لاک ڈاؤن میں نرمی،مگر حد درجہ احتیاط کے ساتھ
لاک ڈاؤن نرم ہونے جا رہا ہے، اب اس میں اگر مگر کی گنجائش نہیں،دُنیا یہ سمجھ چکی ہے کہ اب اسے ایک طویل عرصے تک احتیاطی تدابیر کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔ کورونا وائرس شاید کبھی بھی دُنیا سے ختم نہ ہو،جیسے دیگر وائرس انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ چلے آ رہے ہیں،البتہ اس کی ویکسین دریافت ہو سکتی ہے،اتنا عرصہ جو لاک ڈاؤن ہوا ہے،وہ رائیگاں نہیں گیا،اُس نے اس وائرس کی رفتار کو بھی روکا اور یہ بھی سمجھایا کہ اب زندگی کیسے گزارنی ہے، کل اسی امریکہ میں شہریوں نے بڑا مظاہرہ کیا ہے، جس میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب امریکی آئین ہمیں آزادانہ زندگی گزارنے کی اجازت دیتا ہے تو حکومت ہمارا یہ بنیادی حق کیوں سلب کر رہی ہے۔ ہر انسان موت سے بچنا چاہتا ہے،ہم بھی بچنے کی کوشش کریں گے،
لیکن ہمیں قیدی بن کر رہنا منظور نہیں۔اس قسم کی صورتِ حال جلد یا بدیر پیدا ہونی ہی ہے۔ امریکیوں کا مسئلہ روٹی دال نہیں آزادی ہے،لیکن ہمارا مسئلہ لوگوں کو گھروں میں مقید کر کے انہیں راشن بھی پہنچانا ہے، جو آسان کام نہیں، نوبت اگر خود کشیوں کی آ جائے تو کورونا جیسے وائرس کی تباہ کاری بھی ہیچ لگنے لگتی ہے اِس لئے ہمیں لاک ڈاؤن میں نرمی لانی ہو گی۔ وگرنہ کوئی بھی ایسا نجومی موجود نہیں،جو یہ دعویٰ کر سکے کہ کورونا وائرس فلاں تاریخ تک ختم ہو جائے گا۔ایک لامتناہی عرصے کے لئے پورے ملک کو جام نہیں کیا جا سکتا، جس حد تک گنجائش تھی، لوگوں نے برداشت کیا اب تو جمع پونجی بھی ختم ہو چکی ہے۔ اب حالات زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں، جنہیں شاید بعد میں سنبھالا بھی نہ جا سکے۔
یہ سوال بہت اہم ہے کہ جو اپوزیشن بھی پوچھ رہی ہے اور عوام کے ذہنوں میں بھی ہے کہ جب کیسز اور اموات بڑھ رہی ہیں تو لاک ڈاؤن کو کیسے نرم کیا جا سکتا ہے؟مگر یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، دوسرا رُخ یہ ہے کہ عوام کی قوتِ برداشت کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔پہلے ہی سب دیکھ رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں نرمی نہ ہونے کے باوجود عوام سڑکوں پر بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔دکانیں بھی کھلی ہیں اور پولیس نیم دِلی کے ساتھ لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کی کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب یہ چوہے بلی کا کھیل کب تک جاری رکھا جا سکتا ہے،پولیس نظر آئے تو دکانوں کے شٹر گر جاتے ہیں،چلی جائے تو اُٹھ جاتے ہیں، لوگ شٹر گری دکانوں کے اندر جا کر شاپنگ کر رہے ہیں۔ اُدھر نادرا نے من مانی کرتے ہوئے اپنے دفاتر کھول دیئے ہیں،وہاں جو عوام کا جم غفیر کندھے سے کندھا ملائے کھڑا نظر آتا ہے، وہ کورونا وبا کو کتنا پھیلا رہا ہے۔اس پر بھی کسی کی نظر ہے یا نہیں،یہ صورتِ حال اصل میں عوام کو ذہنی و نفسیاتی مریض بنا رہی ہے۔اُن کے اندر شعور کی بجائے خوف پیدا کر رہی ہے۔کسی حکومت میں بھی اتنی صلاحیت اور طاقت نہیں کہ عوام اگر لاک ڈاؤن کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں تو اُن کے خلاف ریاستی طاقت کو استعمال کر سکے،بھوکے پیاسے بے روزگار لوگوں کا گھروں سے باہر آنا جرم کیسے قرار پا سکتا ہے،جب تک ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی لوگوں سے اطاعت کی امید کیسے رکھ سکتی ہے۔
دُنیا بھر کی حکومتوں کو اب پسپا ہونا پڑ رہا ہے۔ کورونا کے خلاف نہیں،بلکہ لاک ڈاؤن کو برقرار رکھنے کے فیصلے پر برطانیہ، اٹلی، سپین، امریکہ اور ایران جیسے ممالک اِس بات پر مجبور ہو گئے ہیں کہ لاک ڈاؤن کو ختم کر کے نارمل زندگی کی طرف لوٹیں۔ یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب دُنیا بھر کے لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں کہ کورونا کیا ہے،اس سے کیسے بچنا ہے اور اس کے ساتھ کیسے زندگی گزارنی ہے۔ آج سے ڈیڑھ دو ماہ پہلے تک عوام میں کورونا کے بارے میں وہ سنجیدگی اور اُس کی تباہ کاری کا وہ احساس موجود نہیں تھا،جواب ہے۔پاکستان میں بھی سماجی فاصلے کی ضرورت کو اپنا لیا گیا ہے، عوامی زندگی میں لوگوں نے ہاتھ ملانا بند کر دیا ہے اور ہجوم میں جانے سے اجتناب کرنے لگے ہیں۔ اگرچہ معاشرے کے ناخواندہ طبقے کی ایک بڑی تعداد اب بھی اس کورونا وائرس کو ایک ڈھونگ،ایک مذاق سمجھتی ہے،لیکن انہیں بھی قدم قدم پر ایسے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے،جو احتیاطی تدابیر کے زمرے میں آتے ہیں گویا ایک احساس موجود ہے،جس پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
ویسے بھی اس وقت حالات نے عوام و خواص کو بہت کچھ سکھا دیا ہے۔آج دکاندار صرف چند گھنٹوں کے لئے دکانیں کھولنے کی اجازت مانگ رہے ہیں اور وہ بھی اس یقین دہانی کے ساتھ کہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ تمام احکامات پر عمل کریں گے کہ فیکٹری مالکان بھی حکومت کی ہر بات ماننے کو تیار ہیں، ٹرانسپورٹرز دہائی دے رہے ہیں کہ انہیں بھی ایس او پیز کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ گویا سوا مہینے کے لاک ڈاؤن نے سب کے کس بل نکال دیئے ہیں۔ تاجر وہ تاجر نہیں رہے، جو حکومت کو صرف دھمکیاں دیتے تھے، ٹرانسپورٹرز وہ نہیں ہیں جو لاک ڈاؤن سے پہلے جگہ جگہ گاڑیاں کھڑی کر کے سڑکیں بلاک کر دیتے تھے، سب ایک نئے طرز کی زندگی گزارنے کے لئے تیار ہیں یہ ہے وہ فرق جو کورونا کی وجہ سے ہمارے اندر پیدا ہوا ہے۔
اب رہ گئے عوام، جن میں ہر نوع کے افراد شامل ہیں،جنہوں نے اپنے کام کاج اور ضرورتوں کے لئے گھروں سے نکلنا ہے۔اُن کی تربیت کے لئے صرف حکومت ہی کردار ادا نہیں کر سکتی،بلکہ تاجر، فیکٹری مالکان، شاپنگ پلازوں کی انتظامیہ اور دیگر اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا،جس طرح بنکوں نے اپنے ایس او پیز بنا لئے ہیں اور لوگ اُن پر عمل کر رہے ہیں،اُسی طرح بازاروں، پبلک مقامات اور دفاتر میں بھی عوام کو بتایا جائے کہ اب احتیاطی تدا بیر کے بغیر وہ اُن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ماسک،دستانے، سینی ٹائزر اور بھیڑ سے اجتناب ایسی باتیں ہیں کہ جو اب معمول کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔اگر ان پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے تو کورونا کے ساتھ جینا کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔ معمول کی زندگی کو واپس لانا آسان نہیں تاہم احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہم اُس کی طرف بڑھ تو سکتے ہیں۔ بالغرض ہم ایک ماہ کے لئے لاک ڈاؤن مزید بڑھا دیتے ہیں تو کیا ضمانت ہے کہ کورونا وبا پر قابو پا لیں گے،
جب تک اس کی ویکسین ایجاد نہیں ہوتی اُس وقت تک اس کا مکمل خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ دوسری طرف اگر لاک ڈاؤن برقرار رکھا گیا، لوگوں کو روزگار کے مواقع نہ دیئے گئے، معیشت کا پہیہ نہ چلا تو یہ بات یقینی ہے کہ حالات بہت زیادہ خراب ہو جائیں گے، شاید اتنے خراب ہو جائیں کہ حکومت کی رٹ ہی ختم ہو جائے، جو کورونا سے بھی زیادہ خطرناک بات ہو گی۔یہ بات ہمیں بحیثیت قوم پلے باندھ لینی چاہئے کہ ہماری زندگی اب احتیاط کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی،مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں امید اور روشن مستقبل کو بھی اپنے دِل میں رکھنا ہے۔ایک طرف حکومت زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر ایس او پیز بنائے اور دوسری طرف تاجر تنظیمیں، صنعت کار، سرکاری ادارے اُس ایس او پیز پر عملدرآمد کرنے کے لئے پوری سنجیدگی سے اپنی ذمہ داری ادا کریں،ان میں سے کسی ایک فریق نے بھی کوتاہی کا مظاہرہ کیا تو خدانخواستہ کورونا اتنی بڑی تباہی لا سکتا ہے، جس کا ہم نے ابھی تک صرف سنا ہے زندگی کو ہم نے نارمل کرنا ہے، مگر حد درجہ احتیاط کے ساتھ، یہ ایسی حقیقت ہے جس سے نظریں چرانا مجرمانہ غفلت کے زمرے میں شمار کیا جائے گا۔