ہم زندہ قوم ہیں
واہگہ بارڈر پر ہر روز شام کے وقت پاکستان اور بھارت فلیگ اتارنے کی ایک شاندار تقریب برپا کرتے ہیں، جس میں پاکستانی رینجرزکے جوان اور بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کے سورما حصہ لیتے ہیں۔یہ تقریب روزانہ غروب آفتاب سے چند منٹ پہلے مکمل ہو جاتی ہے۔ بارڈر کے دونوں اطراف شہریوں کی ایک بڑی تعداد اس تقریب کو دیکھنے کے لئے تماشائیوں کے لئے تعمیر کئے گئے سٹینڈز پر براجمان ہو جاتی ہے۔تقریب کے دوران نہ صرف فوجی جوانوں بلکہ عوام کا جوش و خروش بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔قومی ترانے گائے اور نعرے لگائے جاتے ہیں اور دونوں اطراف کے مابین نعروں اور جوش و خروش کا باقاعدہ مقابلہ ہوتا ہے۔یہ سلسلہ گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے اور اس میں کبھی ایک دن کا ناغہ بھی نہیں ہوا۔ روزانہ سینکڑوں لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہاں جاتے ہیں ، ویک اینڈ یا چھٹیوں کی شام یہ تعداد ہزاروں میں جا پہنچتی ہے۔اہل لاہور کے پاس اپنے لہو کو گرم رکھنے کے لئے یہ سب سے اچھا بہانہ تصور کیا جاتا ہے۔
اتوار 8محرم الحرام بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔ہر اتوار کی شام کی طرح بہت دور دور سے ہزاروں لوگ اپنی فیملیوں کے ساتھ فلیگ اتارنے کی تقریب میں پہنچے اور معمول کے مطابق اس میں پورے جوش و خروش سے حصہ لیا۔ تقریب اپنے مقررہ وقت پر ختم ہوئی تو غروب آفتاب بس ہوا ہی چاہتا تھا۔لوگوں کا جم غفیر تھا جو اپنے اپنے گھروں کو واپسی کے لئے پارکنگ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ واہگہ بارڈر چونکہ شہر سے کچھ فاصلے پر ہے اس لئے ہر کوئی جلدی میں تھا کہ زیادہ اندھیرا شروع ہونے سے پہلے وہ شہر کی حدود میں پہنچ جائے۔عین اسی وقت دل دہلا دینے والا ایک انتہائی زور دار دھماکہ ہوا اور اس کے فوراً بعد لوگوں کی چیخ و پکار شروع ہو گئی۔چاروں طرف لاشیں اور زخمیوں کے اعضا بکھرے پڑے تھے۔واہگہ بارڈر قیامت صغریٰ کا منظر پیش کر رہا تھا، کچھ نہیں معلوم ہو رہا تھا کہ کس گھرانے کا کون سا فرد شہید ہو گیا ہے، کون انتہائی زخمی حالت میں ہے یا کون خوش قسمت ہے جو بچ گیا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں لوگ لقمہ اجل بن گئے، ان میں بچے، بوڑھے، جوان یا مرد و زن کی کوئی تمیز نہ تھی،جس جس کی قضاء اس دن لکھی تھی، اس نے اس پر لبیک کہا اور اپنے رب کے حضور پیش ہو گیا۔
واہگہ بم دھماکے میں شہید ہونے والوں کا تعلق ملک کے مختلف علاقوں اور شہروں سے تھا۔ان میں لاہور سے تعلق رکھنے والے لوگ تو تھے ہی، لنڈی کوتل ، پشاور، ایبٹ آباد، سمندری، فیصل آباد، سیالکوٹ، ڈیرہ غازی خان، پشین اور کراچی کے افراد اور خاندان بھی شامل تھے۔ یہ ایک ایسا قومی سانحہ تھا ،جس میں چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جس وجہ سے اسے قومی دھماکہ کہنا غلط نہ ہوگا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ دہشت گردی کی پہلی مثال ہے، جس میں چاروں صوبوں کے لوگ شہید ہوئے، گویا قومی سطح پر دہشت گردی کا اس سے بڑا سانحہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
پاکستانی قوم دنیا کی ایک منفرد ترین قوم ہے، جہاں بہت سے معاملات میں اس قوم نے تساہل سے کام لیا ہے، وہیں قومی غیرت و حمیت اور جوش جذبات میں اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور ثابت کیا ہے۔ہم سب کو 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے وہ مناظر یاد ہیں، جب بھارتی فضائی حملوں کے وقت خندقوں میں پناہ لینے کے بجائے قوم چھت پر چڑھ کر بھارتی جہازوں کو مکے دکھایا اور نعرے لگایا کرتی تھی۔ سانحہ واہگہ بارڈر کے اگلے ہی دن ہزاروں کی تعداد میں لوگ واہگہ بارڈر پہنچ گئے اور تین روزہ سوگ کی بجائے تقریب اسی جوش و خروش اور ہزاروں لوگوں کی شمولیت کے ساتھ منائی گئی۔ عوام نے اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے اتنے فلک شگاف نعرے لگائے کہ ان کی آواز خاموش بھارتی سائیڈ پر میلوں تک سنی گئی۔اسے لوگوں کے جذبہ ایمانی اور جذبہ پاکستانیت کا نام دینا غلط نہ ہوگا۔ ہم بلاشبہ ایک زندہ قوم ہیں اور جو لوگ پاکستان کو میلی نظروں سے دیکھتے ہیں، ایک بار پھر اس بات پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہوں گے کہ پاکستانی قوم کا جذبہ اور ہمت ناقابل شکست ہیں۔
سانحہ واہگہ بارڈر کے بعد لوگوں کا جوش و جذبہ اور ہمت اپنی جگہ ، لیکن اس واقعہ نے بہت سے سنجیدہ سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ خاص طور سیکیورٹی کے حوالے سے لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس حساس ترین مقام کی سیکیورٹی کس کی ذمہ داری تھی، پولیس یا رینجرز یا پھر دونوں کی؟میرے خیال میں اس کا تعین کرنا ضروری ہے، تاکہ آئندہ فول پروف انتظامات کرکے ان کاسدباب کیا جا سکے۔ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ پہلے سے یہ اطلاعات موجود تھیں کہ واہگہ بارڈر پر دہشت گردی کی کسی بڑی کارروائی کا خطرہ موجود ہے، بلکہ پرنٹ میڈیا کا ایک حصہ بڑی لیڈ کے ساتھ یہ خبر کچھ دن پہلے چھاپ بھی چکا تھا۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی واضح اطلاعات کے بعد بھی اسے رونما ہونے سے کیوں نہیں روکا جا سکا؟ یہ حکومت اور سیکیورٹی اداروں دونوں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق دہشت گردی کے منصوبہ بازوں نے اردگرد واقع سرحدی دیہات یا بھارت اور افغانستان کے مابین ہونے والی ٹرانزٹ ٹریڈ میں سے کسی ایک یا دونوں کا استعمال کیا۔ٹریڈ کے پورے نظام کو فول پروف بنانا انتہائی ضروری ہے۔سانحہ واہگہ بارڈر کے بعد اب حکومت پاکستان پر یہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ بھارت اور افغانستان سے دہشت گردی کے معاملہ پر سنجیدہ مذاکرات کرے اور اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی اور اسلامی فورسز پر یہ مسئلہ پوری شدت کے ساتھ اٹھائے۔ اس موقع پر وزیراعظم نوازشریف کو پاکستانی عوام سے نشری خطاب بھی کرنا چاہیے، تاکہ قوم کا مورال مزید بلند ہو۔
پاکستان کے بدخواہوں کو یہ حقائق کبھی فراموش نہیں کرنے چاہئیں کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، جس کے پاس بھارت سے دوگنی تعداد میں اور بدرجہا بہتر ٹیکنالوجی کے حامل ایٹم بم اور اس سے بہتر ڈلیوری کا نظام ہے۔ پاکستانی فوج کاشمار پیشہ ورانہ طور پردنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے اور پاکستان کی افرادی قوت بھی دنیا کے تمام اہم ممالک میں کلیدی ترین پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے۔پاکستانی عوام کے جذبہ ایمانی کی طاقت ہزاروں ایٹم بموں سے بھی کہیں زیادہ ہے جو مصیبت کی گھڑی میں قومی اتحاد و یگانگت میں تبدیل بھی ہو جاتی ہے۔ آنے والا مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ یہ قوم اتنی حیران کن تھی کہ اس نے صبح جنازوں کی تدفین کی اور اسی شام دشمن کو یہ بتانے کے لئے اسی مقتل میں پہنچ گئی کہ وہ چاہے کچھ کر لے، پاکستانی قوم ناقابل شکست ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ہم زندہ قوم ہیں، ہم پائندہ قوم ہیں۔