’’پکی خبر ہے‘‘
گزشتہ اکتوبر میں موسم خاصا گرم تھا، البتہ نومبر میں کہیں موسم نے رنگ بدلا ہے، دن تو اب بھی گرم ہیں، مگر صبح کا منظر بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ بہت شاعرانہ، بلکہ عاشقانہ قسم کا :سو واک کرنے کا بہت مزہ آتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے محلے کی معروف شخصیت ’’اماں جی‘‘ آج کل علیل ہیں۔ سو صبح واک پر جاتے ہوئے آج کل ان سے ٹاکرا نہیں ہوتا، البتہ دن کے وقت وہ اپنے مکان کے سامنے ہی ایک چھوٹی سی ’’تھڑی‘‘ پر اپنی چھڑی اور تسبیح سمیت موجود ہوتی ہیں۔ ہم بس دور سے سلام کر کے نکل جاتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس محلے بھر کی خواتین اپنے اپنے ’’دکھڑے‘‘ سنانے کے لئے موجود ہوتی ہیں۔ ہماری بہت خواہش ہوتی ہے کہ اماں جی کے ساتھ تھوڑی بہت گپ شپ لگائی جائے، مگر ہمیں اماں جی کے مزاج کا علم ہے، وہ بالکل پسند نہیں کرتیں کہ جب ان کے پاس محلے کی عورتیں بیٹھی ہوں تو کوئی ان کے ساتھ بات کرے، البتہ سلام دعا وہ کر لیتی ہیں، مگر سلام لینے والے پر لازم ہے کہ وہ چلتے چلتے ہی سلام دعا لے۔ اماں جی کے پاس کھڑے ہو کر سلام دعا لینے کا مطلب اماں جی بہت خوب سمجھتی ہیں۔
محلے کے ہی ایک نوجوان ’’شیدا‘‘ کے کسی محلے دارنی کے ساتھ عشق و محبت کے معاملات چل رہے تھے۔ سو دونوں عاشق معشوق نے اماں جی کی ’’تھڑی‘‘ کو عشق کا بیلہ بنا دیا، وہ لڑکی بہانے سے اماں جی کے پاس آ کر بیٹھ جاتی اور عاشق صاحب بہانے، بہانے اماں جی سے سلام دعا کرتے ہوئے اپنی ’’معشوقہ ‘‘سے بس آنکھوں ہی آنکھوں میں حال دل کا تبادلہ کر لیتے تھے، ادھر اماں جی بھی تجربہ کار خاتون ہیں، انہوں نے ’’تاڑ‘‘ لیا کہ یہ تو میری ’’آڑ‘‘ میں لڑکی کو پھنسانے کے چکر میں ہے۔ بس پھر کیا تھا، ایک دن لڑکے نے آتے جاتے دو تین بار اماں جی سے سلام دعا لی، تو چوتھی بار اماں جی نے لڑکے کو، یعنی ’’شیدا‘‘ کو پکڑ لیا اور کہا: وے نامراد، کیا پورے محلے میں ایک میں ہی تجھے مسلمان نظر آتی ہوں، جو دن میں درجنوں بار سلام اماں، سلام اماں کا وظیفہ پڑھتا رہتا ہے۔ خبردار جو آئندہ ایک سے زیادہ بار سلام کیا، تو جوتیوں سے ایسی مرمت کروں گی کہ آئندہ کسی کا ’’سلام‘‘ لینا بھول جائے گا، بس پھر کیا تھا۔ اس کے بعد سے تو ہر کوئی تقریباً پندرہ قدموں کے فاصلے سے اماں جی کا سلام لیتا ہے، بلکہ بعض لوگ تو سلام کرتے ہوئے آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ کہیں اماں جی کو آنکھ میں کچھ نظر نہ آ جائے۔
بات موسم کی ہو رہی تھی۔ واک کرنے کا واقعی بہت مزہ آتا ہے۔ ہم جب پارک میں واک کرتے ہیں، وہاں ہمارے علاوہ تقریباً سو ڈیڑھ سو کے قریب خواتین و حضرات موجود ہوتے ہیں۔ ان میں مختلف مزاج اور مختلف انداز کے واک کرنے والے خواتین و حضرات شامل ہیں۔ مثال کے طور پر واپڈا کے ایک ریٹائر ملازم جو تقریباً تین من کے ہوں گے، ان کا انداز واک بہت زبردست ہے، وہ واک کرتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ ایسے بنا لیتے ہیں، جیسے واک نہ کر رہے ہوں، کوئی چیز پکڑنے کی کوشش کر رہے ہوں، ان کے اس انداز کی وجہ سے ٹریک پر موجود خواتین، خاصی پریشان ہو جاتی ہیں کہ یہ صاحب کہیں انہیں ’’پکڑ‘‘ ہی نہ لیں، مگر اب آہستہ آہستہ سب کو سمجھ آ گئی ہے کہ یہ کسی کو پکڑنے والے بالکل نہیں ہیں۔ بس ان کا انداز واک یہی ہے۔
ایک اور صاحب جو پراپرٹی ڈیلر ہیں، ان کی واک سب سے زیادہ مشہور ہے۔ وہ تقریباً ایک گھنٹے تک ٹریک پر پوری طاقت کے ساتھ دوڑتے ہیں، اس کے بعد ساتھ ہی کرکٹ گراؤنڈ میں نوجوان کھلاڑیوں کی طرح ’’باؤلنگ‘‘ کرواتے ہیں، پسینے سے شرابور ہونے کے بعد ایک بار پھر واپس آتے ہیں اور ’’یوگا‘‘ شروع کر دیتے ہیں، مگر وہ پریشان ہیں کہ اتنی سخت ورزش کے باوجود ان کا پیٹ بڑھتا جا رہا ہے گزشتہ روز انہوں نے اپنا یہی ’’دکھڑا‘‘ ہمیں سنایا تو ہم نے پوچھ لیا، کہ بھائی اپنی خوراک کے بارے میں بھی تو کچھ بتاؤ، اب جو انہوں نے اپنی خوراک کے بارے میں بتایا تو وہ کچھ یوں تھا کہ صبح سے شام تک تو وہ جو کھاتے ہیں،وہی ناقابل فہم تھا، مگر انہوں نے بتایا کہ وہ رات کو 2بجے کے قریب ’’سری پائے‘‘ ضرور کھاتے ہیں اور وہ بھی کم از کم تین ڈونگے، اوپر سے دو گلاس لسی کے، پھر سو جاتے ہیں۔
ہم نے کہا ماشا اللہ اِسی وجہ سے تو آپ ’’پیٹ‘‘ سے ہیں، وہ مسکرائے اور کہا کچھ مشورہ دیں ناں، مَیں نے کہا بھی اب مَیں کیا مشورہ دوں۔ ایک اور صاحب بہت دلچسپ ہیں۔ ان کے ہاتھ میں 1965ء کے زمانے کا ایک ریڈیو ہوتا ہے، وہ اس پر اونچی آواز میں گانے چلاتے ہوئے پورے ٹریک پر دوڑے چلے آتے ہیں، ایک مولانا صاحب جن کے ہاتھ میں ’’تسبیح‘‘ ہوتی ہے، وہ خاصے غصے میں ان کی طرف دیکھتے ہیں اور نعوذ باللہ بڑھتے ہوئے دیگر لوگوں کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر کسی نے شیطان نہیں دیکھا تو اسے دیکھ لو، مگر تین کی ایک اور ’’ٹولی‘‘ بھی ہے۔ یہ موبائل فون پر ریڈیو سنتے ہیں، مگر تینوں میں سے کسی ایک کو بھی موبائل پر ریڈیو چلانے کا طریقہ نہیں آتا، اس کے لئے معروف صحافی اور شاعر شہزاد ہاشمی کی خدمات انہیں حاصل ہیں۔ ان تین کی ’’ٹولی‘‘ کو پرانے گانے سننے کا بہت شوق ہے، خاص طور پر لتا منگیشکر، محمد رفیع، نورجہاں، مہدی حسن اور مکیش کے گانوں کے تو یہ عاشق ہیں، موسیقی سے بھی انہیں جانکاری ہے۔ پاکستان کے علاوہ انڈیا کے میوزک ڈائریکٹروں تک کے نام اور کام سے واقف ہیں۔
پاکستان کے میوزک ڈائریکٹروں خواجہ خورشید انور، رشید عطرے، نثار بزمی اور ہندوستان کے لکشمی کانت پیارے لال، آر ڈی برمن اور نوشاد صاحب کے تو یہ عاشق ہیں، سو ان کی گفتگو نہ صرف یہ کہ دلچسپ ہوتی ہے، بلکہ معلوماتی بھی ہوتی ہے۔ پارک میں سیاسی ذہن بھی موجود ہیں۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ چودھری برادران کی سیاست کے بہت خلاف ہیں، عمران خان ڈاکٹر طاہر القادری کے بہت مداح ہیں، ان کے ساتھ ائر فورس کے ایک ریٹائر ملازم بھی ہوتے ہیں، تیسرے صاحب ’’بٹ‘‘ ہیں اور محمد نواز شریف کے دیوانے ہیں۔ بہرحال پہلے دونوں صاحبان سے جب کوئی بات نہ بن سکے ، تو پھر وہ انہیں ’’گلو بٹ‘‘ گلو بٹ کہہ کر چھیڑنا شروع کر دیتے ہیں، مگر جب سے ڈاکٹر طاہر القادری کینیڈا گئے ہیں، گجرات والے صاحب آج کل خاصے شرمندہ شرمندہ نظر آتے ہیں اور ائر فورس والے ریٹائر ملازم ’’امپائر‘‘ کی انگلی اٹھنے والے دنوں میں خاصے اُچھل کے بولتے تھے، مگر اب وہ یہی کہتے رہتے ہیں کہ دیکھئے بھائی، فوج تو چاہتی ہے کہ ملک میں جمہوریت ہو، مگر سیاست دان ہی اگر ملک نہ چلا سکیں تو پھر فوج کیا کرے۔
گزشتہ صبح ایک نئے صاحب تشریف لائے ہیں، پورے پارک کے لوگوں کی نظر ان پر ہے، کیونکہ وہ خاصے مشکوک قسم کے نظر آتے ہیں، ٹریک پر چلتے ہوئے وہ تقریباً تقریباً ہر ایک کو اپنا ’’مونڈھا‘‘ مار کر گرانے کی کوشش کر چکے ہیں، سو ہر بندہ پریشان ہے، یہ کون ہیں جو دیکھ کر نہیں چلتے؟ مگر ان میں سب سے دلچسپ شخصیت اور بھی ہے۔ یہ صاحب ہوٹل چلاتے ہیں، اچھے خاصے شریف قسم کے آدمی ہیں، ٹریک پر صرف واک کرتے ہیں، نہ کسی کے ساتھ سلام نہ دعا، البتہ واک کے اختتام پر ہمیں اپنی انگلی کے اشارے سے اپنے پاس بلاتے ہیں، پہلے دن جب انہوں نے ہمیں انگلی کے اشارے سے بلایا، تو غصہ تو بہت آیا، مگر جب انہوں نے بات چیت کی تو بہت اچھے آدمی لگے۔ دراصل ہماری شکل ان کے کسی دوست کے ساتھ ملتی ہے۔ انہوں نے وہی دوست سمجھ کر ہمیں بلایا اور پھر اپنی غلطی پر معذرت بھی کی، مگر پھر ان کے ساتھ دوستی کا آغاز بھی ہو گیا، وہ روزانہ بڑی راز داری کے ساتھ واک کے اختتام پر ہم سے پوچھتے تھے۔ اچھا یہ بتائیں ، اب اس ’’دھرنے‘‘ کا کیا بنے گا۔ ہم روزانہ تسلی دیتے کہ کچھ نہیں ہو گا، وہ روزانہ پوچھتے کہ کیا بنے گا۔ گزشتہ روز انہوں نے بڑی راز داری کے ساتھ بتایا کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور حکومت کے درمیان سودا ہو گیا ہے۔ حکومت نے ڈاکٹر طاہر القادری کو چار ارب روپے دیئے ہیں، مَیں نے کہا آپ کو کیسے پتہ ہے۔ انہوں نے کہا یہ بالکل ’’پکی خبر‘‘ ہے۔ اب انہیں عمران خان کے دھرنے اور 30 نومبر کے بارے میں فکر لگی ہوئی ہے۔ ایک فکر انہیں سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کے بارے میں بھی ہے کہ ان کے جانے سے مسلم لیگ(ن) کمزور تو نہیں ہو جائے گی؟
مَیں نے انہیں تسلی دی کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اگر ان کے ’’ہونے‘‘ سے کوئی فرق نہیں پڑا، تو جانے سے کیا فرق پڑے گا، وہ مسکرائے اور پارک کے ایک کونے میں لے جاتے ہوئے بتایا، آپ کو پتہ ہے سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ نے شادی کر لی ہے۔ مَیں نے کہا، خدا کا خوف کرو، بزرگ آدمی ہیں، قبر میں ان کے پاؤں ہیں، اللہ اللہ کرنے کے دن ہیں، نوجوان اُن کے بیٹے بیٹیاں ہیں، وہ اگر اس عمر میں شادی کریں گے، تو خاندان والے کیا کہیں گے۔ انہوں نے راز داری کے انداز میں بتایا، کہ ان کی بیگم نے ان کے تمام بچوں کو ایک ایک ’’قیمتی کار‘‘ ’’چپ کرائی‘‘ میں دی ہے۔ مَیں نے کہا: ’’مُنہ دکھلائی‘‘ تو سُنا تھا، یہ ’’چپ کرائی‘‘ کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا: ’’مُنہ دکھلائی‘‘ دلہن کا چہرہ دیکھنے کے لئے دینی پڑتی ہے، لیکن اگر شادی راز میں رکھنی ہو تو پھر دولہا کی عزت کی خاطر دلہن کو ’’چپ کرائی‘‘ دینی پڑتی ہے۔ مَیں نے کہا دیکھ لو یہ بہت بڑی خبر ہے، غلط ثابت ہو گئی، تو بہت بدنامی ہو گی۔ ان صاحب نے ایک آنکھ بند کرتے ہوئے کہا:فکر نہ کرو، ’’پکی خبر‘‘ ہے۔ ہم مسکرائے، قریب سے ایک گلاب کا پھول توڑا اور واپس گھر آ گئے۔