بازیچہء اطفال ہے دنیا مرے آگے  

  بازیچہء اطفال ہے دنیا مرے آگے  
  بازیچہء اطفال ہے دنیا مرے آگے  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


  غالب جیسا وژن تو ہر کسی کا نصیب نہیں۔ پھر بھی عید کی چھٹیوں میں رات دن کی دوڑ بھاگ سے کچھ لمحے چرا کر اپنی خوش قسمتیوں کا حساب لگانے بیٹھا تو ذہن میں سب سے پہلے وہی واقعات ابھرے جو عین وقت پر ہوتے ہوتے رہ گئے تھے۔ جیسے لڑکپن میں ایک ایسے تعلیمی جنکشن سے اچانک گھر واپسی جہاں سے فوجی تربیت گاہوں کو جانے والی ٹرین عام طور پہ چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں پر نہیں رکتی۔ مزید بیس سال گزرنے پر ایک اعلی تدریسی ادارے میں ایک دن کی حاضری اور پھر گلو کارہ ریشماں والی ’لمبی جدائی‘جس نے یہ تشویش ختم کر دی کہ محکمانہ ترقی کے لیے میرے مرتب کردہ نصابی ابواب ریسرچ پیپر ہوں گے یا نہیں۔ بحث کا نتیجہ خدا جانے کیا نکلتا، لیکن شکر ہے کہ اِس اتار چڑھاؤ میں اور بہت کچھ ہوا، مگر ذاتی ڈکشنری میں ’بور‘، ’بوریت‘ اور ’بورنگ‘ جیسے ماڈرن الفاظ کا اضافہ نہ ہو سکا۔ 


 یہاں یہ ثابت کرنا مقصود نہیں کہ زبان سیکھنے کے ابتدائی مرحلے پر ہم نے یہ کلمات کبھی سنے ہی نہ تھے۔ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ بچپن کی درسگاہوں کا ماحول، تدریسی

طور طریقے اور اسباق اتنے ’یوزر فرینڈلی‘ لگے کہ کبھی اکتاہٹ کا احساس نہ ہوا۔ ایسی بات نہیں تھی۔ لیکن ہمارے ’صاحبِ ایمان‘ اسکول ماسٹر بہترین علمی اور اخلاقی نشوونما کی خاطر طالب علم کی انگلیوں، اُلٹے ہاتھوں اور قرب و جوار کے مقامات پہ جس طرح ٹھیک ٹھیک نشانے لگاتے اُس میں ’انفوٹینمنٹ‘ کے کئی پہلو بھی پوشیدہ ہوتے۔ سی ایم (اب ایف جی) ہائی اسکول، واہ میں اکثر اساتذہ کی اردو اچھی تھی۔ چنانچہ ایک ایم اے، بی ٹی (علیگ) استاد نے لڑکوں کو تھپڑ کی اقسام سے بھی آگاہ کیا، جیسے ’بجّی‘ ’تُکی‘ اور ’جھانپڑ‘۔ اور پھر ڈنڈے کی قسمیں یعنی ’کمچی‘، ’چھڑی‘ اور ’بید‘۔ اِسے کہتے ہیں ’کھیل کھیل میں سائنس‘۔


 نفسیاتی لسانیات میں ماضی کے سوویت یونین میں بہت تحقیقی کام ہوا تھا جس کے نتائج پہ الگ الگ زاویوں سے غور کِیا جا سکتا ہے۔ پھر بھی یہ طے ہے کہ عام انسان کے لیے ماں بولی سے فطری رشتہ جوڑنا دیگر زبانیں سیکھنے کے مقابلے میں مختلف، زیادہ گہرا اور دیرپا عمل ہوا کرتا ہے۔ بڑی وجہ یہ کہ نارمل حالات میں پلے بڑھے لوگ مادری زبان اپنے گرد پیش کی مدد سے اور شعوری کوشش کے بغیر سیکھتے ہیں۔ جیسے کسی نے مسکرا کر ایک ننھے بچے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور بلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’لائٹ‘۔ پھر ایک آدھ مرتبہ نہیں بلکہ کبھی تسلسل کے ساتھ اور کبھی وقفے وقفے سے اسی سمت میں کئی بار اشارہ کیا اور یہی آواز نکالی۔ یہاں تک کہ ننھے میاں کسی نہ کسی سطح پر ایک نئے لفظ اور اُس سے جُڑے ہوئے تصور سے آشنا ہو گئے۔ اِسی طرح کئی اور ابتدائی الفاظ ہو سکتے ہیں۔


 مانوس تر ہوتے ہوئے ماحول میں انہی دریچوں سے ہم پہ رنگوں، شکلوں اور انسانی رشتوں کا منظر نامہ کھلتا ہے۔ چونکہ مجھے دوسروں کی ریسرچ کو دائیں بائیں کرکے اُس میں اپنا لُچ تلنے کی عادت ہے، اس لیے یہ انکشاف کرتا چلوں کہ وطن سے میری طویل پیشہ ورانہ غیر حاضری کے دوران میرے بھانجے عمار نے بڑے ماموں کی پہچان ’تھرڈ پرسن سنگلر‘ کے صیغے میں حاصل کی تھی۔ کسی نے کہا ’ماموں‘ اور بچے نے جھٹ ریڈیو کی طرف اشارہ کر دیا جو یہ پیغام دیتا تھا کہ ”لندن سے اردو نشریات سننے والوں کی خدمت میں شاہد ملک کا آداب“۔ ہر روز یہی کچھ ہوتا۔ البتہ جب عمار کے ’بابا‘ کی کرنیلی پر مَیں نے گھوڑے کی تصویر والا تہنیتی کارڈ بھیجا تو عمار نے کہا ’امی۔۔۔ ماموں‘ اور انگلی ریڈیو کی بجائے گھوڑے پہ رکھ دی۔ یہ بیان میری بہن کا ہے جو اپنی ذات میں میری طرح کسی پاکستانی چینل سے کم نہیں۔+


 گھوڑے کا چناؤ یہ سوچ کر کِیا تھا کہ وہ عسکری بلکہ اسلامی جانور ہے۔ خود میرے دونوں بچوں کی ’اصلاح معاشرہ‘ میں اصل رول تو اُسی صنف کا ہے جس نے دنیا میں تہذیبی قدریں رائج کرنے کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے۔ البتہ، ولایت ہی میں ایک دوست نے میرے دل میں تین برس کے بیٹے اور ایک سالہ بیٹی کے ساتھ ’گپ‘ لڑانے کا چسکا ڈال دیا تھا۔ ابتدائی حیرانی اِس پہ تھی کہ لڑکا کسی مادی چیز، جگہ یا شخص کا نام کیوں نہیں لیتا۔ بس ہفتوں تک یا تو ’لا الہ‘ کا ورد یا بار بار ایک ہی سوال کہ ’یہ کیا ہے؟‘ پھر ’پلے گروپ‘ کے بچوں کی دیکھا دیکھی دونوں بہن بھائی انگلش میں گِٹ پِٹ کرنے لگے۔ لیکن والدین کے ساتھ بات چیت اردو میں ہوتی رہی، جس میں ’ہمارا‘ کی جگہ ’ہم کا‘ کے سوا انگریزی کا کوئی شائبہ دکھائی نہ دیا۔ پھر بھی ایک دن جس جملے نے چونکایا وہ تھا: ”اماں، پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔“ 


 اصل میں جس کیفیت کا نام لیا گیا اُس کا کوئی خارجی اشارہ تو تھا ہی نہیں، نہ کسی بڑے نے کوئی باطنی زائچہ بنا کر نشان دہی کی تھی کہ ”دیکھو بیٹا، ؑعین اِس وقت تمہارے اندر جو ٹوئنٹی ٹوئنٹی کھیلا جا رہا ہے اسے پیٹ درد کہتے ہیں۔“ اگر خدا نخواستہ کوئی چوٹ لگ جاتی یا زخم سے خون نکلنے لگتا تو بات آسان تھی۔ اِس لیے آسان زخم لگنا یا خون نکلنا ایسے تجربات ہیں جن کے ’فزیکل انڈیکیٹر‘ موجود ہوا کرتے ہیں۔ مگر بچے کے ذہن میں درد کا بظاہر مجرّد ذائقہ اِس لفظ سے یکجا ہو کر تجربے کی منضبط اکائی کیسے بن گیا۔ اُس دن مجھے یونیورسٹی کالج آف نارتھ ویلز میں اپنے کورس ٹیوٹر کیون اوئین بہت یاد آئے جو تدریسی لسانیات پڑھاتے ہوئے، تھک ہار کر انسانی دماغ کی پری پروگرامنگ کی بات چھیڑ دیا کرتے تھے۔ مراد ہے قدرت کی طرف سے ودیعت کوئی ایسا سوفٹ وئیر جسے شعوری کوشش سے انسٹال نہیں کرتے۔ 


 معاملہ صرف پیٹ درد کا نہیں بلکہ ’زخمِ وفا، زمیں کے مسائل، رُتوں کے دکھ‘ اور کئی ایک بے انت کیفیتیں اِسی پری پروگرامنگ کے کھیل کا حصہ ہیں۔ آپ پوچھیں گے کہ بھئی، یہ بور ہو نے یا کرنے کی جبلت آخر کہاں سے آگئی۔ پھر رات دن بوریت اور ڈپریشن کا شکوہ کرتے رہنے والوں میں زندگی کا میچ ہارے ہوئے بوڑھے کم ہیں۔ بڑی تعداد تو خوشحال والدین کے اُن ’ینگ اینڈ اپ ورڈلی موبائل‘ بچوں کی ہے جن کا بہلاوہ ای گیمز جیسے کھیل ہیں۔ پس مومنین و مومنات، کِہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ہی نہیں۔ گُزاریں بھی تو توجہ بامعنی، دلچسپ اور سمجھ میں آنے والے مکالمے پہ کم ہوتی ہے۔ ا،س کمی کو دُور کرنے کے لیے اُنہیں خوب کھلایا پلایا، کپڑے لے دیے اور مشینی کھلونوں کو ’حاصل ِ غزل‘ سمجھ لیا۔ یہی ہے وہ وائرس جو بچوں کی سسٹم فائلیں بند کر دیتا ہے۔
 فائلیں کھولنے کے لیے کیا ہی اچھا ہو کہ سب بچے، جنہیں پنجابی زبان کے نظیر اکبر آبادی نے ’نویِں بہار دے کِیڑے‘ کہا ہے، سہ پہر چار بجے ہاکی اسٹک، کرکٹ بیٹ یا ریکٹ پکڑ کر نکل جایا کریں۔ خواہ اِس خاطر دوبارہ اسکول جانا پڑے، گلی میں چارپائیاں کھڑی کی جائیں یا گھر کی چھت پہ چڑھ کر گیند کو روکنے کے لیے پرنالوں کے منہ اینٹوں سے بند کرنے پڑیں۔ یہ نہ ہو تو پٹھو گرم، کوکلا چھپاکی اور کچھ نہیں تو یسو پنجو بہر حال کھیلا جا سکتا ہے۔ وہ اِس لیے کہ مِل کر کھیلنے سے طبیعت میں ٹیم ورک، نظم و ضبط کی پاسدار ی، اصولی احکامات کی تعمیل اور مشترکہ ہدف کے لیے اکٹھے لگانے کا جذبہ پیدا ہو گا۔ ’بازیچہ ٗ اطفال والے شعر کا اگلا مصرع ہے: ’ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے‘۔ زندگی کو بازیچہء اطفال سمجھیں یا نہ سمجھیں، بس بچے بڑے مل کر گپ لڑایا کریں۔ بوریت پاس نہیں پھٹکے گی۔

مزید :

رائے -کالم -