کلین لاہور کی جان سینیٹری لینڈ فل کا قیام

10ملین آبادی پر مشتمل شہر لاہور سے روزانہ 5600 ٹن ویسٹ شہر کے مضافات میں محمود بوٹی کے مقام پر واقع ڈمپ سائٹ پر منتقل کیا جاتا ہے۔ رنگ روڈ پر رہائشی آبادی کے متوازی اور قریب ترین موجودگی کے باعث یہ ڈمپ سائٹ مفید ثابت ہونے کے بجائے انسانی زندگی اور ماحول کے لئے مضر اور انتظامی اعتبار سے غیر موثر نتائج دے رہی ہے۔ گزشتہ چالیس برس سے یہاں شہر کا کوڑاکرکٹ، گندگی اور ویسٹ بے محابا پھینکا جا رہا ہے جو اب ایک کوڑے کے ہیبت ناک پہاڑ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ گندگی کے اس پہاڑ سے بدبو کے اٹھتے بھبھوکے اور بھوک مٹانے کے متلاشی آوارہ پرندے و جانور قریبی آبادیوں کے لئے وبال جان بنے ہوئے ہیں۔کھلے آسمان تلے شتر بے مہار پروان چڑھتا یہ کوڑے کا جن نہ صر ف ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب ہے ، بلکہ اس پر پلنے والے شکاری پرندوں کے سبب قریب واقع ائر پورٹ سے اترتے چڑھتے جہازوں کے حادثات کی بھی بنیادی وجہ ہے۔ کئی برس پہلے شہرکے کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے لےے بنائی گئی یہ ڈمپ سائٹ اب اس بات کی خود متقاضی ہے کہ اسے بھی کہیں ٹھکانے لگا کر شہر کو ماحولیاتی آلودگی اور بدصورتی کے عفریت سے نجات دلائی جائے، یعنی ڈمپ سائٹ کو بھی ڈمپ کرنے کی ضرورت آپڑی ہے۔
جدید ترقی یافتہ دنیا میں کوڑے کو ”کوڑا“سمجھنے والی سوچ کب کی دم توڑچکی ہے۔ ایسے پلانٹ لگائے جارہے ہیں جہاں کوڑے کو مفید شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ کوڑے کے دوبارہ قابل استعمال حصے مثلاً شیشہ، لوہا، پلاسٹک اور کاغذ وغیرہ کو ری سائیکل کیا جاتا ہے ، جبکہ نامیاتی حصے، مثلاً سبزیوں، پھلوں اور گلی سڑی خوراک سے کھاد تیار کی جاتی ہے اور کوڑے کا وہ حصہ جو ری سائیکل نہیں ہو سکتا، اسے بھی مناسب طریقے سے تلف کیا جاتا ہے کہ وہ باعث ضرر نہیں رہتا۔ صنعتی ترقی میں روزافزوں اضافے کے باعث پیدا ہونے والے ویسٹ کو ماحول دوست انداز میں ٹھکانے لگانے یا تلف کرنے کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کئے جا رہے ہیں، کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر بڑی مقدار میں پیدا ہونے والے ویسٹ کو ڈیل کرنا بہت بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ شہر سے باہر آبادی سے دور کھلے میدانوں میں کوڑے کے ڈھیر نہیں لگائے جا سکتے۔ کسی بھی صورت میں اس کوڑے کرکٹ کے مضر اثرات سے نجات پانادشوار ہے۔
بات ایک دن کی ہو تو ہو، مگر یہ تو مستقل مسئلہ ہے اور اس کا مستقل اور دیر پا حل نکالنے کی اشد ضرورت ہے۔ صنعتی ترقی سے لطف اندوز ہوتے اور کوڑ ے کے مسائل کے شکار بڑے شہروں میں سینیٹری لینڈ فل کا قیام ہی خاطر خواہ اور حتمی حل ہے۔ سینیٹری لینڈ فل کے قیام سے نہ صرف شہر کے اندر اور گردوپیش میں مضر صحت اور ماحول دشمن کوڑے کرکٹ سے نجات مل جاتی ہے، بلکہ اس سے شہر کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ سینیٹری لینڈ فل میں ویسٹ کے قابل استعمال حصوں کو ری سائیکل کرنے کے علاوہ توانائی بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ بچ جانے والے ویسٹ کو ڈمپ کر دیا جاتا ہے۔ ویسٹ کو 5سے 20 سال تک لینڈ فل میں رکھا جائے تو اس کے نامیاتی مرکبات پر مشتمل حصے کے DECAY سے میتھین گیس پیدا ہوتی ہے۔ مناسب منصوبہ بندی اور انتظامات کے ذریعے پیدا ہونے والی گیس سے توانائی کی ضرورت پوری کی جاسکتی ہے۔
لاہور شہر سے 15 کلو میٹر دور لکھوڈیر کے مقام پر 140 ایکڑ اراضی پر پاکستان کی پہلی جدید لینڈ فل سائٹ کے قیام کا منصوبہ ویسٹ کے مسائل سے نجات دلانے کے لئے مخلصانہ فیصلہ ہے۔ کلین لاہور کا نعرہ بلند کرنے والی اور صاف لاہور نیا دور کے لئے پُرعزم لاہور ویسٹ منجمنٹ کمپنی صفائی کے جدید نظام کی حقیقی روح سینیٹری لینڈ فل سائٹ کے منصوبے پر بھی جانفشانی سے عمل پیرا ہے۔ لکھوڈیر سینیٹری لینڈ فل سے متصل 1.5 کلومیٹر طویل دو رویہ سڑک کی تعمیر کا 25 اکتوبر 2012 کو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبا ز شریف نے افتتاح کر کے اس تاریخی اور شاندار منصوبے کا سنگ ِ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔ فروری 2013 کے اختتام تک لینڈ فل کے پہلے مرحلے کی تعمیر مکمل کر لی جائے گی، جس پر خطیر رقم خرچ ہو گی۔ پہلے مرحلے میں لینڈ فل سائٹ سے متصل سڑک کی تعمیر کے علاوہ (Weighbridge) اور باﺅنڈری وال کی تعمیر اور گردوپیش میں شجر کاری کی جائے گی۔دوسرے مرحلے میں ابتدائی طور پر 11 ایکڑ اراضی کو لینڈ فل کی تعمیر کے لےے تیار کیا جائے گا۔ لینڈ فل کا عرصہ ءحیات (Life Time) اس میں ڈمپ کئے جانے والے ویسٹ کی مقدار پر منحصر ہے۔2000 ٹن روزانہ ویسٹ کی صورت میں لینڈ فل کا عرصہ ءحیات (Life Time) تقریباً 8سے 10برس ہو گا۔ لینڈ فل کی ویسٹ سمونے کی مجموعی صلاحیت 5400000 ٹن ہو گی۔140ایکڑ اراضی پر لینڈ فل کی تعمیر کے ساتھ گیس سٹور کرنے اور صاف کرنے کا پلانٹ، بجلی پیدا کرنے کاپلانٹ اور انتظامی دفاتر بھی بنائے جائیں گے۔
لاہور سے سالڈ ویسٹ کے شعبے میں سینیٹری لینڈ فل کا تعارف رجحان ساز ثابت ہوگا، جسے نہ صرف پنجاب کے دیگر شہروں ،بلکہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بھی شروع کرایا جانا چاہئے، کیونکہ صنعتی ترقی اور شہری سہولتوں کی اندھا دھند خواہش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کے لئے سینیٹری لینڈ فل کا قیام حتمی حل ہے۔ ورنہ ہم اپنے شہروں کے باہر کوڑے کے پہاڑ لگاتے رہیں گے اور ایک دن آئے گا کہ ہر طرف کوڑے کے شہر ہی آباد نظر آئیں گے اور ہمارا کوئی پرسان ِ حال نہ ہوگا۔ ٭