فوری انتخابات؟ 

 فوری انتخابات؟ 
 فوری انتخابات؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 عید کے تیسرے دن Forum for Advocacy & Innovative Research (FAIR)کے پلیٹ فارم پر پہلی باقاعدہ میٹنگ کا اہتمام کیا گیا جس میں ہر طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے اہل علم و دانش نے شرکت کی۔ اس مجلس میں اہل قلم، ماہر معیشت، بزنس لیڈرز، سول بیوروکریسی، کھیل اور قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ FAIRکی اس پہلی بیٹھک کا موضوع ملک میں فوری انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ تھا۔ 
کل ملا کر اس مجلس میں پندرہ شرکاء موجود تھے اور سیر حاصل بحث کے بعد جب پول ہوا تو معلوم ہوا کہ فوری انتخابات کے حق میں محض تین شرکاء تھے جبکہ باقی کے شرکاء نے انتخابات کے اپنے مقرر وقت پر انعقادکی تجویز دی۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ FAIRنے ملک میں فوری انتخابات کے مطالبے پر پہلا پول کروانے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ خاص طور پر اس فورم کے روح رواں عبدالباسط خان مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جن کی مسلسل کوشش کے نتیجے میں یہ اکٹھ ممکن ہوسکا۔ 


حاضرین مجلس میں اکثریتی رائے تھی کہ آئین کے تحت اگر عام انتخابات کے لئے پانچ سال کا عرصہ متعین کیا گیا ہے تو اس کی پاسداری ہونی چاہئے تاآنکہ کوئی ایسی ناگزیر صورت حال نہ پیدا ہو جائے جس کے نتیجے میں فوری انتخابات کے سوا کوئی اور چارہ نہ ہو۔ ان کا یہ بھی مانناتھا کہ اگر ملک کی گیارہ جماعتیں انتخابات کے اپنے مقررہ وقت پر انعقاد کے لئے متفق ہیں تو محض ایک سیاسی جماعت کے کہنے پر اس لئے فوری انتخابات کا ڈول نہیں ڈالنا چاہئے کہ اسے جمہوری طریقے سے حزب اقتدار سے نکال باہر کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس سیاسی جماعت کا موقف ہے کہ اسے ایک امریکی سازش کے نتیجے میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہوگی کہ اگر وہ سیاسی جماعت فوری انتخابات کے نتیجے میں اقتدار میں آتی ہے اور اس کے تین ماہ بعد ایک اور سازش کے نتیجے میں اقتدار سے نکال باہر کی جاتی ہے تو پھر وہ دوبارہ فوری انتخابات کا مطالبہ نہیں کرے گی؟ وہیں پر معروف صحافی نذیر لغاری کا حوالہ بھی دیا گیا کہ اگر فوری انتخابات کے نتیجے میں عمران خان ہی واپس اقتدار میں آئیں گے تو اس مرتبہ وہ عوام کی ترقی و خوشحالی کے لئے ایسا کیا کرلیں گے کہ جو گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں وہ نہیں کر سکے ہیں؟


اکثریتی رائے یہ بھی تھی کہ اگر الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرنا چاہتاہے تو نہ صرف یہ کہ اسے اس کام کا مکمل اختیارہے بلکہ اسے اس کی مکمل مہلت بھی دینی چاہئے تاکہ عوامی رائے عامہ کی مکمل جانچ یقینی ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اصرار تھا کہ انتخابی اصلاحات کے بغیر ملک کو فوری انتخابات کی آگ میں نہیں جھونکنا چاہئے اور FAIRکو فوری طور پر انتخابی اصلاحات کے ضمن میں اپنی سفارشات مرتب کرکے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سیاسی جماعتوں کو ارسال کرنی چاہئیں تاکہ اس قومی عمل میں اپنی شراکت کو یقینی بنایا جا سکے۔ 
مجلس کی اکثریت کا اتفاق تھا کہ جمہوریت کی مثال ایک چھتری کی ہے جس میں ناقص انتخابی ضوابط کے سبب بہت سے سوراخ ہو چکے ہیں۔ اگر انتخابی اصلاحات کے بغیر فوری انتخابات کی جانب بڑھاگیاتو یہ سوراخ بڑے بڑے شگافوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ اس لئے صبروتحمل کے ساتھ انتخابات کے راستے کی کھوج لگانی چاہئے اور اس جانب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھناچاہئے۔ 


دوسری جانب فوری انتخابات کے حق میں بلند ہونے والی آوازیں پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کے دوغلے پن کوتنقید کا نشانہ بناتی نظر آئیں کہ جب تک پی ڈی ایم کی جماعتیں اپوزیشن میں تھیں تب تک وہ فوری انتخابات کا راگ الاپ رہی تھیں اور جونہی ایک سازشی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وہ اقتدار میں آئی ہیں تو فوری انتخابات کے مطالبے سے دستبردار ہو گئی ہیں اور واحد پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے جو اس وقت فوری انتخابات کے انعقاد کے لئے ایک تحریک بپا کرنے جا رہی ہے۔ اس حلقے کا یہ بھی اصرار تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کو فوری انتخابات کے انعقاد کے سوال پر کسی عذر کا سہارا نہیں لینا چاہئے تھا بلکہ اپنے فرائض کی بجاآوری کرتے ہوئے انہیں ہر وقت انتخابات کے انعقاد کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اسی طرح فوری انتخابات کے لئے اٹھنے والی اقلیتی آوازوں کو یہ تشویش بھی لاحق تھی کہ اگر اوورسیز پاکستانیوں کو انتخابی عمل سے باہر رکھا گیا اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال یقینی نہ بنایا گیا تو انتخابات کا عمل متاثر ہوسکتا ہے۔ اس لئے ان ضروری کاموں کی انجام دہی کے لئے الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالنے کے لئے FAIRکو اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنا چاہئے۔ 


مجلس میں کاروباری برادری سے تعلق رکھنے والے حاضرین مجلس نے اس امر پر دکھ کا اظہار کیا کہ دنیا بھر میں ساڑھے آٹھ ارب کی آبادی میں محض چالیس کروڑ Entrepreneurہیں اور پاکستان کی 23کروڑ کی آبادی مین یہ تعداد محض چند ہزاروں میں ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر تشویش کی بات یہ ہے کہ ملکی فضا ایسی بن چکی ہے کہ پہلے تو کاروباری لوگوں کو چور، ٹیکس چور اور منافع خور کہاجاتا تھا، اب انہیں مافیا بھی کہا جانے لگا ہے۔ اس روش کے خاتمے کے لئے بھی FAIRکو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ 
اس میں شک نہیں ہے کہ ملکی مسائل پر ہر خاص و عام ایک بہت بڑی تشویش میں مبتلا ہے۔ خاص طور پر لاہور، کراچی، اسلام آباد، ملتان، فیصل آباد، حیدرآباد، سیالکوٹ اور دیگر ایسے بڑے شہروں اور علمی و کاروباری مراکز میں عوا م بڑے کرب میں مبتلا ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے ادارے آئینی مداخلت سے باز آجائیں اور عوامی رائے کے مطابق حکومتوں کو بننے اور ٹوٹنے دیں لیکن ایسی خواہش کی جا سکتی ہے اور جہاں تک اس کی عملی صورت کا تعلق ہے تو لگتا ہے کہ ہمیں مزید 75برس انتظار کرنا پڑے گا!

مزید :

رائے -کالم -