جلسوں کی بہار 

 جلسوں کی بہار 
 جلسوں کی بہار 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 عید کے بعد تو گویا جلسوں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ ایک کے بعد ایک جلسہ ہو رہا ہے شکر ہے اب جلسے دو ہی رہ گئے ہیں، ایک عمران خان اور دوسرا مریم نواز کا، پیپلزپارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام ف والے اس کام سے باز آ گئے ہیں یا وہ حکومتی امور میں اتنا مگن ہیں کہ انہیں اس کار بیکار میں حصہ لینے کی فرصت ہی نہیں۔ جمعہ کو عمران خان نے میانوالی میں میدان سجایا تو مریم نواز نے فتح جنگ میں ڈنکا بجایا۔ اب تو یہ بھی دیکھنا پڑے گا جلسے کا پہلا وقت کون لیتا ہے اور دوسرا کون، گویا جس طرح ٹاس کے بعد یہ طے ہوتا ہے کہ بیٹنگ کون کرے گا اور باؤلنگ کون، اسی طرح ایک ہی دن میں ہونے والے جلسوں کی ٹائمنگ بھی اہمیت اختیار کر گئی ہے، کیونکہ دوسرے نمبر پر جلسہ کرنے والے کے پاس جواب دینے کے لئے اچھا خاصا مواد ہوتا ہے۔ ان جلسوں میں نعروں کی نئی گلقند بھی متعارف کرائی جا رہی ہے۔ مثلاً مریم نواز نے جو فتح جنگ میں نعرہ لگوایا وہ بہت پاپولر ہوا ہے، لوٹ کے کھا گئے پاکستان، گوگی، پنکی اور کپتان، اس سے پہلے عمران خان  تو اپنے جلسوں میں چیری بلاسم، ڈیزل اور بڑی بیماری ایک زرداری کے نعرے لگواتے رہے ہیں لگتا تو یہی ہے کہ جلسوں کا یہ سلسلہ طول پکڑے گا۔ کپتان نے تو کہہ دیا ہے وہ بیس مئی ے بعد اسلام آباد لانگ مارچ کی کال دیں گے۔ دیکھتے ہیں وہ ایسا کرتے ہیں یا ابھی کسی کو ڈرا رہے ہیں تاہم مریم نواز نے اتنے ہی جلسوں کی کال دے رکھی ہے جتنی تعداد عمران خان کے جلسوں کی ہے، گویا اب ایک انتخابی بخار تو چڑھا ہی رہے گا۔ چاہے انتخابات اپنے وقت پر ہوں۔


سابق وزیر اعظم عمران خان اپنا بیانیہ خوب بیچ رہے ہیں۔ مگر اتنا لمبا عرصہ وہ ایک بیانیہ کیسے بیچ سکتے ہیں۔ وہ درمیان میں کچھ باتیں ایسی بھی کر جاتے ہیں جو ان کے بیانیئے کو مشکوک بنا دیتی ہیں۔ ایسی باتوں پر مریم نواز کہاں چپ رہنے والی ہیں، جو وہ تاک تاک کر نشانے لگاتی ہیں۔ مثلاً کپتان نے کہا ہے کہ انہیں جولائی میں پتہ چل گیا تھا کہ اپوزیشن ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والی ہے پھر ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ جنرل فیض حمید کو سردیوں کے اختتام تک عہدے پر رکھنا چاہتے تھے تاکہ اس عدم اعتماد کی مہم جوئی سے نکل جائیں۔ اب اگر ان کی یہ بات مان لی جائے تو امریکی مراسلہ تو 7 مارچ کو آیا ہے اور انہوں نے 27 مارچ کو جلسے میں لہرایا۔ گویا اس مراسلے سے بہت پہلے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔ پھر یہ بھی ہے کہ ان کی حکومت سے پہلے اگر آئی ایس آئی چیف کی کمان تبدیل نہ ہوتی تو ان کی حکومت بھی محفوظ رہتی۔ تو پھر یہ سازش اصل میں کہاں ہوئی اور کون تھا اس پردہئ زنگاری کے پیچھے، خان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے انہوں نے روزانہ کسی نہ کسی جلسے سے خطاب کرنا ہے، یا کسی چینل کو انٹرویو دینا ہے۔ یا پھر اپنی پارٹی کی کور کمیٹی  میں اپنے خیالات کی برسات کرنی ہے، اس لئے انہیں یاد ہی نہیں رہتا کہ کب کیا کہہ گئے ہیں اس لئے وہ تضادات کا شکار ہو رہے ہیں مگر لگتا ہے انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔


وہ سمجھتے ہیں غیر ملکی سازش کی تھیوری پر عوام اندھا اعتماد کر چکے ہیں انہوں نے اس کا تانا بانا اتنی خوبصورتی سے بنا ہے کہ اس پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں امریکی بھی سرپیٹ کے رہ گئے  ہیں کہ اس بلا سے کیسے جان چھڑائیں۔ انہوں نے شاید ہی آج تک حکومت بدلنے کا یہ غیر محتاط طریقہ اختیار کیا ہو، جو کپتان یہاں ثابت کر رہے ہیں۔ مراسلہ لکھ کے پہلے ثبوت فراہم کرنا اور پھر اس پر عمل کر کے حکومت کو نکالنا، یہ طریقہ انہیں آج تک نہیں سوجھا ہوگا۔ وہ تو بڑی خاموشی سے اپنا کام کرتے تھے، سی آئی اے، پینٹا گان اور تھنک ٹینک مل کر کوئی منصوبہ بناتے، جس کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دیتے۔ ایسا کھلا ڈلا منصوبہ انہوں نے عمران خان کے لئے بنایا کہ اب وہ اس کا چورن نگر نگر بیچ رہے ہیں۔ پاکستان میں امریکہ مخالف بیانات بہت بکتے ہیں، ایک زمانے میں مذہبی جماعتیں اسے بہت بیچتی تھیں۔ اس سے پہلے ایوب خان کے زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ کی حیثیت سے اسے کافی بیچ چکے تھے۔ مگر آج تک پاکستان میں کوئی حکومت ایسی نہیں آئی جس نے اقتدار میں رہ کر امریکہ کی مخالفت کی ہو ساری مخالفت اقتدار سے باہر آ کر ہی یاد آتی ہے۔ اپنے پیارے کپتان بھی جب ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنے امریکہ گئے تھے، اور وہاں ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کی خاصی آؤ بھگت کی تھی، تو انہوں نے واپس آ کر کہا تھا آج یوں لگ رہا ہے میں دوسری بار ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں یعنی ڈونلڈ ٹرمپ جو امریکہ کا ایک رنگیلا صدر تھا۔ اچھی نظر سے دیکھنے کا روادار ہوا تو کپتان کو ورلڈ کپ جیتنے جیسی خوشی مل گئی۔ دوسری خوشی اس لئے نہ مل سکی کہ جوبائیڈن نے انہیں فون نہیں کیا۔ فون اس لئے نہیں کیا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اتنی تعریف کر بیٹھے تھے کہ جوبائیڈن کو لگا وہ عمران خان سے بات کریں گے تو ٹرمپ خوش ہو جائے گا شکر ہے کپتان نے اب تک اس بات کا ذکر نہیں کیا وگرنہ وہ کہہ سکتے تھے جوبائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ سے بدلہ لینے کے لئے انہیں اقتدار سے نکالا ہے۔


میں سوچتا ہوں پیارے کپتان کے پاس یہ سازشی تھیوری والا بیانیہ نہ ہوتا تو آج وہ کیا بیچ رہے ہوتے۔ ان کے پاس تو بیچنے کے لئے ہے بھی کچھ نہیں ہر میدان میں ناکامیاں ہی ناکامیاں پنجابی میں کہتے ہیں کہ نوں لت لگی گئی، ہمارے کپتان کو صحیح معنوں میں یہی لت لگ گئی ہے، جس کی وجہ سے ان کے تمام دلدر دور ہو گئے ہیں بڑے بڑے جلسے ہو رہے ہیں، لوگ جوق در جوق چلے آتے ہیں، ساری مہنگائی، ساری بری گورننس، ساری کرپشن اور ساری خرابیاں بھول گئے ہیں بس انہیں کپتان کی عالمی سازش کے خلاف تھیوری یاد رہ گئی ہے۔ واقعی ماننا پڑے گا کپتان ایک بہت بڑا کھلاڑی ہے۔ وہ کھیل کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ ٹیم کی بری کارکردگی کے باوجود اپنے حامیوں کو یہ دلاسہ دیئے رکھنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے کہ ہماری جیت یقینی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کپتان کو اپنی ان صلاحیتوں کا اندازہ اقتدار سے باہر آ کر کیوں ہوا۔ اقتدار میں رہ کر کیوں فیض یافتہ ٹھنڈی ہواؤں کا انتظار کرتے رہے، کیوں ایسی ٹیم نہیں بنائی جو صرف بڑھکیں نہ مارتی کچھ کر کے بھی دکھاتی، کیوں عثمان بزدار اور فرح گوگی جیسے کرداروں کو اپنی ناک کے نیچے پلتا دیکھتے رہے، آج بظاہر انہیں لگ رہا ہے کہ وہ تمام مشکلات پر قابو پا لیں گے، حالانکہ مشکلات تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئیں۔ یہاں تاریخ ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے جو بہت مقبول تھے مگر باد مخالف چلی تو اس کی نذر ہو گئے۔ کپتان کو اپنے اردگرد مخالفوں کی فوج اکٹھی نہیں کرنی چاہئے، سوچ سمجھ کے یہ نئی اننگز کھیلنی چاہئے کیونکہ اس کے راستے میں ناہمواریاں زیادہ ہیں اور یہ وکٹ ہموار کم ہے۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -