ایک لڑکا کسی گاؤں میں خالہ کے پاس رہتا تھا خالہ کی اولاد نہ تھی سو اس نے اپنی بہن سے اس کا بیٹا لے لیا تھا تاکہ اولاد کی کمی پوری کی جا سکے لڑکے کی ماں شہر جبکہ وہ گاؤں اپنی خالہ کے پاس عیش کے دن گزار رہا تھا اسکے پورے ناز اٹھائے جارہے تھے لڑکا اپنی ماں سے بھی پیسے بٹورتا اور خالہ سے بھی سو اسکی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں شہر کے مقابلے میں گاؤں کی تعلیم کیا ہوگی وہ نہم کلاس کے امتحانات دے رہا تھا لاڈ پیار نے اس سے تعلیمی میلان چھین لیا تھا کھیل کود میں خوش رہتا نہم کے پیپرز ہورہے تھے ایک روز پرچہ دے کر آیا تو ماں سے فون پر کہہ رہا تھا جانتی ہو آج میں نے کون سا پرچہ دیا ہے؟ ماں نے کہا بتاؤ کون سا پرچہ دے کر آئے ہو وہ فون پر اونچی آواز سے کہہ رہا تھا آج میں بائیولوجی کا پرچہ دے کر آیا ہوں اور یہ وہ مضمون ہے جسے پڑھ کر لوگ ڈاکٹر بنتے ہیں لڑکا ابھی نہم کلاس کا امتحان دے رہا تھا اور اسکا فیل ہونا بھی یقینی تھا اور ماں کو ڈاکٹر بننے کے خواب دکھا رہا تھا۔
ایسے ہی گاؤں کااتائی ڈاکٹر دسویں فیل شہر کے کسی اچھے ہسپتال میں معمولی ملازم تھا چند ماہ میں ہی اس نے گاؤں میں اپنا کلینک بنا لیا اور لوگوں میں موت بانٹنے لگا آس پاس کے گاؤں والے بھی اسکے پاس آتے اس نے گاؤں میں بتایا ہوا تھا کہ شہر کے بڑے ہسپتال میں اسکی نوکری ہے جہاں بڑے ڈاکٹروں کے کے ساتھکام کرتا ہے اور کوئی لاکھ روپے کے قریب اسکی تنخواہ ہے حالانکہ اسے دس ہزار ملتے تھے گاؤں میں اس نے اپنی دھاک بٹھا رکھی تھی کہتا کہ اس نے کئی بار ہسپتال کی نوکری چھوڑنی چاہی لیکن ڈاکٹرز اسے نہیں جانے دیتے۔ گاؤں میں اپنے جھوٹے قصے سنا کر لوگوں کو مرعوب کرتا گاؤں کے پڑھے لکھے لوگ بھی اسکی باتوں میں آ گئے اس کی شہرت دور تک پھیلی اور چند ہی سال میں وہ اتائی کار کوٹھی پلاٹوں کا مالک بن گیا یہ اتائی شہر کے جس ہسپتال میں ملازمت کرتا تھا اس ہسپتال سے مریضوں کو بہلا پھسلا کراپنے گاؤں بلاتا صد حیف ہمارے لوگ ابھی تک باشعور نہیں ہوئے وہ شہر کے ہسپتال میں گئے مریضوں سے کہتا یہاں ہسپتال میں آپ کا علاج ممکن نہیں آپ گاؤں میرے کلینک پہ آئیں وہاں آپ کا علاج ہوگا یوں سالہاسال وہ شخص شہر سے مریضوں کو گمراہ کر کے اپنے گاؤں بلاتا اور انہیں ناقص ادویات دے دے کر اور بھی بیمار کرتا کچھ سال بعد ڈاکٹرز کو اس کی بے ایمانی کا پتہ چلا تو انہوں نے اسے ہسپتال سے فارغ کر دیا لیکن جب تک ڈاکٹرز کو پتہ چلا تب تک وہ اپنے گاؤں میں قدم جما چکا تھا اب دور دراز سے لوگ گاؤں میں اس میٹرک فیل اتائی کے پاس جاتے ہیں اس اتائی کا ایک اور واقعہ سنیے ایک خاتون کہ جو لاہور کسی پروفیسر صاحب کے پاس گئی اور اس پروفیسر صاحب نے اسے ایک انجیکشن لکھ دیا کہ یہ انجیکشن اتنے دنوں بعد لگے لگوا لینا وہ خاتون انجیکشن لے کر اس اتائی کے پاس گئی کہ یہ انجیکشن لگا دیں اتائی نے انجیکشن دیکھتے ہی کہا یہ کہاں سے لائی ہو خاتون نے کہا کہ لاہور کے پروفیسر صاحب نے لکھ کر دیا ہے کہنے لگا یہ کون سا بے وقوف پروفیسر ہے تمہیں اس ٹیکے کی ضرورت نہیں میں تمہیں ٹیکہ لگاتا ہوں۔
اس اتائی کی طرح ایک نام نہاد شاعر ہے میں تو ان نام نہاد شاعروں کو بھی اتائی شاعر کہوں گا وہ نام نہاد شاعر ایک استاد شاعر کے پاس جاتا اور کہتا کہ حضرت مجھے دو چار شعر کہہ دیجئے چار شعر آپ کہہ دیں گے تو ان کی رہنمائی میں ہم بھی کوئی تین شعر کہہ کر غزل مکمل کرلیں گے وہ ایک شاعر سے چار اشعار لکھواتا اور دوسرے شہر میں دوسرے شاعر کے پاس جا کر کہتا کہ حضرت یہ چار اشعار ہم نے کہے ہیں چاہتے ہیں کہ اب آپ کا استادانہ رنگ میری غزل میں ڈھل جائے تو پھر غزل کو چار چاند لگ جائیں گے تو دوسرے شہر کا استاد جب وہ اچھے اشعار دیکھتا تو اسے تین چار شعر کہہ کے غزل مکمل کر دیتا دوسرے شاعر سے لکھوا کر وہ پہلے شاعر کو کہتا جی یہ میں آپ کے لکھے شعروں کے آگے کچھ اور شعر لکھے ہیں غزل مکمل ہو گئی چونکہ دوسرا بھی استاد شاعر کا لکھا ہوتا تھا تو پہلا استاد شاعر بھی اسے داد دیتا اور دوسرے استاد شاعر سے بھی اس کو داد ملتی۔
معاشرے میں اس طرح کے فنکار لوگ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ان اتائیوں کی طرح ان نالائق سٹوڈنٹس اور فریبی شاعروں کی طرح ہمارے کچھ سیاستدان بھی ہیں جو عوام کو نہ جانے کب سے فریب دے رہے ہیں قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو کچھ ہی عرصہ مخلص قیادت میسر آئی پھر اس کے بعد کھینچا تانی لوٹ کھسوٹ کا ایسا سلسلہ شروع ہواجو ہنوز جاری ہے، پاکستان اور عوام کے نام پر حکمرانوں نے دنیا سے دو دو ہاتھ دراز کر کے جھولیاں پھیلا پھیلا کر قرضے لیے ہیں اور قرضوں کا حجم بھی پہاڑوں کی طرح ہو گیا عوام قرضوں کے کوہ گراں کے نیچے دب گئے لیکن پاکستان کے مسائل حل نہ ہوئے پاکستان کے عوام کو ریلیف نہ مل سکا ٹھیک ہے پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت کا میں اتنا معترف ضرور ہوں کہ مسلم لیگ نون کے دور میں کچھ ترقیاتی کام تو ضرور ہوتے ہیں لیکن مجموعی طور پر ہمارے سیاست دانوں نے پاکستان اور پاکستان کے عوام کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جس طرح ایک نالائق سٹوڈنٹ اپنی ماں کو اپنی لچھے دار باتوں سے الجھا دیتا ہے جس طرح ایک اتائی ڈاکٹر لوگوں کو گمراہ کر کے کار کوٹھیوں کا مالک بن جاتا ہے جس طرح ایک جعلی شاعر شاعروں سے لکھوا لکھوا کر شاعر بن جاتا ہے اسی طرح ہمارے سیاستدانوں کے احوال بھی ہیں ان میں کوئی سیاسی بصیرت نہیں۔ آج عالمی منظر نامے میں اگر ہم پاکستان کے احوال دیکھیں تو پاکستان اس وقت نہایت سیاسی خستہ حالی کا شکار ہے یہ سب کو معلوم ہے کہ نیتن یاہو جو ایک انٹرویو میں برملا کہہ چکا ہے کہ اسے پاکستان کا سیاسی استحکام منظور نہیں اور آج پاکستان سیاسی طور پر اس قدر خستہ اور شکستہ ہے کہ اگر پاکستان کو کوئی ایک فیصلہ کرنا پڑ جائے تو کوئی ایک جماعت اکیلے فیصلہ نہ کر سکے فلسطین پر لکھ لکھ کر قلم کاروں کے اعصاب مضمحل ہو گئے ذہن تھک گئے قلم کی سیاہیاں خشک ہونے کو آئیں لیکن اسرائیلی جارحیت کو دنیا میں کوئی روک نہیں سکا امریکہ سے لے کر یورپ تک طالب علموں کا احتجاج پھیلتا ہے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قراردادیں منظور ہوتی ہیں دنیا بھر میں اسرائیل کی خونریزی کے خلاف مذمتیں ہوتی ہیں لیکن اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدموں کو کوئی روک نہیں سکا اسرائیل میں الجزیرہ چینل پر حملہ ہوتا ہے تو اس پر بھی کوئی مذمتوں سے آگے بڑھنے والی بات نہیں ہے درحقیقت اسرائیل طاقت کے نشے میں دھت ہے جو دنیا کے قاعدے اور قانون کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مسلمانوں کو خون کے دریاؤں میں نہلا رہا ہے اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کا تو ایک ہی حل ہے کہ اس طاقتور اور بدماغ ملک کے سامنے طاقت کا ہی استعمال کیا جاتا لیکن دنیا کے مسلمان اس وقت ہر طرح کے وسائل سے مالا مال تو ہیں لیکن اندر سے کمزور ہیں عالم اسلام کو اندر سے پختہ ہونے کی ضرورت ہے اور پاکستان کو بھی اندرونی پختگی اور حقیقی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔