گرین بیرٹ سعودی عرب میں!
بیری یا بیرٹ(Beret) اس فوجی کیپ کو کہا جاتا ہے جو اہلِ سپاہ ٹریننگ، مشقوں یا زندہ آپریشنوں کے دوران زیبِ سر کرتے ہیں۔ ان کے مختلف رنگ ہوتے ہیں جو آرمی کی کسی مخصوص رجمنٹ یا کور کو بالا ہیڈ کوارٹر کی طرف سے تفویض کئے جاتے ہیں تاکہ ان میں امتیاز کیا جاسکے۔ یہ بیری وزن میں اس پی کیپ سے ہلکی ہوتی ہے جو تقریباتی کیپ کہلاتی ہے۔ یہ فوجی ٹوپیاں دنیا کی مختلف افواج میں مختلف رنگوں سے مزین کی جاتی ہیں۔
امریکن آرمی میں سبز رنگ کی اسی طرح کی ٹوپی کو ایک خصوصی امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ اس کے پہننے والوں کو گرین بیرٹ (Green Beret) کہہ کر ان کی خصوصی تعریف کی جاتی ہے۔ ان سے مراد ایسے ٹروپس ہیں جو سپیشل آپریشنوں کے دوران استعمال کئے جاتے ہیں۔ باقی فوج سے ان کی ٹریننگ زیادہ سخت ماحول میں اور زیادہ کڑے خطوط پر کی جاتی ہے اور ان کے ذمے جو کام (مشن) لگائے جاتے ہیں وہ بھی سپیشل ہوتے ہیں۔ ان سپیشل فورسز میں نیوی سیل (Navy Seal) نامی وہ فورس بھی شامل ہے جس نے سات برس قبل اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں ان کی قیام گاہ پر شب خون مار کر قتل کردیا تھا۔ اسی طرح کی ایک اور فورس کو ’’گرین بیرٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ویت نام کی جنگ میں اس فورس نے جو مشکل اور سپیشل مشن انجام دیئے وہ ان کی عالمی شہرت کا سبب بنے۔ ان پر کئی کتابیں لکھی گئیں جو Best Sellers کہلائیں۔ آج بھی یہ ’’گرین بیرٹ فورس‘‘ دنیا کی دس بہترین سپیشل فورسز میں شمار ہوتی ہے۔ عالمی شہرت اور ناموری کے حوالے سے ان دس سپیشل فورسز کے نام بالترتیب یہ ہیں:
1۔ایس اے ایس =(SAS) برٹش
2۔نیوی سیل=(Navy Seal) امریکن
3۔سپٹ ناز=(Spetsnaz) رشین
4۔گرین بیرٹ=(Green Beret) امریکن
5۔ڈیلٹا فورس=(Delta Force)امریکن
6۔شیطات=اسرائیلی
7۔ایس ایس جی =(SSG) پاکستانی
8رینجرز=(Rangers)امریکن
9۔سپیشل بوٹ (Boat) سروس= برطانوی
10۔پولش گرام(Polish Gram) =پولینڈی
ان ٹاپ کلاس دس سپیشل فورسز میں چار امریکی ہیں اور گرین بیرٹ انہی میں سے ایک ہے۔۔۔۔ یہ طویل تمہید اس لئے باندھنی پڑی کہ اس کالم میں اگر صرف ’’گرین بیرٹ‘‘ لکھ دیا جاتا تو بہت سے قارئین اس کو نہ سمجھ سکتے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گرین بیرٹ کا ایک سپاہی/آفیسر دس پر بھاری ہوتا ہے۔ یعنی وہی بات جو حضرت اقبال نے اس مصرع میں بیان کی ہے۔:
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ
امریکہ ان سپیشل فورسز کو دنیا کے مختلف خطوں اور علاقوں میں بھیج کر ان کو سپیشل مشن تفویض کرتا ہے اور ان مشنوں کی ہر طرح کی سپورٹ(لاجسٹک، فنانشل، ریذیڈنشل وغیرہ) کا بندوبست کرتا ہے۔ ایک خاص بات جو ان فورسز کو ڈیپلائے کرتے ہوئے مدنظر رکھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ فورس جس علاقے میں بھیجی جاتی ہے وہاں کے لوگوں کی ثقافت، قومی روایات اور زبان وغیرہ سے بخوبی آگاہ ہوتی ہے۔
افغانستان میں آج کل جو امریکی فورسز رکھی ہوئی ہیں ان کی تعداد دس اور بارہ ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے(اس تعداد کی صحت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ بارہ ہزار ہے یا بیس ہزار ہے کیونکہ امریکی اپنا مفاد پہلے دیکھتے ہیں اور جھوٹ اور سچ ’’وغیرہ‘‘ کی پرواہ بعد میں کرتے ہیں) ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ سپیشل فورس، افغان نیشنل آرمی کی ٹریننگ پر مامور ہے۔ لیکن ٹریننگ کے پردے میں اس کا اصل مشن کیا ہے اس کے بارے میں ہم یا ہم جیسے دوسرے لوگ محض قیاس ہی کرسکتے ہیں، حقیقت نہیں جان سکتے۔ حقیقت کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب متعلقہ راز ازخود طشت از بام ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مثلاً اب سعودی عرب میں گرین بیرٹ کی موجودگی کا کیس ہی دیکھ لیں جو کچھ روز پہلے اس وقت دنیا کے سامنے آیا جب اس گریٹ بیرٹ فورس کا ایک سپاہی زخمی ہو کر سعودی۔ یمن سرحد پر حوثیوں کے ہاتھوں پکڑا گیا۔ اس سے جو معلومات حاصل ہوئیں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سچی بھی ہیں یا نہیں۔
سعودی اور امریکی مفادات کا افسانہ تو اب پرانی بات ہوچکی ہے۔ جب 1920ء کے عشرے میں یہاں تیل دریافت ہوا تھا اور امریکہ نے اس دریافت میں جو حصہ ڈالا تھا اس کی تفصیلی خبریں بھی ابھی چند سال پہلے ہی آشکار ہونا شروع ہوئیں۔ امریکہ اپنے اور اپنے حواری مغربی ممالک کے لئے سعودی تیل سے لبالب سیراب ہوتا رہا ہے اور اس کے بدلے میں ڈالروں کی بارش اور اپنے جدید اسلحہ جات اور گولہ بارود کی فروخت کا بازار بھی گرم کرتا رہا ہے۔ لیکن مجال ہے کسی سعودی شہزادے نے آج تک کسی امریکی صدر سے کبھی یہ مطالبہ بھی کیا ہو کہ ان اسلحہ جات کو ’’میڈ ان سعودی عرب‘‘(Made in KSA) کی مہر سے بھی فیض یاب کیا جائے۔ ان مسلمان عرب بھائیوں سے تو وہ ہندو کافر ہی ہزار درجے بہتر ہیں کہ ان کا مودی ،اسلحہ سازی کے کارخانے یورپ اور امریکہ سے اٹھا کر انڈیا لانے کے جتن کرتا رہتا ہے۔ لیکن کہاں مغرب کی یہ مکار اور عیار اقوام اورکہاں بھارت کے گؤپرست لالہ جی جو اگرچہ اپنے آپ کو چانکیہ کے پیروکار سمجھتے ہیں لیکن دنیا کو معلوم ہے کہ ایک ہزار چانکیئے مل کر بھی ٹرمپ کی برابری نہیں کرسکتے!
سعودی عرب اور ایران کی مذہبی چپقلش کو کون نہیں جانتا۔ مغرب کی جدید اقوام اس کشیدگی کی آگ کو ہوا دیتی رہتی ہیں تاکہ ان کے اسلحہ اور دیگر ٹیکنیکل مصنوعات کے کارخانے چلتے رہیں۔ یعنی یہ ان کی روٹی روزی کا معاملہ ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دوسرے کئی مغربی ممالک آئے روز اپنا وہ جدید اسلحہ عربوں کو فروخت کرتے رہتے ہیں جن کو ہینڈل اور آپریٹ کرنے کا شعور پانے کے لئے سعودی مسلح افواج کو ابھی بہت سافاصلہ طے کرنا پڑے گا۔۔۔ فی الحال تو یہ جدید اسلحہ جو عربوں کو دیا جاتا ہے اس کو آپریٹ کرنے کے لئے عربوں کی بجائے مغربی فوجیوں اور ماہرینِ اسلحہ ہی کو دعوت دی جاتی ہے۔
عربوں کے برعکس ایرانی تیل فروشوں کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔۔۔ ایک طویل عرصے سے وہ سلاحِ جنگ کی پروڈکشن اور ان کے استعمال کا بندوبست اپنے ہاں ہی کررہے ہیں۔ آپ ذرا اس بات پر بھی غور کریں کہ آیا کسی سعودی نے ایران کے کسی ہمسایہ ملک میں جاکر ایرانیوں کے خلاف ویسی ملٹری کارروائیاں کرنے کا ڈول ڈالا ہے جیسی یہ ایرانی ،یمن میں کررہے ہیں۔ یمن اور سعودی عرب کی زمینی سرحد 1800 کلو میٹر طویل ہے۔ ذرا نقشے پر نظر ڈالئے۔ ایران نے یمن کے ایک حصے کے مکینوں کو اپنے مذہبی مسلک کا پیروکار بنایا ہوا ہے۔ ان کو ’’حوثی‘‘ کہا جاتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ایران، اِن حوثیوں کو سعودیوں کے خلاف نہ صرف صف آرا کئے ہوئے ہے بلکہ ان کی ہر قسم کی مدد بھی کررہا ہے۔ یہ حوثی قبائل یمن میں سعودیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یعنی یہ جنگ ایران کی پراکسی وار ہے۔
کوئی تین چار برس پہلے جب یہ پراکسی وار زیادہ تیز ہوگئی تھی تو سعودیوں نے فیصلہ کیا تھا کہ حوثیوں کو سبق سکھایا جائے۔ اس کے لئے سعودیوں نے ایک ملٹری کولیشن بنائی جس کی فضائیہ نے حوثیوں پر حملے شروع کردئے۔ حوثی قبائل کے پاس اپنی کوئی فضائیہ نہیں۔وہ تو ایک نیم عسکری نیم مسلح تنظیم ہے۔ لہٰذا سعودی کولیشن نے دل کھول کر ان نیم مسلح حوثی جوانوں، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانا شروع کیا جس پر تمام دنیا چیخ اٹھی۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ یمن پر فضائی حملوں سے پہلے عربوں نے پاکستانی فوجیوں کو یمن میں آنے کی دعوت دی تھی جسے پاکستان کی پارلیمنٹ نے رد کردیا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی سعودیوں اور دوسرے عربوں کی نگاہ میں ہم پاکستانی مردود ٹھہرے تھے۔
اس کے بعد جو ہوا وہ قارئین کو معلوم ہے۔۔۔ امریکہ نے سعودیوں سے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ ہم حاضر ہیں۔ آپ قیمت ادا کیجئے اور ہمارا انتظار کیجئے۔ ہم حوثیوں کے خلاف اپنی فضائیہ استعمال کریں گے۔ہماری خدمات سے فائدہ اٹھائیں۔۔۔ چنانچہ یمن پر بمباری میں نام تو سعودی کولیشن کا تھا لیکن کام امریکی کررہے تھے۔۔۔ دوسری طرف ایران بھی غافل نہیں تھا۔ اس نے بھی حوثیوں کو ایسے میزائل فراہم کئے جو ایران ساختہ تھے اور سعودی دارالحکومت ریاض تک مار کرسکتے تھے۔ یہ میرائل چلائے گئے تو امریکہ نے سعودیوں کو ریاض شہر کی سیکیورٹی کے لئے جو میزائل شکن بیٹریاں فراہم کررکھی تھیں وہ کام آئیں۔ان امریکی میزائل شکن بیٹریوں نے ایرانی میزائلوں کو ریاض کی طرف بڑھنے سے روک دیا۔ لیکن یہ حوثی میزائل تھریٹ(Threat) اتنی بڑی تھی اور اس کے مستقبل کے امکانات اتنے خطرناک تھے کہ سعودیوں کو ایک دفعہ پھر امریکہ کی طرف دوڑنا پڑا۔ امریکہ چونکہ افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنی حالیہ جنگوں سے تنگ آیا ہوا ہے اس لئے اس نے یمن میں اپنی گراؤنڈ یا نیول فورسز کو کمٹ کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر سودے بازی شروع ہوئی اور آخر کار امریکہ نے ایک خطیر رقم اپنا اسلحہ فروخت کرکے سعودیوں سے بٹوری اور اپنے ’’گرین بیرٹ‘‘ ٹروپس کو سعودی عرب۔ یمن کی سرحد پر بھیجنے کی حامی بھرلی۔ یہ گرین بیرٹ سپیشل فورسز اب یمن۔ سعودی سرحد پر کارروائیاں کررہی ہیں اور جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے امریکی بوٹ بھی یمن میں جانے کو تیار ہیں۔ فی الحال ان کو سرحد پر صف بند رکھاگیا گیا ہے لیکن کون جانے وہ 1800کلو میٹر طویل سرحد پر کہاں کہاں سے یمن میں داخل ہو کر وہی فریضہ انجام دیں جو وہ نو گیارہ کے بعد افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں دیتے آرہے ہیں۔ (پاکستان کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے)امریکی ذرائع ابلاغ نے شائد عوامی دباؤ کے خوف سے یہ خبر دی ہے کہ صرف ایک درجن گرین بیرٹ یمن کی سرحد پر بھیجے گئے ہیں۔ ان کامشن یہ بتایا گیا ہے کہ حوثی جو میزائل سعودی شہروں پر داغ رہے ہیں ان کے ذخائر کا پتہ چلا کر ان کو یا تو بے اثر بنادیا جائے یا تباہ کردیا جائے۔ ان گرین بیرٹوں کو دسمبر 2017ء میں بھیجا گیا تھا لیکن ان کے اس طرح خفیہ بھیجنے کا معاملہ میڈیا پر کبھی ڈسکس نہ کیا گیا۔ امریکی صدر نے اب اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایک نیا ’’گراؤنڈ فرنٹ‘‘ کھولنے کی منظوری دے دی ہے۔۔۔۔ یہ امریکہ کی طرف سے خفیہ جنگوں کی لانچنگ کا ایک تسلسل بھی ہے۔
لیکن یہ حوثی جنگجو بارڈر پر تو نہیں بیٹھے ہوئے۔ ان تک پہنچنے کے لئے تو امریکی فورس کو یمن کے اندر دور تک جانا پڑے گا۔۔۔یہی وہ سنریو تھا جس کی وجہ سے پاکستان نے یمن ۔سعودی سرحد پر اپنی فوج بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔ لیکن امریکہ کے جو مفادات سعودی عرب میں ہیں، ان کا تو عشرِ عشیر بھی پاکستان کے نصیب میں نہیں۔ امریکی CIA کی اس Move پر کانگریس کے کسی ڈیموکریٹ رکن نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ان کو معلوم ہے کہ ملکوں کے سٹرٹیجک مفادات کیا ہوتے ہیں۔ یہ ’’شرف‘‘ ہم پاکستانیوں کو ہی حاصل ہے۔ پچھلے دنوں جب اسمبلی میں بجٹ پیش کیا گیا تھا تو سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی صاحب نے کھل کر فرمایا تھا کہ آئی ایس آئی کے خفیہ فنڈز (Allcations) کی تفصیلات پبلک کی جائیں اور ان پر کھلے عام بحث کی جائے۔
کاش ربانی صاحب کو دفاعی مضمرات کا کوئی ایسا سطحی یا گہرا شعور بھی حاصل ہوتا جو جدید افواج کی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ملک کی سلامتی کے مابین ہوتا ہے!