خیبرپختونخوا میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار
اپنے ایک رشتہ دار کی بچی کا آپریشن کرانے کے لئے صوبائی دارالحکومت پشاور کے بڑے سرکاری ہسپتال لیڈی ریڈنگ میں نیوروسرجری وارڈ میں داخلے کے لئے گیا وہاں سے تین مرتبہ بچی کو واپس کر دیاگیا کہ بیڈ خالی نہیں ہے چوتھی بار پشاور کے ایک بڑے افسر کی سفارش پر بچی کو نیورو سرجری وارڈ میں داخلہ مل گیا ۔ہسپتال میں دیکھا کہ دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے لوگ اپنے مریضوں کے داخلے کے لئے چکر لگا لگا کر تھک چکے ہیں ،لیکن انہیں داخلہ نہیں مل رہا ۔ایک دن نیوروسرجری کے آئی سی یو میں بیٹھا تھا کہ ایک پروفیسر آیا اور آئی سی یو کے گیٹ سے ڈاکٹروں سے ہاتھ کے اشاروں سے مریضوں کی حالت پوچھ کر واپس چلا گیا ۔پروفیسر نے دروازے سے اندر آنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی یہی پروفیسر پرائیویٹ کلینک میں پچاس پچاس مریضوں سے فیس لیکر چیک اپ کرتا ہے، لیکن سرکاری ہسپتالوں میں تنخواہیں اور مراعات لینے کے باوجود پروفیسر سپیشلسٹ ڈاکٹرمریضوں کا چیک اپ نہیں کرتے ۔پرائیویٹ کلینکس میں ڈاکٹر مریضوں سے صرف فیس وصول نہیں کرتے ،بلکہ مختلف ٹیسٹوں اور ادویات کی مد میں بھی کمیشن وصول کرتے ہیں۔ڈاکٹری پیشہ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے ۔ڈاکٹر مریضوں کی جیب خالی کر کے بڑی بڑی گاڑیوں اور بنگلوں کے مالک بن گئے ہیں ۔ان کے دِلوں میں خوفِ خدا ختم ہو چکا ہے اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ بھی نہیں ۔ڈاکٹر ہسپتالوں میں مریضوں کا معائنہ نہیں کرتے ،بلکہ اپنے پرائیویٹ کلینکس میں مریضوں کو آنے پر مجبور کرتے ہیں ۔
تحریک انصاف کو صوبہ خیبرپختونخو ا میں پختونوں نے تبدیلی کے لئے ووٹ دیا تھا ۔عمران خان الیکشن میں نئے پاکستان کی بات کرتے تھے ۔پختونوں نے انہیں مینڈیٹ دیا ۔پختون کام پہلے کرتے ہیں اور سوچتے بعدمیں ہیں ۔خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت سے عوام توقع رکھتے تھے کہ نیا خیبرپختونخوا بنے گا جس میں عام آدمی کو انصاف ملے گا۔ جس میں غریبوں کا مفت علاج ہو گا۔تھانہ کچہریوں میں لوگوں کی مشکلات ختم ہو جائیں گی ۔نوکریاں میرٹ پر ملیں گی ۔اربوں روپے کے فنڈز صوبے کے پسماندہ اضلاع پر خرچ ہوں گے، لیکن صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت کے میرٹ کا یہ حال ہے کہ اربوں روپے کے فنڈ صرف تین اضلاع نوشہرہ،صوابی اور دیر پر خرچ کئے جارہے ہیں ۔صوبائی حکومت کے سولہ مہینے پورے ہو گئے، لیکن صوبے کے تین بڑے ہسپتالوں لیڈی ریڈنگ،حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اور خیبر ٹیچنگ ہسپتال کا نظام ٹھیک نہیں کیا گیا۔ عمران خان صاحب نیا پاکستان بنانے کے دعوے کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک پختونوں کو نیاخیبرپختونخوا بنا کے نہیں دیا۔وزیراعلیٰ پرویز خٹک اخباری بیانات میں بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، لیکن ایک دن بغیر پروٹوکول سرکاری ہسپتالوں کا دورہ کریں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ ہسپتالوں میں عام لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ مریضوں کا علاج معالجہ ہوتا ہے یا نہیں۔
سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرسے لے کر اردلی تک مریضوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک روا رکھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اپنی اتحادی جماعت کو خوش کرنے کے لئے صحت کی وزارت ایک ایسے شخص کو دی ہے جو صحت کے بارے میں کوئی تجربہ نہیں رکھتا ۔ہسپتالوں کا نظام پہلے سے مزید خراب ہو گیا ہے مریض ہسپتالوں میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں انہیں صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ۔صفائی کی صورتحال بھی ناقص ہے ۔ہسپتالوں کے لئے سالانہ اربوں روپے کے فنڈز منظور کئے جاتے ہیں، لیکن مریضوں کو ڈسپرین کی گولی بھی نہیں ملتی ۔ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور سٹاف کے لئے مفت ادویات ملتی ہیں غریب مریض اپنی غربت کا رونا رو کر بھی مفت ادویات سے محروم رہتا ہے اور بازار سے مہنگی ادویات خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔صوبے کے عوام تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ خان صاحب پہلے پختونوں کو نیا خیبرپختونخوا بنا کر دیں پھر نیا پاکستان بنانے کی بات کریں ۔صوبے میں تھانہ کلچر کو تبدیل کریں ۔نوکریاں میرٹ کی بنیاد پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دی جائیں ۔90دنوں میں کرپشن کے خاتمے کا وعدہ پورا کریں۔
صوبے میں گڈ گورننس قائم کریں۔سفارشی کلچر کا خاتمہ کریں۔اعلیٰ سرکاری عہدوں پر ایماندار،دیانتدار افسران کو تعینات کریں ۔پوسٹنگ اور ٹرانسفر میں سیاسی اثر رسوخ کا خاتمہ کریں ۔صوبے سے بد امنی ختم کی جائے۔ ترقیاتی فنڈز کو پسماندہ اور ناخواندہ علاقوں پر خرچ کریں۔ صوبے میں مخلوط تعلیمی نظام کا خاتمہ کریں ۔مہنگائی کے خاتمے کے لئے اقدامات کئے جائیں اور الیکشن میں عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا کریں ۔ نوجوانوں کو روزگارکے لئے آسان شرائط پر قرضے دیں۔بیروزگاری کے خاتمے کے لئے اقدامات اٹھائیں ۔جب تک عام آدمی خود تبدیلی محسوس نہ کرے خالی نعروں سے تبدیلی نہیں آسکتی ہے اور نہ ہی تبدیلی کے نعرے سے عام آدمی کا پیٹ بھرتا ہے ۔