تھیلیسیمیا ڈے

تھیلیسیمیا ڈے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


08 مئی تھیلیسیمیا کا بین الاقوامی دِن تھیلیسیمیا کے مریضوں اور ان کے والدین کے ساتھ اِن مریضوں کے اعزاز میں منایا جاتا ہے۔ جو بیماری کے بوجھ کے باوجود اپنی زندگی سے نااُمید نہیں ہوتے۔ محقق اور محسن اس بیماری میں مبتلا مریضوں کا معیار زندگی بہتر بنانے اور مرض کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں۔انہی محسنو ں میں ایک ایسا نام جو زبان زدِ عام ہے۔ وہ منو بھائی اور سُندس فاؤنڈیشن کا ہے۔
تھیلیسیمیا خون کی ایک موروثی بیماری ہے جنیاتی اعتبار سے تھیلیسیمیا کی دو بڑی قسمیں ہیں ایک الفا تھیلیسمیا اور دوسری بیٹا(Beta) تھیلیسمیا۔ جبکہ مرض کی شدت کے اعتبار سے اس کو تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلی تھیلیسیمیا میجر دوسری تھیلیسیمیا انٹر میڈیا اور تیسری تھیلیسیمیا مائنر ہے جسے کیرئیر بھی کہتے ہیں۔
ایسا جوڑا جو تھیلیسیمیا مائنر میں مبتلا ہو اگر آپس میں شادی کرلیں تو 25 فیصد متوقع ہے کہ آنے والا بچہ تھیلیسیمیا میجر میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ تھیلیسیمیا میجر کے مریض بچے کو پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد سے ہی خون کا انتقال شروع ہو جاتا ہے اور تاحیات جاری رہتا ہے اِ س بیماری کا مکمل علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ ہے یہ علاج عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے متواتر خون کے انتقال کی وجہ سے مریض کے جسم میں فولاد کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کو ادویات کی صورت میں بر وقت جسم سے اخراج نہ کیا جائے تو مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔


اِس سال تھیلیسیمیا کے دن کا موضوع
(Universal access to quality thalassaemia healthcare services: Building bridges with and for patients) جس کا مقصد تھیلیسیمیاکے مریضوں کے لئے بین الاقوامی سطح پر معیار ی علاج و معالجہ کی فراہمی اور مریضوں کے ساتھ اور اُن کے لئے باہمی تعاون کو پروان چڑھانا ہے۔
پاکستان میں تھیلیسیمیا کا مرض بڑھتا جا رہا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان تھیلیسیمیا میجر سے متاثرہ بچوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ہمارے مُلک میں نیشنل ڈیٹا بیس نہ ہونے کی وجہ سے تھیلیسیمیا سے متاثرہ مریضوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہے۔ جبکہ ہر سال تقریباََ 6000 بچے تھیلیسیمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ موروثی مرض سے متعلق عدم آگاہی کی وجہ سے اِس مرض کے پھیلنے کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ شادی سے پہلے لڑکا لڑکی دونو ں کا تھیلیسیمیا کیرئیر ٹیسٹ ہونا ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو موزی موروثی مرض سے محفوظ کیا جاسکے بلکہ قومی شناختی کارڈ پر تھیلیسیمیا ٹیسٹ کا اندراج ہو تاکہ آنے والی نسلوں میں یہ بیماری منتقل نہ ہوسکے۔ پاکستان میں تھیلیسیمیا پر قانون سازی او ر اِ س پر عمل در آمد کی اشد ضرورت ہے۔کیوں کے ایران، مالدیپ، سائپرس وغیرہ میں مناسب قانون سازی کے ذریعے ہی تھیلیسیمیا کا تدارک ممکن ہُوا ہے۔یہاں پر یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ تھیلیسیمیا کے مضمون کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔


اس بیماری کے ماہانہ علاج پر ادویات اور انتقال خون کی مد میں 20,000 سے 25000 روپے خرچ آتا ہے۔ جو کہ ایک غریب آدمی کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے یہ خرچ مختلف فلاحی ادارے برداشت کرتے ہیں۔ یہ صرف اور صرف ارباب اختیار اور دیگر مخیر حضرات کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔ سُندس فاؤندیشن جیسے ادارے نہ صرف اِن تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں لئے صحت مند انتقال خون کی فراہمی کو یقینی بنائے ہوئے ہیں بلکہ سُندس فاؤنڈیشن نے اس بیماری سے خاتمے کے لئے جدید مشینوں سے آراستہ لیبارٹری کا قیام اور ایک منصوبہ SUNMAC کو متعارف کروایا ہے جہاں پر روزانہ کی بنیاد پر مریضوں کے لواحقین اور عوام الناس کو تھیلیسیمیا کیرئیر کے لئے مفت جانچہ جا رہا ہے تاکہ آنے والی نسلوں سے اس موذی بیماری کا خاتمہ کیا جاسکے اور صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔
تین دہائیوں سے پہلے اِس مرض میں مبتلا بچوں کی اوسط عُمر 08 سے 12 سال ہُوا کرتی تھی لیکن سُندس فاؤنڈیشن اور اِس جیسے دیگر اداروں کی بدولت بتدریج جدید ٹیکنالوجی، موثر ادویات، صحت مند خون اور معیاری علاج معالجہ کی بدولت اِ ن مریض بچوں کی عُمریں 35 سے 40 سال ہوچکی ہیں۔ اِن میں اکثر مریض بچے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرکے معاشرے کے شانا بشانہ چل رہے ہیں اور معاشرے پر بوجھ نہیں ہیں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلٰی ملازمتوں پر فائز ہیں اور کئی اپنے کاروبار سے بھی منسلک ہیں۔


میں یہاں پر حکومت پنجاب کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو سُندس فاؤنڈیشن، فاطمید فاؤنڈیشن، تھیلیسیمیا سو سائٹی آف پاکستان اور دیگر اداروں جو کہ تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لئے کام کر رہے ہیں اُن کی مالی معاونت کر رہی ہے وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی زیر نگرانی پنجاب تھیلیسیمیا پریوینشن پروگرام کا دائرہ کار پنجاب کے تمام اضلاع تک پھیلا دیا گیا ہے۔ یہاں پر سابق وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کا ذکر نہ کیا جائے تو ذیادتی ہوگی جنہوں نے تھیلیسیمیا کے اداروں مریضوں اور حکومت کے درمیان پُل کا کردار ادا کیا۔


حکومت کو چاہئے کے تھیلیسیمیا کے مریضوں کے علاج معالجہ کے لئے جو ادارے اور لوگ شب و روز محنت کر رہے ہیں اِن کو خراج تحسین پیش کریں قومی اعزازات سے نوازیں نہ کہ سفارشی لوگوں کو ایوارڈ دئیے جائیں۔تھیلیسیمیا کے بچوں کے علاج معالجہ میں استعمال ہونے والی ادویات نہائیت مہنگی ہونے کے سبب تھیلیسیمیا کے بچوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ میری وزیراعظم پاکستان عمران خان سے اپیل ہے کہ وہ ان تمام ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیوں کو بھی کنٹرول کریں جِن کے نرخ آسمان کی بلندیوں کو چُھو رہے ہیں۔ تاکہ تھیلیسمیا کے مریض بچو ں کے علاج معالجہ میں رکاوٹ نہ آسکے۔
آخر میں اُن تمام مخیر حضرات اور بلڈ ڈونرز کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو سُندس فاؤنڈیشن اور اِن جیسے اداروں کا ساتھ دیتے ہیں یا راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -