کسانوں سے گندم کی زبردستی خریداری
پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں کسانوں سے زبردستی گندم خریدنے کے معاملے پر حکومتی اور اپوزیشن بنچوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے احتجاج کیا،ان ارکان کا موقف تھا کہ جب بھی دیہات سے زبردستی گندم اٹھائی گئی تو بحران پیدا ہوا۔اپوزیشن ارکان نے کہا کہ کسانوں کے گھروں سے زبردستی گندم اٹھائی جا رہی ہے۔ سعید اکبر نوانی نے کہا کہ مَیں نے پچھلے سال بھی کہا تھا کہ اتنی گندم خریدیں جتنی کسان اپنی مرضی سے فروخت کرنا چاہتے ہیں، دیہاتی کبھی گندم سٹاک نہیں کرتا،صرف بیج اپنے پاس رکھتا ہے۔ شیخ علاؤالدین نے کہا کہ پورے چھ ماہ گندم درآمد کرنا پڑی، قیمتی زرمبادلہ امپورٹ میں استعمال ہو رہا ہے،غیر ملکی کسانوں کو ڈالر دینے پر تیار ہیں،مگر اپنے کِسان کو پیسہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ملک محمد احمد خان نے کہا کہ زمینداروں کے گھروں پر رکھی گندم کے گوداموں کو سیل کیا جا رہا ہے،کسان کے پاس تین سو من گندم ہو تو گذارہ کرنے کے لئے بھی کچھ چاہئے۔صوبائی وزیر چودھری ظہیر الدین نے کہا سوا من ایکڑ کے حساب سے کسان کو بیج درکار ہوتا ہے،وزیر خوراک سے کہوں گا انتظامیہ کسی کو تکلیف نہ پہنچائے،کسان کی مشکلات بڑھانے کی بجائے کم کریں۔سردار شہاب الدین نے کہا کہ وزیر خوراک خدا کے لئے ایوان میں آئیں اگر پارلیمانی سیکرٹری بھی نہیں آئیں گے تو یہ ایوان کی بے عزتی ہے۔
کسانوں سے زبردستی گندم خریدنے، گھروں اور گوداموں پر چھاپے مار کر بیج کے لئے رکھی ہوئی گندم پر بھی قبضہ کرنے کی شکایات کوئی نئی نہیں ہیں، ہر سال گندم کی برداشت کے موسم میں ایسی شکایات منظر عام پر آتی ہیں، کسان شور مچاتے ہیں، اسمبلیوں میں مسئلہ اٹھایا جاتا ہے،لیکن ہوتا ہواتا کچھ بھی نہیں، متاثرہ کسان رو دھو کر بیٹھ جاتے ہیں اور ”قہر درویش، بر جان درویش“ کے مظاہرے عملاً دیکھے جاتے ہیں،چونکہ زبردستی کے اس مختصر کھیل میں متعلقہ اہلکاروں نے کروڑوں روپے کمانے ہوتے ہیں،اِس لئے وہ شور شرابے کے باوجود اپنا کام جاری رکھتے ہیں،جب سیزن ختم تو کھیل بھی ختم اور ہینگ اور پھٹکڑی لگائے بغیر کمائی کرنے والوں کے وارے نیارے۔پنجاب سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا صوبہ ہے، یہیں سے صوبہ خیبرپختونخوا،بلکہ افغانستان کی گندم کی ضروریات پوری ہوتی ہیں،اِس لئے اس موسم میں حکومت کے ساتھ ساتھ آڑھتی، بیوپاری اور اس کاروبار سے وابستہ بہت سے فریق بھی گندم کی خریداری کے لئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں،حکومت کے متعلقہ محکموں کے کارندے مقررہ سرکاری نرخ پر(یا پھر اس سے بھی کم) گندم خریدنے کے لئے متحرک رہتے ہیں۔اگر تو گندم فروخت کے لئے وافر مقدار میں دستیاب ہو تو زیادہ ریٹ دے کر آڑھتی بھی خریدنے کی کوشش کرتے ہیں،جو ادارے گندم کا بیج ڈویلپ کرتے ہیں وہ بھی اسی سیزن میں خریداری کرتے ہیں۔گزشتہ برس یہ شکایات پیدا ہوئیں کہ بیج کے لئے جو گندم ذخیرہ کی گئی تھی اس پر بھی زبردستی قبضہ کر لیا گیا۔پنجاب میں چونکہ سرکاری ریٹ سندھ کی نسبت دو ہزار روپے کم ہے،اِس لئے خریداری کا فوکس یہیں پر زیادہ ہے،ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یہاں سے خریدی ہوئی گندم سندھ لے جا کر فروخت کی جا رہی ہے،جہاں آٹے کے نرخ بھی پنجاب کی نسبت زیادہ ہیں۔
سالہا سال ہمارے پاس گندم اتنی وافر ہوتی تھی کہ ذخیرہ کرنے کے لئے جگہ نہیں تھی، یہ کھلی جگہوں اور بہت سے ریلوے سٹیشنوں کے پلیٹ فارموں پرپڑی رہتی، ترپال وغیرہ ڈال کر اسے بارش سے محفوظ کرنے کی کوشش تو کی جاتی،لیکن پھر بھی بڑی تعداد میں گندم ضائع ہوتی رہتی، لیکن گزشتہ برس اچانک اُس وقت بحران پیدا ہو گیا جب حکومت اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود گندم کی خریداری کا ہدف پورا نہ کر سکی،اِس دوران جب آٹے کے نرخ بڑھنا شروع ہو گئے، تو گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا،اس مقصد کے لئے روس سے رجوع کیا گیا تو اس نے شرط رکھ دی کہ پاکستان پہلے گندم کی درآمد کے لئے جاری کئے گئے ٹینڈر منسوخ کرے اور پھر ہمارے ساتھ خریداری کی بات چیت کرے، چنانچہ حکومت کو یہ شرط بھی ماننا پڑی۔ عالمی ٹینڈر منسوخ کئے گئے اور روس سے گندم خریدی گئی،پھر خریداری کے موقع پر ریٹ پہلے کی نسبت بڑھ گئے،اب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ضرورت کے مطابق گندم خریدی جائے گی لیکن کسانوں سے زبردستی خریداری کی شکایات بھی ہیں،جس کی سزائے باز گشت پنجاب اسمبلی میں سُنی گئی ہے۔ارکان نے یہ شکوہ بھی کیا ہے کہ حکومت کسانوں کی شکایت پر مناسب کارروائی نہیں کر رہی۔
پنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویز الٰہی کی مسلسل کوششوں سے گندم کا سرکاری نرخ 1800روپے فی من مقرر ہوا تھا۔اگرچہ اُن کا مطالبہ تو یہی تھا کہ ریٹ2000روپے سے کم نہیں ہونا چاہئے،لیکن وفاقی حکومت1650روپے سے زیادہ دینے کے لئے بڑی مشکل سے آمادہ ہوئی۔تاہم سندھ حکومت نے اپنے طور پر نرخ دو ہزار مقرر کر دیا، جس پر اسے نکتہ چینی کا سامنا بھی رہا،لیکن کسان اس نرخ سے خوش نہیں،اس پر اگر گندم زبردستی خریدی جائے گی تو اس پر احتجاج تو اس کا حق ہے۔بظاہر لگتا ہے جن سرکاری حکام نے گندم کے سیزن کو کمائی کا مستقل ذریعہ بنایا ہوا ہے وہ اب بھی پہلے کی طرح سرگرم عمل ہیں،اِس لئے کسانوں کے احتجاج کے باوجود یہ لوگ کسی نہ کسی طریقے سے اپنی مطلب براری کر لیتے ہیں،جب کسانوں کو بار دانہ درکار ہوتا ہے اُس وقت بروقت اس کی سپلائی نہیں ہوتی اور بیچارے کسان اس مقصد کے لئے سفارشیں کراتے ہیں۔اب بھی اُن کا موقف ہے کہ اوّل تو اُنہیں گندم کا صحیح معاوضہ نہیں مل رہا اور بیرونِ ملک سے مہنگی گندم خریدنے کو ترجیح دی جا رہی ہے،لیکن کسانوں کی سال بھر کی کمائی بھی زبردستی اُن کے گوداموں سے اٹھائی جا رہی ہے۔گندم کا بیج بھی کسانوں کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے،کیونکہ انہوں نے بیج کے لئے اپنی زمینوں کے پلاٹ مخصوص کئے ہوتے ہیں۔یہ گندم کوالٹی کے لحاظ سے نسبتاً بہتر ہوتی ہے ایسی گندم بھی اگر خریداری کے نام پر زبردستی اٹھا لی جائے گی تو چند ماہ بعد جب گندم کاشت کرنے کا وقت آئے گا تو کسان بیج کہاں سے لے گا؟مارکیٹ میں وہ ترقی دادہ مہنگے بیج خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا، ایسا بیج صرف بڑے زمیندار ہی خرید سکتے ہیں۔کھاد اور دوسرے زرعی مداخل کسان پہلے ہی ادھار خریدتا ہے اور پھر فصل آنے پر اس کی ادائیگی کرتا ہے،حکومت کو چاہئے کہ کسانوں کو نہ صرف اُن کی محنت کا پورا صِلہ دے،بلکہ انہیں حراساں کر کے زبردستی گندم خریدنے سے بھی گریز کرے۔اگر پرائیویٹ سیکٹر میں اسے زیادہ بہتر ریٹ مل رہا ہے تو بھی اسے اپنی گندم حکومت کو فروخت کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہئے۔