الیکشن سے قبل ایک بار پھر سیاسی گرما گرمی شروع ہو گئی ہے اور ہر کوئی تبدیلی کے ایجنٹ کے طور پر اپنا تعارف کروا رہا ہے ۔ ملک میں تبدیلی ناگزیر ہے ،اس کے لئے ضروری ہے کہ مضبوط اور متبادل فکر و عمل کا لائحہ عمل پہلے ترتیب دیا جائے ۔ ساٹھ کے عشرے کے آخر میں تبدیلی کی ایسی ہی لہر چلی تھی اور تبدیلی کے جعلی ایجنٹوں کے ہاتھ میں یرغمال قوم نے ملک کو دو لخت ہوتے دیکھا ۔ ایک بار پھر ہم تبدیلی کے کنارے پر کھڑے ہیں ،مگر ہمیں خبردار رہنا ہے کہ حقیقی تبدیلی کی عوامی امنگ نادیدہ قوتوں کے مہرے ہائی جیک نہ کر لیں ۔
 اسے قومی بدقسمتی کے سوا کیا کہیے کہ تبدیلی کے سارے ٹھیکیدار پرانے روایتی کھلاڑی ہیں او ر اپنے پچھلے کرموں پر معافی کی گنگا میں نہا کر پوتر ہونے والے یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ اپنی سیاسی کم فہمی کی بنا پر عوامی جذبات سے کھیلنا اور کھیلتے رہنا بد ترین اخلاقی کرپشن ہے ۔ ہماری قومی نرگسیت یا مریضانہ خود پسندی کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ بغیر سوچے سمجھے کریڈٹ اپنے لئے رکھ کر ملامت دوسروں پر ڈال دیتے ہیں ۔ ہماری نرگسیت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ہمارے بلند آواز رہنماﺅں کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی انہیں اپنی آواز کے سو ا کچھ سننے ہی نہیں دیتی۔ تبدیلی کی پُرجوش تحریک کی تہہ میں بہت سی خوش فہمیاں اور غلط فہمیاں ہیں، جن سے سیاسی کرختگی میں اضافہ ہوا ہے ۔ وہ عناصر جن کے دانت اس ملک کی شہہ رگ میں پیوست ہیں اور جن کی پیاس مٹاتے مٹاتے یہ ملک سوکھی ریت کا صحرا بن گیا ہے ،ان کا مہرہ بن کر تبدیلی کی خواہش کرنا سعی لا حاصل کے سوا کچھ نہیں۔
 بلا شبہ حقیقی تبدیلی کی تحریک کا رہنما صحت مند ذہن، تخلیق کار اور غیر برگشتہ شخص ہوتا ہے۔ وہ محبت سے اور منطق سے دوسروں سے اپنا رشتہ استوار کرتا ہے ۔ تبدیلی کے علمبردار اگر تبدیلی کے آرزو مند ہیں تو اب تک انہوں نے کوئی تھنک ٹینک بنا کر ایسی متبادل سیاسی ، معاشی ، خارجہ و داخلہ پالیسیاںکیوں ترتیب نہیں دیں، جن کے ثمرات سے اس ملک کو جنت نظیر بنایا جا سکے ۔نعرے منشور نہیںہوتے بلکہ بے عمل سیاسی مہم جو¶ںکا اسلحہ ثابت ہوتے ہیں۔ دوسروں کو برا کہنے بلکہ برا ثابت کر دینے سے بھی آپ اچھے ثابت نہیں ہو جاتے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کوئی اچھائی کریں ، پاکستان میں حقیقی تبدیلی کا علمبردار وہ رہنما ہو گا جو دوسروں کی برائی کو اپنا کریڈٹ سمجھنے کی بجائے اپنے کردار و عمل ، سیاسی بلوغت اور قابل عمل متبادل نظام کا حامل منشور رکھتا ہو۔ تبدیلی کی ماڈلنگ کرنے والے پاکستان میں تبدیلی کی خواہش تو ہو سکتے ہیں، تبدیلی کا ذریعہ نہیں ۔ تبدیلی مثبت اور ثمر آور ہوتی ہے اور ہونی چاہئے۔ اس کے لئے نعرے نہیں پالیسیاں درکار ہوتی ہیں، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ....There is nothing wrong with change, if it is in the right direction. ۔....
ابھی بھی وقت ہے کہ تبدیلی کے ٹھیکیدارخود پسندی کی دلدل سے نکل کر زمینی حقائق کا ادراک کر یں اور اپنی تقریروں میں نوجوانوں کے جوش سے ذاتی فائدہ اٹھانے کی بجائے قومی مفاد کے لئے نسلِ نو کو ہوش سے کام لینے کی تربیت دیں ،یعنی تبدیلی کے علمبردار تبدیلی سے انصاف کریں ۔ انہوں نے سوشل میڈیا اور انتخابی جلسوں میں آزادیءاظہار کا توازن ختم کر کے کھلنڈری سیاست کا پول کھول دیا ہے ۔ یہ خطرناک اور منفی رجحان ہے ۔ سیاست میں انقلاب کی آڑ میں روایتی ہتھکنڈوں کے ذریعے اقدار کی بجائے موقع پرستی معیار بن جائے تو تبدیلی کی خواہش دم توڑ دیتی ہے ۔ جس سے ریاست کمزور ہوتی ہے اور معاشرہ زوال پذیرہو جاتا ہے، نیز جذبات کی رو میں اعتدال ، خرد اور منطق کو خیر باد کہہ دینے والے رہبری کے منصب کے اہل نہیں ہوتے ۔
وقت کا تقاضا ہے کہ انصاف کے نعرے سے آگے قدم بڑھا کر انصاف سے کام لیا جائے ۔ ملک کے حالات اور انتخابی منظر مخلوط حکومت کی تصویر دکھا رہا ہے ۔ سیاسی عینیت پسندی ایسا سراب ہے ،جس کے نتیجے میںکرچی کرچی خوابوں کو چننے میں عشرے لگتے ہیں۔ عمران خاں کو بالآخر اتحادی سیاست کو سمجھنا ہو گا ۔ جیسا انہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم پر دیر سے ہی سہی سمجھا ضرور ، پھر ایسے ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیا جن کا پس منظر اور پیش منظر کچھ بھی تحریک انصاف کے نعروں سے نہیں ملتا۔ عمران خاں کی انتخابی مہم کی تقریروں او رنعروں سے سیاسی پختگی کی جھلک دکھائی نہیں دے رہی اور نہ ہی مملکت خداداد کے مسائل کے حل کا عکس نظر آرہا ہے ۔ عمران کی ذاتی دشمنی اور نجی طمانیت قلب کے لئے میاں برادران سے اٹھکیلیاں ان کا حق ہے ،مگر یہ رویہ قومی رہنما کے مقام و مرتبے پر پورا نہیں اترتیں ۔ اس سے پاکستان کی سیاسی ثقافت پر مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔
تبدیلی کے اس کھیل میں سب سے بڑی ذمہ داری ووٹروں کی ہے۔ ووٹروں کو یاد رکھنا ہو گا کہ ملکوں کی قسمت کھیل تماشوں سے نہیں بدلتی، بلکہ اس کے لئے پُرعزم اور تجربہ کار قیادت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ووٹر کو جنت ارضی کے خواب کی بنیاد پر ووٹ دینے کی بجائے قومی تقاضوں اور روشن پاکستان کے لئے سمجھ داری سے ووٹ دینا چاہئے۔ ووٹر نے حب الوطنی کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے ۔ مثالیت پسندی کی بجائے تجربہ کار اور ٹھوس ایجنڈے کے حامل قائدین اور سیاسی جماعت کا انتخاب کرنا ہے ۔ فرشتے امیدوار نہیں ہیں، اس لئے موجود امیدواروں میں سے ہی بہتر کو چننا ہے۔ کامیاب جمہوری ممالک کے ووٹروں کا یہی رویہ ہوتا ہے ....Democracy is being allowed to vote for the candidate your dislike least. ....مسلسل انتخابی عمل سے پاکستان میں پائیدار او ر مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔ شفاف اور مسلسل انتخابی عمل کو اپنائے بغیر خوشحال پاکستان کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔ ہمیں بحیثیت معاشرہ سیاسی عمل کا حصہ بن کر مثبت سوچ کے ساتھ مثبت کردار ادا کرنا ہے ۔ 11 مئی کا انتخابی عمل اس لئے بھی اہم ہے کہ ملک میں پہلی بار ایک سول حکومت دوسری سول حکومت کو اقتدار منتقل کرے گی ۔ اس روایت کو مستحکم کرنے اور اچھی حکومت کے قیام کے لئے ہمیں قومی فریضہ سمجھ کر استعمال کرنا چاہئے ....اگر ایسا ہو گیا تویہی حقیقی تبدیلی کی بنیاد ہو گی ۔ تبدیلی کی دیگ کے نیچے نوجوانوں کے جذباتی استحصال کا تیز الاﺅ جلانے والوں کے لئے صرف اتنا ہی عرض کرنا ہے ۔
Govern a great nation as you would cook a small fish. Do not over do it.

مزید :

کالم -