مہنگی ادویات عوام کی قوتِ خرید سے باہر
صحت مند افراد ہی صحت مند معاشرے کی ضمانت ہوتے ہیں، مگر وطن عزیز میں شعبہئ صحت جس بے دردی سے نظر انداز کیا گیا ہے اور کیا جارہا ہے اس پر محب وطن حلقے بلک بلک کے نہیں سلگ سلگ کے روتے رہے ہیں او ررو رہے ہیں، مگر امیران سیررائے سلطنت کل بھی اور آج بھی غربت، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور دیگر معاشرتی عفریتوں اور آسیبوں کی گرفت میں آئے ہوئے غریب عوام سے جس بے دردی اور تجاہل عارفانہ کا روح فرسا مظاہرہ کرتے رہے او رکررہے ہیں، ایک بہت بڑا المیہ ہے ملک بھر میں ادویات کی کمپنیوں نے محکمہ صحت کے کار پردازوں کو رشوت کے گرداب میں اس بُری طرح سے پھنسا کر ان کی سوچ سلب کر رکھی ہے کہ ان کے اذہان و قلوب میں غریب اور مفلوک الحال عوام کی بہتری اور بھلائی کاخیال پاس سے بھی نہیں گزرسکتا۔
اس پر مستزاد یہ کہ ڈرگ مافیا جعلی اور زائد المعیاد ادویات کی نئے سرے سے پیکنگ کرکے میڈیکل سٹور پر سستے داموں فروخت کردیتا ہے،جس میں سٹور کے مالکان کو اصل ادویات فروخت کرنے کی نسبت زیادہ منافع حاصل ہوتا ہے اور یوں بے چارے عوام لاچاری، بے کسی اور بے چارگی کے ہاتھوں مجبور ہوکر ان ادویات کو خریدنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور متبادل راستہ یا طریقہ نہیں اور یوں ڈرگ مافیا کے موت کے یہ سوداگر معصوم اور مقہور عوام کو تیزی سے موت سے ہمکنار کرنے میں مصروف ہیں۔محکمہ صحت میں رشوت اور کرپشن کا یہ عالم ہے کہ گریڈ14کے ملازم کے پاس تازہ ترین ماڈل کی نئی چمکیلی کار ہے اور پٹرول کی قیمتوں میں تسلسل کے ساتھ اضافے کے باوجود اس کی گاڑی کی ٹینکی پٹرول سے بھری رہتی ہے اگر اس کے ماہوار مشاہرہ پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس سے شاید اس کے گھر کے اخراجات ہی مشکل سے پورے ہوسکیں۔
یہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی محکمہ صحت کے ذمہ داران ان کے خلاف کارروائی سے ہمیشہ اجتناب کرتے ہیں کہ وہ خود اس کرپشن کا حصہ ہیں، مگر ہماری حکومت کیا کررہی ہے کیا اس کو ان سب باتوں کا علم نہیں کہ 100روپے میں ملنے والی دوائی 500 روپے میں اور 500والی دوائی 2500 روپے میں فروخت ہورہی ہے۔
کیا یہ حکومتی ذمہ داری نہیں کہ وہ ڈرگ مافیا کی ان حرکات کا فوری نوٹس لے اورموثر کارروائی کرے۔ غریب کاتو اب یہ عالم ہے کہ نہ وہ جی سکتا ہے اور نہ ہی مر سکتا ہے یہ علامتی جملہ نہیں،بلکہ یہ حقیقت پر مبنی ایک کہاوت بن گئی ہے کہ مرنے کے بعد کفن، دفن اور تدفین کے دیگر لوازمات کے لئے ایک خطیر رقم چاہئے۔ چلیں وہ تو ایک ہی دفعہ کا مسئلہ ہے، مگر زندہ رہنے کے لئے بیماری کی صورت میں ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، جن کو خریدنا عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔
وہ مرنے کو ترجیح دیتا ہے، مگر پھر تدفین کے اخراجات دیکھ کر گھبرا جاتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں بھی تہی دست ہے۔ڈرگ مافیا اسے جینے نہیں دیتا اور گورکن کا مسئلہ اسے مرنے نہیں دیتا اورایسی ہی کیفیات دہشت گردی، ڈکیتی، راہزنی اور اس قسم کے دیگر گھناؤنے جرائم کو جنم دیتی ہے جو بڑھتے بڑھتے معاشرتی ناسور بن جاتے ہیں۔ کہنے کو تو مرکز اور صوبوں میں صحت کی وزارتیں موجود ہیں پھر صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی و سینیٹ میں شعبہ صحت کے پارلیمانی سیکرٹری بھی موجود ہیں۔ علاوہ ازیں پورے ملک میں محکمہ صحت کے ہزاروں ملازمین موجود ہیں، مگر کوئی مثبت کارروائی اب تک دیکھنے کو نہیں ملی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اشیائے خورودنوش کی قیمتیں ہمارے منافع خور تاجروں کے لالچ کے باعث صر ف رمضان کے مقدس مہینے میں بڑھتی ہیں۔تشویشناک امر یہ ہے کہ ادویات کی قیمتیں ایک دم بڑھیں اور 500فیصد سے بھی زیادہ بڑھیں، جس کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسی کون سی افتاد آن پڑی تھی کہ یہ قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔
ادویات کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ انسانی ہمدردی سے منسلک ہے کہ وطن عزیز کی آبادی کی اکثریت غریب لوگوں پر مشتمل ہے اوروہ اس اضافہ کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور اس اضافہ کے باعث کئی مریض مہنگی ادویات خریدنے سے قاصر تھے اور صحیح علاج نہ ہونے کے باعث ان کے مرض میں شدت بڑھتی گئی اور بالآخر وہ راہی ئ ملک ِ عدم ہوئے تو اس کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے۔