سبسڈی 2ارب، اشیاء نایاب!
وفاقی حکومت نے رمضان المبارک میں مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے دو ارب روپے کی سبسڈی دی۔ یہ رقم یوٹیلٹی سٹوروں کے ذریعے 19اشیاء میں رعائت کے لئے دی گئی ان میں آٹا، چاول، گھی، کھانے کا تیل، چینی اور مصالحہ جات بھی شامل ہیں۔ وزیراعظم کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں تفصیل بھی بتائی ان کو اسی محفل میں یہ بتا دیا گیا کہ یوٹیلٹی سٹوروں پر چینی اور گھی جیسی اشیاء بھی نہیں اور ریک خالی پڑے ہیں۔ اس پر انہوں نے کارروائی کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے مہنگائی پر بات کرتے ہوئے حیرت ظاہر کی کہ رمضان شریف کی آمد پر نہ معلوم یہ اشیاء خوردنی اور ضرورت کہاں غائب ہو جاتی ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ یوٹیلٹی سٹوروں تک اب بھی اشیاء نہیں پہنچ سکیں اور لوگ واپس جا رہے ہیں۔ حالانکہ رمضان المبارک سے پہلے ہی شور مچایا جا رہا تھا کہ حکومت عوام کے لئے سہولت پیدا کرے گی اسی غرض سے رمضان بازار بھی لگائے گئے لیکن شکایات تھم نہیں رہی ہیں اور لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔جہاں تک یوٹیلٹی سٹوروں کے ذریعے اور رمضان بازاروں میں سستی اشیاء دینے کے انتظامات کا تعلق ہے تو ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا اس سے پہلے سابقہ حکومتوں کے ادوار میں بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری تھا اور یوٹیلٹی سٹوروں کے لئے سبسڈی کے علاوہ سستے رمضان بازاروں میں آٹا، گھی اور چینی جیسی اشیاء پر سبسڈی دی جاتی تھی۔ سوال ہمیشہ سے انتظامات کا رہا، پہلے بھی شکایات ہوتی تھیں تو کارروائی کے اعلان کئے جاتے تھے اب بھی وہی ہو رہا کہ پرانی مشینری ہی نئے انتظامات کر رہی ہے۔ عام آدمی بھی جانتا ہے کہ منافع خور، ذخیرہ اندوز میدان میں آجاتے ہیں۔ حکمت تو یہی ہونا چاہیے کہ ان کا سدباب کیا جائے اور جو اعلان کئے جاتے ہیں ان کو عملی جامہ بھی پہنایا جائے اس رمضان کی ابتدا ہی میں جو خواری ہوئی وہ پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔حکومت کو تلاش کرنا چاہیے کہ نقص کہاں ہے۔ بہتر عمل تو یہ تھا کہ رمضان سے پہلے بہمرسانی اور ضرورت کا حساب لگایا جاتا اور اس کے مطابق رسد مہیا کر دی جاتی تاکہ ذخیرہ اندوزوں کو یہ موقع ہی نہ ملتا بلکہ الٹا ان کو ذخیرہ اندوزی سے نقصان ہوتا، اب بھی حکمرانوں کو یہ دیکھنا ہو گا کہ کون لوگ اور کس طرح مہنگائی کا ذریعہ بن رہے اور سبسڈی بھی لوٹ کر کھا رہے ہیں۔ ماہرین سے تحقیق کی ضرورت ہے۔