مختلف معروف شخصیات کے سکینڈلز کی کہانی، قسط نمبر 83

مختلف معروف شخصیات کے سکینڈلز کی کہانی، قسط نمبر 83
مختلف معروف شخصیات کے سکینڈلز کی کہانی، قسط نمبر 83

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سب سے پہلے وہ پہلوان دوست (علی بابا) کے گھر پہنچتے ہیں۔ یہ صاحب اپنی دولت مندی اور بیوی پر اپنے رعب کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔ کمال کو پتا چلتا ہے کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ بیوی پہلوان کے دوستوں کی شکل تک دیکھنے کی روادار نہیں ہے۔ کمال یہ سب سن کر خاموشی سے چلے جاتے ہیں۔ ان کی دوسری منزل اداکار ظریف کا گھر ہے۔ ان کے والد بھی انتہائی کنجوس ہیں۔ وہ کچھ عرصے کے لیے شہر سے باہر جاتے ہوئے چند سو روپے بیٹے کے حوالے کرتے ہیں اور انہیں فضول خرچی سے باز رہنے کی نصیحت کرکے چلے جاتے ہیں۔ کمال وہاں پہنچتے ہیں تو ظریف انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ دونوں اپنے والدین کی کنجوسی کا رونا روتے ہیں اور کمال اپنے دوست کے ساتھ رہنا شروع کردیتے ہیں۔ ابا جان جو خرچہ دے کر گئے تھے وہ چند روز ہی میں ختم ہوجاتا ہے تو ظریف یہ سوچ کر کہ والد تو کافی عرصے بعد واپس آئیں گے، گھر کو کرائے پر دینے کا اشتہار اخبار میں شائع کرادیتے ہیں۔ ادھر کمال کی بچپن کی منگیترکے والد (سلطان کھوسٹ) افریقہ سے واپس آگئے ہیں اور انہں رہنے کے لیے کرائے کے مکان کی ضرورت ہے۔ مسرت نذیر اور ان کی سہیلی نگہت سلطانہ مکان دیکھنے کے لیے جاتی ہیں تو ظریف خود کو گھریلو ملازم ظاہر کرتے ہیں اور ہیروئن کے والد خوش ہوکر مکان کرائے پر لے لیتے ہیں کیونکہ مکان کے ساتھ ہی انہیں دو ملازم بھی دستیاب ہوجاتے ہیں۔

مختلف معروف شخصیات کے سکینڈلز کی کہانی، قسط نمبر 82 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس کے بعد دلچسپ واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔ کمال ڈرائیور کا روپ دھار لیتے ہیں جب کہ ظریف باورچی اور بیرہ بن جاتے ہیں۔ دونوں حماقتیں اور غلطیاں کرتے رہتے ہیں۔ بہت جلد ان دونوں کی اصلیت ظاہر ہوجاتی ہے اور ہیرو، ہیروئن کو اور ظریف نگہت سلطانہ کو پسند کرنے لگتے ہیں۔ زندگی میں سکھ اور اطمینان پیدا ہوتا ہے مگر ایک دن اچانک ظریف کے والد واپس آجاتے ہیں کرائے دار کے ساتھ ان کا جھگڑا ہوتا ہے اور جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بیٹے نے ان کی غیر موجودگی میں گھر کرائے پر دے دیا ہے تو وہ آگ بگولا ہوکر اپنے بیٹے کو گھر سے نکال دیتے ہیں۔
ادھر کمال کے والدین اپنے بیٹے کی تلاش میں ہیں۔ کمال ان سے چھپتے پھرتے ہیں اور کہانی میں دلچسپ واقعات پیش آتے ہیں۔
آخر میں سب یکجا ہوجاتے ہیں اور کمال کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جس لڑکی سے شادی کرنے سے انکاری تھے دراصل وہی مسرت نذیر ہے۔
یہ کہانی بڑے دلچسپ اور نیچرل انداز میں پیش کی گئی تھی۔ مکالمے روز مرہ کے تھے اور اداکاری بھی ایسی کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ کردار اداکاری کر رہے ہیں۔ قدم قدم پر دلچسپ سچویشنز اور ہنسانے والے بے ساختہ مکالمے تھے ان سب چیزوں کی آمیزش نے اس فلم کو شروع سے آخر تک ایک شگفتہ کامیڈی میں تبدیل کردیا تھا۔ اداکاری یوں تو سبھی نے بہت اچھی کی تھی مگر کمال اور ظریف کے کردار بے حد انوکھے اور دلچسپ تھے اور ان دونوں نے ان کرداروں کو حقیقت کا رنگ دے دیا تھا۔ ظریف بے حد ذہین اور حاضر جواب فن کار تھے۔ ان کے سامنے اداکاری کرنا بہت مشکل کام تھا مگر کمال نے بے ساختگی اور اعتماد کے ساتھ کام کیا اور سب کو حیران کردیا۔
اس فلم کی تیاری کے دوران میں کئی دلچسپ واقعات بھی پیش آئے جنہیںیاد کرکے ہم سب ہنستے رہتے تھے۔ سب سے پہلے تو ایک دن نادرہ نے شباب صاحب کو اعتماد میں لے کر یہ اطلاع دی کہ کمال نے ان سے کہا ہے کہ ’’نادرہ! مجھے تمہاری ہی جیسی لڑکی کی تلاش تھی، کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟‘‘
نادرہ نے پوچھا ’’اب میں کیا کروں؟‘‘
شباب صاحب نے جوابی سوال کیا ’’تم کیا کرنا چاہتی ہو؟‘‘
نادرہ ہنسنے لگی۔ وہ ایک تجربہ کار اور جہاندیدہ لڑکی تھی۔ بے باک اور بے تکلف بھی تھی۔ کمال کی زندگی میں اتنی قریب آجانے والی شاید وہ پہلی لڑکی تھی لیکن نادرہ کے لیے یہ کوئی انوکھی اور نئی بات نہ تھی۔ اس نے شباب صاحب کو صاف صاف بتادیا کہ وہ اس معاملے میں قطعی سیریس نہیں ہے۔ نہ ہوگی۔
اس کے ہاتھ ایک مشغلہ آگیا۔ کمال جیسا ابھرتا ہوا، خوش شکل اور تعلیم یافتہ ہیرو اگر ایک سائڈ ہیروئن اور رقاصہ میں دلچسپی ظاہرے کرے تو اسے بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ کمال کی یہ پہلی فلم تھی۔ فلم کا ماحول بھی نیا تھا اور اتنے بڑے پیمانے پر آزادانہ صنف مخالف سے میل جول کا بھی پہلا ہی موقع تھا۔ انہوں نے غالباً ایکٹی ویٹی کے طور پر نادرہ سے مکالمہ بولا ہوگا مگر اس کے جواب میں وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ڈراما کرنے پر آمادہ ہوگئی۔ مذاق ہی مذاق میں دلچسپی اور وقت گزاری کے لیے یہ ایک اچھا شغل تھا۔ کمال اسے بھی اپنی ہی طرح سادہ لوح سمجھتے تھے حالانکہ وہ بہت جہاں دیدہ تھی۔ اس نے دل لگی کا آغاز کردیا۔ ایک طرف تو وہ کمال کو اپنی محبت کے جال میں پھانس رہی تھی اور دوسری طرف ساری روداد چپکے چپکے شباب صاحب کو سنا دیتی تھی جو ہمیں بتا دیتے تھے۔ یہ فرضی رومان بڑے زور و شور سے پروان چڑھ رہا تھا۔
ہم اس سازش میں ہرگز شریک نہ ہوتے اگر کمال اپنا دوست اور معتمد سمجھ کر ہمیں بھی اعتماد میں لے لیتے۔ ہم ان کے بچپن کے دوست تھے۔ کافی وقت ہم دونوں نے ساتھ گزارا تھا۔ بے تکلفی بھی تھی مگر انہوں نے اپنے اس ایڈونچر میں ہمیں اپنا ہمراز بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
نادرہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت چالیں چل رہی تھی اور بے چارے کمال اس بات سے بے خبر تھے۔ رات کو شوٹنگ ختم ہونے کے بعد عموماً ایک ہی کار استعمال کی جاتی تھی اس لیے کہ ’’ہوا محل‘‘ کا بھروسا نہ تھا کہ کب اور کہاں کھڑی ہوجائے۔ بہت سے لوگوں کو تانگوں کے ذریعے گھر پہنچایا جاتا تھا کہ اس زمانے میں یہی واحد ذریعہ نقل و حمل تھا۔کمال اور نادرہ کو ایک ساتھ ہی تانگے میں بھیجا جاتا تھا اس لیے کہ راہ میں مال روڈ پڑتی تھی جس پر وائی ایم سی اے بلڈنگ میں کمال مقیم تھے۔ پھر نادرہ کو لے کر یہی تانگا گڑھی شاہو چلا جاتا تھا۔
ایک رات نادرہ نے شکایت کی کہ دیکھئے ہمیں اسٹوڈیو اور دفتر میں بات چیت کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں ملتا اس طرح دوسروں سے چھپ چھپ کر اور سب کے سامنے انجان بن کر ہم کب تک گزارا کریں گے؟
’’تو پھر کیا کریں؟‘‘
نادرہ نے کہا ’’میں آپ کو اپنے گھر بھی نہیں لے جاسکتی کہ جی بھر کرباتیں کرلیں۔ آپ کے وائی ایم سی اے میں بھی نہیں جاسکتی کہ سب کی نگاہوں میں آجاؤں گی۔ اخبار والوں کو پتا چل گیا تو بات کا بتنگڑ بنادیں گے‘‘۔
کمال سوچ میں پڑ گئے، پھر کہا ’’کیوں نہ ہم تانگے والے کے گھر چلیں؟‘‘
نادرہ سوچ میں پڑ گئیں۔یہ ساری گفتگو انگریزی میں ہو رہی تھی۔
کمال نے تانگے والے سے کہا ’’بھائی تانگے والے۔ کیا تم ہمیں اپنے گھر لے جا سکتے ہو؟‘‘
تانگے والا حیران رہ گیا ’’اس وقت؟‘‘
’’بھی ہمارے پاس باتیں کرنے کی کوئی اور جگہ نہیں ہے‘‘۔
تانگے والے نے کہا ’’بابو جی! یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میرا تو ایک ہی کمرے کا گھر ہے۔ محلے دار آدمی ہوں، بال بچے بھی ہیں‘‘۔
’’تو پھر کیا ہوا؟‘‘
’’نہیں جی۔ یہ تو بڑا مشکل کام ہے‘‘۔
تانگے والے نے کچھ دیر بعد کمال کو وائی ایم سی اے بلڈنگ کے سامنے اتار دیا۔
دوسرے دن نادرہ نے یہ داستان شباب صاحب کو سنائی تو حسب معمول ان کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا۔ انہوں نے فوراً ہمیں فون کر کے بلایا اور یہ واقعہ سنایا مگر اس طرح کہ ہنستے زیادہ تھے، بات کم کرتے تھے۔ خصوصاً ’’بھائی تانگے والے‘‘ والا حصہ بتانے میں انہوں نے کافی دیر لگادی۔ پھر ہم سے پوچھا ’’تمہیں کمال نے کچھ بتایا ہے؟‘‘
ہم نے لاعلمی ظاہر کی، کہنے لگے ’’یار کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس نے ہمیں کانفیڈنس میں نہیں لیا‘‘۔
اس روز سیٹ پر شباب صاحب یہ بات اپنے پیٹ میں نہیں رکھ سکے۔ شوٹنگ کے دوران میں انہوں نے ایک دو لوگوں کو بلاوجہ ’’او بھائی تانگے والے‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تو کمال کے کان کھڑے ہوگئے، انہوں نے نادرہ سے پوچھا ’’یہ کیا بات؟ کہیں شباب صاحب کو خبر تو نہیں ہوگئی؟‘‘
اس نے معصومیت سے کہا ’’میں نے تو کچھ نہیں بتایا؟‘‘
’’تو پھر انہیں کیسے خبر ہوسکتی ہے؟‘‘
’’آپ کو بلاوجہ وہم ہوگیا ہے‘‘ اس نے کمال کو تسلی دی او روہ مطمئن ہوگئے۔ دو تین روز بعد شباب صاحب نے ہمیں ایک اور دھماکا خیز اطلاع دی۔ نادرہ نے کمال سے کہا ’’اس طرح چوروں کی طرح ہم کب تک ملتے رہیں گے۔ شادی کے بغیر اب کام نہیں چلے گا‘‘۔
کمال سوچ میں پڑ گئے۔
نادرہ نے بھولپن سے کہا ’’مگر یہ تو بہت مشکل کام ہے ساری دنیا کو خبر ہوجائے گی۔ قاضی کو بلانا پڑے گا۔ نکاح ہوگا، گواہ بھی آئیں گے۔ اس طرح تو راز فاش ہوجائے گا‘‘۔
کمال نے کہا ’’اس تمام جھگڑے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اسلام تو بہت حقیقت پسندانہ مذہب ہے۔ نکاح کے لیے قاضی کا موجود ہونا ضرور نہیں ہے۔ میں خود بھی نکاح پڑھا سکتا ہوں‘‘۔
رات کے پچھلے پہر جب شوٹنگ میں وقفہ ہوا تو کمال اور نادرہ شاہ نور اسٹوڈیو کے وسیع لان میں چلے گئے، وہاں جاکر پہلے تو کمال نے خود وضو کیا پھر نادرہ کو وضو کرایا۔ کلمہ پڑھایااور اس کے بعد نہ جانے کیا کیا پڑھتے رہے۔ اس کے بعد دونوں نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی اور اس طرح یہ شادی سرانجام پاگئی۔
نادرہ نے کہا ’’شکر ہے۔ شادی تو ہوگئی۔ مگر کیا اس کے بعد بھی ہم الگ الگ ہی رہیں گے؟‘‘
کمال نے کہا ’’تم کہو تو میں تمہارے ساتھ گھر چلوں؟‘‘
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اس طرح تو ڈھنڈورہ پٹ جائے گا۔ ایسا کرتے ہیں کہ شوٹنگ کے بعد پہلے میں گھر چلی جاتی ہوں۔ بعد میں آپ آجائیے گا۔ ہمارا گھر تو آپ نے دیکھا ہی ہے۔ سڑک پر ہے سامنے برآمدہ ہے۔ آپ برآمدے میں آہستہ سے دروازے پر دستک دیں گے تو میں دروازہ کھول دوں گی‘‘۔
شوٹنگ رات گئے تک جاری رہی۔صبح ہوتے ہی نادرہ تو یہ ترکیب بتا کر اطمینان سے گھر جاکر سوگئیں۔ کمال وہاں پہنچے تو دستک کا کوئی جواب نہ ملا آخر مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔(جاری ہے)

مختلف معروف شخصیات کے سکینڈلز کی کہانی، قسط نمبر 84 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)