قومی تشخص سے اسلامی تشخص تک
سنت رسول کے مطابق نکاح، رخصتی اور دعوت ولیمہ کا ایمان افروز احوال
گزشتہ روز میرے موبائل پر ایک ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں ایک دعوت ولیمہ کا دعوت نامہ تھا،اس کا متن یہ تھا....”ایک مٹی ہوئی سنت کو زندہ کرنا، سو شہیدوں کا ثواب رکھتا ہے۔ شاد مان ٹو کی جامعہ مسجد میں عشاءکی نماز کے بعد ہم سب کے لئے ایک موقع ہے۔ میرے فرزند کے ولیمے میں حضور ﷺ کے اس ولیمے کی یاد تازہ ہو گی جس میں صحابہ کرام ؓ آپ کے فرمان پر اپنے گھروں میں موجود کھانا لے کر آئے تھے، شرکت فرما کر اس سنت کو زندہ فرمائیں۔ جزاک اللہ خیر! “نیچے دولہا کے والد کا نام لکھا تھا۔
چند روز قبل تبلیغی مرکز رائیونڈ کی مسجد میں ان کا نکاح ادارہ قومی تشخص کے سابق صدر ڈاکٹر اختر علی کی پوتی سے ہوا تھا، جس میں چند قریبی احباب نے ہی شرکت کی تھی۔ مجھے یہ ایس ایم ایس پڑھ کر حیرت ہوئی کہ ہم نے تو صرف نکاح ہونے کا ہی سنا تھا، رخصتی کب ہوئی کہ اچانک ولیمہ کی دعوت آ گئی ہے۔ مَیں چونکہ 1970ءسے بانی ادارہ قومی تشخص ڈاکٹر اختر علی مرحوم کے ساتھ وابستہ ہوں اور ان کے خاندان کی تمام تقریبات میں شریک ہوتا رہا ہوں، مجھے اس موقع پر نظر انداز کیوں کیا گیا ہے۔ یہ جاننے کے لئے مَیں نے ادارہ قومی تشخص کے صدر سے معلوم کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے اور مجھے کیوں مدعو نہیں کیا گیا؟ انہوں نے رخصتی کی تفصیلات بتا کر مزید حیران کر دیا کہ رخصتی کے وقت صرف دولہا میاں ہی اکیلے آئے تھے، اس لئے ہم نے کسی عزیز و اقارب کو مدعو نہیں کیا حتیٰ کہ دولہا کے والدین بھی ساتھ نہیں آئے تھے۔ دولہا میاں کو کھانے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے گھر میں کچھ قریبی مہمان آئے ہوئے ہیں، اس لئے میں ان کے ساتھ جا کر کھانا کھاﺅں گا۔ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے اور یہی عین اسلام ہے اور یہی سنت رسول اللہ ہے ۔ دلہن کے والدین نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ دولہا والوں کی اس سادگی کے پیش نظر ہم نے اپنے کسی بھی رشتہ دار، دوست احباب کو بھی نہیں بلایا۔ ان کے سسر اور ساس صاحبہ اسلام آباد ہوتی ہیں، انہوں نے بھی اپنی نواسی کو فون پر ہی دعائیں دے دی ہیں۔
ان کی تمام باتیں سن کر نہ صرف گلہ شکوہ بھول گیا، بلکہ بے حد خوشی ہوئی کہ ہمارے معاشرے کے سب سے مشکل ترین کام کو انہوں نے کمال طریقے سے آسان ترین کام بنا دیا ہے اور اسے احکام الٰہی اور اتباع سنت رسول سے منسوب کر کے مزید خوبصورت بنا دیا ہے۔ ان کے والد محترم ڈاکٹر اختر علی مرحوم آخری سانس تک ملک میں قومی تشخص کے فروغ کے لئے کوشاں رہے ، اب ان کے صاحبزادے قومی تشخص کے ساتھ اسلامی تشخص کو زندہ کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔اگر ہمارے معاشرے کے تمام خوشحال، دانشور اور با اختیار لوگ سنتِ رسول کے اس خوبصورت پہلو کی پیروی شروع کر دیں تو یہ انقلاب اوپر سے نیچے کی طرف تیزی سے آ سکتا ہے۔ ملک کے لاکھوں لوگ، جوبچیوں کی شادیوں کے لئے غیر اسلامی اور ہندوانہ رسومات کے اسیر ہیں، اپنے لئے آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس آسان کام کو اوپر والے طبقے نے ہی مشکل بنایا ہوا ہے، جس کی تقلید کرنا نچلے طبقے کی مجبوری ہے۔
مجھے جو ایس ایم ایس دعوت ولیمہ کی ملی تھی، اس میں شرکت کے لئے مَیں نماز عشاءسے قبل ہی شاد مان کی مسجد میں پہنچ گیا تھا۔ تمام حاضرین مسجد سے ملحقہ چھوٹی سی گراﺅنڈ میں تشریف لائے، جہاں گھاس پر سفید چادریں اور دستر خوان بچھائے گئے تھے۔ دولہا کے والد کے تمام دوست احباب اپنے ساتھ مختلف پکوان لائے ہوئے تھے، جو دستر خوان پر حاضرین کو پیش کئے جاتے رہے۔ سادگی کی انتہا کا یہ عالم تھا کہ دولہا کے بارے میں معلوم کرنا پڑا کہ کہاں ہے؟ کسی صاحب نے نشاندہی کر کے بتایا کہ یہ دولہا ہیں، مَیں نے انہیں گلے لگا کر شادی کی مبارکباد دی، وہ نیلے رنگ کے کرتہ اور سفید شلوار میں ملبوس تھے اور سفید پگڑی پہنی ہوئی تھی۔ دل سے بے اختیار نکلا کہ دولہا دلہن کے والدین زندہ باد، ان کی خوبصورت تربیت یافتہ اولاد پائندہ باد ، جنہوں نے والدین کے اس مقدس فیصلے پر لبیک کہا اور انہیں اس مثالی تقریب کے انعقاد کا موقع فراہم کیا۔ والدین کا احترام اور ان کے فیصلے پر عمل ہی بچوں کے لئے حصول دعا کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کوان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق فرمائے۔ اس میں ہمارے علمائے کرام بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور اس پر ایک متفقہ لائحہ عمل بنا کر اسے قانونی شکل دے سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ جس طرح ڈاکٹر اختر علی مرحوم ملک میں قومی تشخص کے فروغ میں کامیاب ہوئے تھے، ان کے صاحبزادے اسلامی تشخص کے انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب و کامران ثابت ہوں۔(آمین) ٭