ملکی ترقی کا راستہ کاٹتے ”نحوستی بِلوں“ کا تدارک کرنا ہوگا
راہ چلتے کالی بلی کے آگے سے گزر جانے کو اکثر انسانی گماں نہ جانے کیوں بدشگونی سمجھتا ہے۔ حالانکہ کالی بلی بھی قدرت کی ہی تخلیق ہے جو انسانی آبادیوں میں نہ صرف بے خبر رہے بلکہ اشرف المخلوقات سے رحم کی طلبگار اور کفالت کی منتظر ہے اور علمی اعتبار سے بھی اِس کی کوئی مستند حقیقت نہیں صرف اور صرف انسانی وہم ہے۔ انسانی معاشروں میں انسان ہی انسان کے لئے شر پھیلاتا ہے۔ اوروں کے وسائل پہ نظر رکھنا اوردبوچنے کی غرض سے فتنہ و بدشگوں بنتا رہا ہے۔ اختیار کی اندھی طاقت کے نشے میں دُھت خلق خدا پہ جبر و تشدد کرنا، مشقت لینا، عصمتوں کی بے حُرمتی واستحصال انسانی دنیا میں شر و نحوست کی علامت ہیں۔ جن کے سائے کی زد میں آج بھی معاشرے زوال پذیر ہیں۔ تاریخی اوراق، دنیا بھر میں وسیع النظر قبرستان، زمین و آسمان، شمس والقمر، ذرے و ستارے ویرانوں و آستانوں کی دھول اور سبک رفتار ہوائیں اِس کی گواہ ہے کہ خود کو عقل کل، معتبر و اعلیٰ سمجھنے والے جابر سلطان عبرت کا نشانہ بنتے آئے ہیں۔ انسانی حقوق کے امین بن کر اقتدار میں آنے والے حکمران جب بدنیت و بددیانت ہو کر انسانی ظرف سے گرتے ہیں تو جنگلی بھیڑیئے اور ”نحوستی بِلوں“ کا روپ دھار لیتے ہیں، انسانی کھال میں فطرت کے درندے انسانی حیات عصمت و حرمت کو لُوٹ لُوٹ کر اپنے غلیظ کیڑوں سے بھرے پیٹ کو تاعمر نہیں بھر پاتے۔
زہریلے سانپ جیسی بے ڈھنگی دُم اور پُھولے ہوئے بدصورت جسموں پہ بدنما ناسور دھبے ان جیسوں کی بے نسلی کے چمٹے ایسے داغ رہے جنہیں کوئی بھی ریشمی، مخملی، شاہی لباس چھپا نہیں سکا۔ اور نہ ہی جُھوٹ کی لعنت پہ مدہوش ترچھے سینگ کسی تخت و تاج سے نکھر پائے ہیں۔ خوشامدی ریشوں سے بھرے زخم خوردہ لمبے لمبے کان، طوطا چشم آنکھیں حرص و ہوس سونگھنے والا مکار ناک، خیانت بھرے منہ کے بدبودار دانت، انا و تکبر بڑ بڑانے والی بچھو سے بھی زہریلی زبان اور انسانی تقدیروں کو نوچنے، خوردنی نوک دار تیز و تند پنجوں والے فطرت کے بھیڑیئے و نحوستی بلے ازل سے خلق خدا کے لئے بدشگون تھے،ہیں اور رہیں گے۔ بلکہ اِن بدخواہوں کا ٹولہ خاص مضر معاشرہ بدذات چوہے جو خوشامدی و قصیدہ گری سے انعام و اکرام پاتے ہیں۔ انسانی حیات کو کُتر کُتر کر مفلوج کرنے والے نجس چیلے انسانی معاشروں کے لئے وباء نحوست سے کم نہیں۔ جبکہ تاریخ کی کتابوں میں اُن حکمرانوں، و خلفاء کے بھی ذکر ہیں جوخدائی عدل و انصاف کے پاسدار رہے۔ خدائی مخلوق کے حقوق کے اُمین بنے۔ جنہوں نے اقتدار کی باگ ڈور خدا کی حاکمیت میں چلائی۔ اور دنیا بھر کے انسانوں کو عمل سے پیغام دیا کہ خاتم النبیین رحمۃ اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں ہی انسانیت کی فلاح ہے۔ کیا خلفاء راشدین کا طرز حکمرانی عظیم رول ماڈل نہیں۔ نواسہ رسولؐ جگر گوشہ مولا علی (کرم اللہ وجہہ) حضرت امام حسین ؓکی وقت کے جابر یزید کے خلاف ایمانی عمل جدوجہد و شہادت اُمت کے لئے روشن درس و ناقابل فراموش اثاثہ نہیں۔ تو پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کلمہ گو حکمران بننے والے عظیم رول ماڈل اور ناقابل فراموش اثاثے سے بے خبر کیوں۔ اکہتر (71)سالوں میں عوام بدحال و پستی کے زندانوں میں بے یارومددگار کیوں کوچہ شب میں بے بس، مجبور عصمتوں کا کاروبار کیوں۔ غربت کی کوک سے پیدا ہونے والے ہنرمند، پڑھے لکھے نوجوان بے روزگاری پر مجرم بننے پر لاچار کیوں، ملک کا بچہ بچہ مقروضیت کے چنگل میں کیوں اور نہ جانے کتنے اَن گنت لاتعداد ایسے ”کیوں“ ہیں جو تخت نشینوں سے جواب کے شدت سے طلب گار ہیں۔
آج ایک طرف ملک معاشی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بے لگام پاگل گھوڑے کی طرح آپ سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی کی جونکیں مفلس عوام کا رہا سہا خون چوسنے کو بے تاب ہیں۔ قرض کا تقریباً (100) سو ارب ڈالر کہاں گیا کیسے خرچ ہوا کس کس نے ہڑپ کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس بچے کے پاس کھانے کو روٹی نہیں، پینے کو صاف پانی نہیں، تن پہ کپڑا نہیں، پیروں میں جوتی نہیں، بیماری میں دوائی نہیں، تپتی زمین پہ سایہ دار گھر نہیں، حتیٰ کہ مرے ہوئے انسانوں کے گھر والوں کے پاس کفن دفن کے لئے پیسے تک نہیں، وہ بھی ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کے فی کس مقروض ہیں اور اغیار سخت شرائط کی مدمیں نہتی بھوکی عوام کو اشرافیہ کی چکی میں رگڑا لگوانے پہ اکڑی ہوئی ہے۔ تو دوسری طرف بیرونی دشمن قوتوں کے آلہ کار دندنا رہے ہیں۔ حال ہی میں عظیم سلامتی کے ادارے کے ترجمان نے قوم کو حقائق سے آگاہ کیا جو دشمن خفیہ ایجنسیوں سے فنڈ لے کر ریاست میں انتشار پھیلانے کے حوالے سے دشمنوں کے عزائم کو تقویت دے رہے ہیں اور سیاسی لبادے میں بدخواہ خدانخواستہ ملک ٹوٹنے کے بے سرے بھونڈے راگ سرعام الاپ رہے ہیں۔ اِن دِل خراش تکلیف دہ حالات میں یوں لگتا ہے جیسے دشمن کئی دھائیوں سے مل کر ملک کو کھوکھلا کرنے پہ لگا ہو۔
انتشار و نفرت کو ہوا دے کر خانہ جنگی کی طرف لے کر جانا چاہتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے اکثر سول ادارے کرپشن کا گڑھ بن چکے ہیں۔ ہجوم نماعوام سیاسی، سماجی، اخلاقی پستی کے ساتھ ساتھ عدم برداشت کی بے صبر آگ میں سُلگ رہی ہے۔ جب کہ ہر دِن بدعنوانی، لوٹ مار، منی لانڈرنگ، غیر قانونی اثاثہ جات و سوسائٹیز کے قبضہ مافیا، بے نامی جائیداد وں، بے نامی اکاؤنٹس وٹرانزیکشن و بیرونی فنڈنگ جیسے دیگر بے شمار گھناؤنے جرائم، نت نئے سکینڈلز کی بھرمار ہے۔ بہت سے قومی مجرم سیاسی پردہ نشینی سے بے نقاب ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ان نامساعد و تلخ حالات میں وقت کا یہی تقاضا ہے کہ دشمن قوتوں سے فنڈنگ لینے والے ملکی سلامتی کے غدار جنگل بھیڑیوں کو عبرت کا نشانہ بنایا جائے اور قومی امانتوں پہ آمین بنا کر آنے والے بددیانت خیانت دار اقتدار پرستوں کو قومی کٹہرے میں لانے کے لئے دیر نہیں کرنی چاہئے۔ ملکی ترقی و سلامتی کی راہ پر کھڑے بدشگون ”نحوستی بِلوں“ کو مراعات و مفاد پہ چوں چوں کرنے والے درباری چوہوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ ان سے لوٹا ہوا مسروقہ قومی مال برآمد کروا کے ملکی معیشت کو سنبھالا اور افلاس ماری عوام کو ریلیف دیا جائے۔ بہترین معاشرے کی تعمیر نو آئندہ آنے والی نسلوں کی بقا اور ملکی سلامتی اِس بات سے مشروط ہے کہ سیاست جیسے قومی و دینی فریضے کو جھوٹ فریب، منافقانہ و مکرانہ طرز عمل اور تجارتی، کاروباری بیوپاری بدعنوانی و دیگر جرائم سے پاک کیا جائے۔