کورونا سے بچاؤ کے لئے احتیاط
پاکستان میں کورونا کی صورت حال پریشان کن ہے۔ سرکاری اعلان کے مطابق اب تک 8 لاکھ 40 ہزار کیسز سامنے آچکے ہیں، جبکہ تقریباً ساڑھے 18 ہزار لوگوں کو اس وبا نے موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ اس وقت ملک میں آکسیجن کی کل پیداوار کا 90 فیصد حصہ زیر استعمال ہے۔ کورونا کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد روایتی طریقوں اور ایس او پیز پر عمل درآمد کی اپیلوں سے نہیں رکے گی۔ اب تو ایک نئے لاک ڈاؤن کی آواز بھی آگئی ہے، جو غریب عوام اور معیشت کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔یہ دوسرا رمضان ہے جس میں نہ تو ہم اپنے دوستوں سے مل سکتے ہیں، افطار پارٹی رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی عبادات کے لیے اعتماد سے گھروں کے باہر جا سکتے ہیں۔ ایک طرف پابندیوں کی تھکن ہے، دوسری طرف ویکسی نیشن کی رفتار بھی کچھ سست ہے۔ پاکستان میں تقریباً 11 کروڑ افراد کو ویکسین کی ضرورت ہے۔اس وقت پاکستان کا سارا انحصار چین کی ویکسین پر ہے اب خام مال کی کھیپ بھی آئی ہے، جس کی پیکنگ پاکستان میں ہو گی۔ Pfizer-BioNTech اس وقت سب سے مطلوب ویکسین ہے لیکن پاکستانی مارکیٹ میں اس کا کوئی نام و نشان نہیں۔ سننے میں تو آیا ہے کہ دس لاکھ ویکسین کا معاہدہ امریکہ سے ہوگیا ہے لیکن اس کی حکومتی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ پیسوں کا ہے۔ ابھی تک پاکستان مفت فراہم کی جانے والی ویکسین وصول کر رہا ہے۔اس مرض کے پہلے ہی مرحلے میں ایک بات واضح ہوگئی تھی کہ اس وبا سے لڑنے کے لیے ہمیں فقط ویکسین درکار نہیں،بلکہ اس کی ہر فرد تک رسائی بھی ممکن بنانی ہو گی۔
ایسا نہ ہوا تویہ وائرس عوام کی نقل و حرکت سے پھیلتا جائے گا اور وائرس میں میوٹیشن ہوتی رہے گی۔ اس سے بچنے کے لیے ورلڈ ہیلتھ آگنائزیشن (WHO) اور یورپی یونین کی جانب سے COVAX کا تصور پیش کیا گیا۔ یہ پروگرام حکومتوں، صحت کی عالمی تنظیموں، سول سوسائٹی اور مخیر حضرات کو اکٹھا کرتا ہے اور اس کا مقصد مفت یا کم نرخوں میں کووِڈ کی تشخیص، علاج اور ویکسی نیشن کرانا ہے۔ توقع ہے کہ ڈیڑھ کروڑ خوراکوں کے ساتھ پاکستان یہ ویکسین وصول کرنے والے پانچ بڑے ممالک میں شامل ہوجائے گا۔ نجی شعبے کی کمپنی کو پاکستان میں ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دینا معقول اقدام تھا۔ اس سکیم کے تحت روسی اسپوتنک ویکسین کی 50 ہزار خوراکیں درآمد کی گئیں۔ پاکستان میں ویکسی نیشن مہم کے پیش نظر بلومبرگ رپورٹ کے مطابق 70فیصد آبادی کو موجودہ رفتار سے ویکسین لگنے میں ایک دہائی لگ سکتی ہے۔ اگر ہم ویکسین کی پرائیویٹ درآمدات پر پابندی لگا دیں گے تو عوام کی اضافی ویکسی نیشن کے امکان کم ہو جائیں گے اور یہ عمل حالات اور خراب کر دے گا بلکہ پاکستانیوں کو بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت بھی نہ ملے گی۔ اسی طرح ملک میں لاک ڈاؤن کے حوالے سے حکومت کو جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ غریب عوام کورونا سے بچ کر بھوک سے مر جائیں۔ اسی طرح فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کی ہر صورت حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں خصوصی الاوئنس دے جائیں تاکہ وہ مزید جوش و جذبے سے عوام کی خدمت کریں۔عید اب چند ہی روز دور ہے اور سب بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں کہ کب باہر نکلیں گے اور اپنے عزیز و اقارب سے ملیں گے، لیکن یاد رہے کہ ہم لوگوں کو احتیاطی تدابیر کا خیال رکھنا ہوگا۔ عید کی نماز پڑھنے اور عید ملنے کا کس کا دل نہیں کرے گا لیکن یہ تو معمولی بیماری کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ پر ہیز علاج سے بہتر ہے لیکن کورونا میں تو احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں۔ اگلی چیز یہ ہے کہ اس دفعہ اگر ہو سکے تو نئے کپڑے لینے سے گریز کریں اور جو پیسے آپ نے کپڑوں میں لگانے ہیں ان سے آپ کسی کی مدد کر دیں تاکہ آپ کے ساتھ وہ بھی عید منا سکے۔