خود کشی کرنا سخت نا جائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ خود کشی کرنے والے کے بارے میں قرآنِ پاک اور احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں مگر جبکہ وہ مسلمان ہے تو اس کی نمازِ جنازہ ضرور فرضِ کِفایہ ہے جس جس تک اطلاع پہنچی ان میں سے اگر کوئی بھی نہ پڑھے گا تو سب گنہگار ہوں گے ہاں اگر علما و مشائخ، مُقْتَدا، پیشوا حضرات زَجْرو تنبیہ کے لئے نہ پڑھیں اور دوسرے پڑھ لیں تو اس میں حرج نہیں بلکہ یہی مناسب ہے۔ یونہی خودکشی کرنے والے مسلمان کے لئے دعائے مغفرت کرنا اسے ایصالِ ثواب کرنا سب جائز ہے۔
(مفتی فضیل، دعوتِ اسلامی)
خود کشی کرنا بہت ہی بڑا گناہ ہے، اور اس پر سخت عذاب کی وعیدیں آئی ہیں، لیکن خود کشی کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، لہٰذا ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ البتہ علماء اور پیشوا حضرات کو جنازہ میں شرکت نہیں کرنی چاہیے؛ تاکہ دیگر حضرات کو عبرت حاصل ہو۔
(الدرالمختار مع ردالمحتار)
"من قتل نفسه ولو عمدًا یغسل ویصلی علیه. به یفتی. وإن کان أعظم وزرًا من قاتل غیره". (۳/۱۰۲، باب صلاة الجنازة)
(دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)
خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھی جائے، اور اسی پر فتویٰ ہے
(دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
شریعتِ اسلامی کی نگاہ میں خودکشی فعلِ حرام ہے۔ اس حرمت کا سبب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتِ حیات کا کفران ہے۔ درحقیقت انسان کا مادی وجود اور زندگی کوئی کسبی شے نہیں جسے اس نے اپنی محنت سے کمایا ہو اور نہ یہ اس کی ذاتی ملکیت ہے‘ بلکہ یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے جو انسان امانتاً دی گئی ہے۔ یہ نعمت بقیہ تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے، اسی لیے اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کریں۔ زندگی کو درپیش خطرات کے تدارک پر مبنی تعلیمات دی ہیں تاکہ انسانی زندگی پوری حفاظت و توانائی کے ساتھ کارخانہِ قدرت کے لیے کار آمد رہے۔ اسی لیے اسلام نے جہاں ایک بیگناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کو موت کے گھاٹ اتارنے کے مترادف قرار دیا ہے‘ وہیں اپنی زندگی ختم کرنے کو بھی ہلاکت و بربادی کا بتایا ہے۔ جیسا کہ ارشا ربانی ہے ’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اللہ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے ‘‘
امام بغوی نے سورہ النساء کی آیت نمبر 30 کی تفسیر کے ذیل میں سور ہ البقرہ کی مذکورہ آیت نمبر 195 بیان کرکے لکھا ہے کہ اس آیت میں کسی مسلمان کی خودکشی کو ہلاکت قرار دیا گیا ہے۔خودکشی کرنے والوں کے بارے میں سورہ النساء میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔ اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ او پر بالکل آسان ہے۔‘‘احادیث مبارکہ میں بھی خودکشی کرنے والوں کے لیے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ جس شخص نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ میں کھاتا ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا‘‘
مذکورہ بالا حدیث میں ’خلود فی النار‘ یعنی دوزخ میں مستقل رہنا ایسی سزاء ہے جو اہل سنت کے نزدیک کفار کیلئے ہی مختص ہے‘ اسی بناء پر بعض علماء نے خیال کیا ہے خودکشی کرنے والا دین اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اس لیے اس کے تجہیز و تکفین کی بھی مخالفت کی ہے۔ لیکن مذاہب اربعہ میں اس بات پر اتفاق ہے کہ خودکشی کرنے والا دین سے خارج نہیں ہوتا اس لیے خودکشی کرنے والے کو غسل دیا جائے، اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے اور اس کے لیے دعائے مغفرت بھی کی جائے گی۔تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس غیرشرعی عمل کی حوصلہ شکنی کرنے کی غرض سے خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ ادا کرنے سے انکار فرمایا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو ایک تیر سے ہلاک کر لیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں فرمائی مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اجازت دی کہ اس کی نماز جنازہ ادا کریں۔ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل خود کشی سے نفرت پر محمول ہے، فقہائے احناف کا مؤقف بھی یہی ہے کہ خودکشی کرنے والے کو غسل دے کر اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ علامہ محمد بن علی المعروف علاء الدین حصکفی فرماتے ہیں’’جس نے اپنے آپ کو قتل کر دیا اگرچہ جان بوجھ کر ہو، اسے غسل دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اسی پر فتوی ہے‘‘
آقا علیہ السلام کا صحابہ کرام کو خودکشی کرنے والے کا جنازہ ادا کرنے کی اجازت دینا اور فقہائے کا اس کی تجہیز و تکفین پر متفق ہونا خودکشی کرنے والے کی جنازہ ادا کرنے کے جواز کی دلیل ہے۔ تاہم ایسے علماء و صلحاء جو خلقِ خدا کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں ان کے لیے اس سلسلے میں دو صورتیں ہوسکتی ہیں ایک یہ ہے کہ نمازِ جنازہ میں شرکت کر کے شرکائے جنازہ کو اس قبیح فعل کی سنگینی اور شرعی احکام سے آگاہ کریں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے بارے میں بتائیں کہ کس طرح آپﷺ نے خودکشی کرنے والے کی جنازہ ادا نہ فرما کر اس سے اعلانِ برات کیا ہے تاکہ عامۃ الناس اس فعلِ حرام کے مرتکب نہ ہوں۔ دوسری صورت خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ میں شرکت نہ کرنے کی ہے‘ جب حالات ایسے ہوں کہ جنازہ میں شرکت نہ کرنا لوگوں کو اس کے ارتکاب سے روک سکتا ہو یا اس جرم کی سنگینی کا احساس دلا سکتا ہو تو ایسا کرنے کی بھی اجازت ہے۔
(مفتی محمد شبیر قادری، منہاج القرآن)