زبان اور جما لیا ت
چند سال قبل ایک اخبا ری کالم کے مطالعے نے مجھے ذہنی الجھن میں مبتلا کر دیا۔ اس میں کالم نگار نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہندی فلموں اور ہندی چینلوں کے باعث ان کا چھوٹا بیٹا کئی ایسی چیزوں کے لئے بھی ہندی زبان کے الفاظ استعمال کرتا ہے ، جن چیزوں کے لئے اردو زبان میں بھی الفاظ آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔اس کالم کے مطالعے سے مَیں اس لئے ذہنی الجھن کا شکار ہوا کہ کسی بیٹے کی زبان کی تربیت کا دارومدار کافی حد تک باپ پر بھی ہوتا ہے۔ مَیں نے سوچا کہ اگر ان کالم نگار صاحب نے بطور ایک با پ کے اپنے بیٹے کو بھی اردو یا پاکستان کی کسی اور زبان کے ذریعے ان الفاظ سے رو شناس کروا دیا ہوتا تو ان صاحب کا بیٹا یقیناًاپنے اظہار کے لئے ہندی الفاظ کا سہارا نہ لیتا، مگر اب جب مَیں اپنے پانچ سالہ بیٹے سیحان کے مُنہ سے ہندی کے الفاظ سنتا ہوں تو مجھے یہ کالم نگار صاحب ضرور یاد آتے ہیں اور ان کا شکوہ بجا دکھائی دیتا ہے، جب مَیں اپنے بیٹے کے مُنہ سے چھتری کی بجائے چھاتا، خاندان کی بجائے پریوار اور کشتی کی بجائے ناؤ کے الفاظ سنتا ہوں تو حیرت سے پوچھتا ہوں کہ وہ یہ الفاظ کہاں سے سیکھ رہا ہے تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ کیبل پر ہندی کے کئی چینل ایسے ہیں جو انگریزی ، چینی اور جاپانی زبانوں کے کارٹون پروگرامز کو بچوں کے لئے ہندی زبان میں ڈب کرکے پیش کرتے ہیں۔ اس لئے ہندی زبان میں ڈب شدہ پروگراموں کے ذریعے ہندی کے کئی الفاظ پاکستان کے بچوں کی باقا عدہ بول چال کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔
زبان کسی قوم کی اجتما عی دانش کا اظہار ہوتی ہے اور یقیناًاس دنیا کی ہر زبان انسانوں کی ہی ہے اور کسی زبان کی اس بنا پر مخالفت بھی نہیں کی جا سکتی کہ یہ زبان کسی ایک خاص قوم کی ہے، مگر جب ہماری اپنی زبان میں کسی لفظ یا چیز کے لئے واضح الفاظ موجود ہوں تو ایسے میں دوسری زبانوں کا سہارا کیوں لیا جائے؟ خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں جہاں اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو جیسی بڑی اور صدیوں پرانی زبانیں موجود ہیں، جو ریاستی سرپرستی نہ ہو نے کے باوجود علم و ادب میں ترقی بھی کر رہی ہیں۔ اپنے اندر صدیوں کی دانش سمیٹے ایسی زبانوں کی موجودگی کے باوجود اظہار کے لئے غیر ملکی زبا نوں کے سہارے لینا یقیناًدرست اور مثبت رویہ نہیں۔ زبان کے اکثر ماہر ین اس امر پر مکمل طور پر متفق ہیں کہ انسانی ذہن جس زبان میں سوچتا ہے، اگر اسی زبان میں اس کو تعلیم میسر آئے ایسا ذہن زیادہ تخلیقی ثابت ہو تا ہے، جبکہ کسی زبان کی ترقی اور فروغ کے لئے اس زبان کو معاشی ترقی کے ساتھ منسلک کر نا لازمی ہوتا ہے۔ جیسے ہمارے ہاں جب یہ مثالیں دی جاتی ہیں کہ روس، چین، جاپان، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک نے انگریزی کی بجائے اپنی زبانوں کے دم پر ہی ترقی کی تو اس کا مطلب یہ بھی ہو تا ہے کہ ان ممالک نے اپنی زبانوں کو معاشی عامل کے ساتھ جوڑے رکھا ۔ ان ممالک میں اعلیٰ ریاستی اداروں میں نوکری کے حصول کے لئے اپنی ملکی زبانوں پر ہی انحصار کیا جا تا ہے، بلکہ انگریزی زبان جاننے کے باوجود ان ممالک کے سربراہان علامتی طور پر غیر ملکی سربرابان سے ملاقات کے دوران یا عالمی کانفرنسوں میں اپنی زبان میں ہی بات چیت کر تے ہیں۔ معاشی عامل کے بعد کسی زبان کی ترقی میں دوسرا بڑا عامل جمالیا ت کا ہے۔
جمالیات کا تعلق انسانوں سے تہذیب کے رشتے سے بھی پرانا ہے، کیونکہ لاکھوں سال پہلے جب انسان جنگلوں میں زندگی بسر کرتا تھا ، تب بھی وہ تفر یح طبع کے لئے اشاروں کنایوں کی صورت میں دوسرے انسانوں کو تفر یح مہیا کرتا تھا اور باقاعدہ تہذیب کے دائرے میں آنے کے بعد تو انسان کے جمالیاتی ذوق کی تسکین کے لئے باقاعدہ طور پر شاعری، موسیقی، لوک گیت اور داستان گوئی کی اصناف وجود میں آئیں۔ دنیا کی کوئی ایک بھی قدیم یا جدید تہذیب ایسی نہیں رہی ، جہاں جمالیات کی تسکین کے باقاعدہ ذرائع موجود نہ رہے ہوں۔ آج بھی دنیا بھر میں ادب کے قارئین سوفکلیز، یوری پیڈس اور ایسکلس جیسے ہزاروں سال پرانے قدیم یونانی ڈرامہ نگاروں کے ڈراموں سے اپنے ذوق کی تسکین کر تے ہیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جمالیات کی تسکین انسان کی بنیادی جبلت میں شا مل ہے۔ انسان اس کی تسکین کسی نہ کسی صورت میں کرتا ہے اور مستقبل میں بھی کرتا ہی رہے گا۔
تیز رفتا ری کے اس دور میں جب انسان دن رات دولت پیدا کرنے کی مشین بنتا جا رہا ہے، ایسے میں بھی انسان نے اپنے جمالیاتی ذوق کی تسکین کے لئے جو جو ذرائع اختیار کئے ہو ئے ہیں، ان میں فلم اور ڈراموں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ پاکستان میں اس وقت فلم سازی یا تھیٹر کی مخدوش حالت سب کے سامنے ہے۔1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد ریاستی اعتبار سے ہندی فلموں پر سنیما میں پابندی لگائی گئی، مگر جب وی سی آر آیا تو شروع شروع میں ہندی فلموں پر پابندی کے باوجود پاکستان میں لاکھوں گھرانے ایسے تھے ،جہاں نہ صرف وی سی آر موجود تھا، بلکہ لوگ با قاعدگی سے ہندی فلمیں بھی ذوق و شوق سے دیکھتے۔ اس کے بعد کیبل اور اب پاکستانی سینماؤں میں دوبارہ ہندی فلموں کو دکھایا جا رہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ریاستی پابندی کے باوجود پاکستانیوں کی اکثریت اپنی فلموں کی بجائے ہندی فلموں کو ہی پسند کرتی رہی؟اگر بالکل غیر جا نبدار ہو کر اس امر کا جائزہ لیا جا ئے تو یہ کہنے میں کو ئی عار نہیں ہو نا چا ہیے کہ کردار نگا ری، ہدایت کا ری، کہا نی اور موضوع کے اعتبا ر سے بھارتی فلمیں ،ہماری فلموں کے مقا بلے میں بہت بہتر رہی ہیں۔
اگر صرف مو ضوع کی ہی با ت کی جا ئے تو ابھی حال ہی میں کشمیر جیسے انتہا ئی حساس موضوع پر بھا رتی ہدایت کار وشال بھردواج کی فلم ’’ حیدر‘‘ کا مقا بلہ کیا، ہم گزشتہ تیس سال میں کشمیر کے ہی موضوع پر بننے والی کسی پاکستانی فلم سے کر سکتے ہیں؟ پاکستانی عوام کی اکثریت بھارت سے محبت یا کسی دلی لگاؤ کے با عث بھا رتی فلمیں پسند نہیں کرتی، بلکہ پاکستانی فلم بین صرف اپنی جمالیاتی تسکین کے لئے بھارتی فلموں کو دیکھتے ہیں، اگر انہیں پاکستانی ہدایت کاروں کی بنائی ہوئی فلموں میں بہتر کہانی ، کردار نگاری اور موضوع دستیاب ہو جائیں تو پھر پاکستانی فلم بین اپنے ملک کی فلمیں چھوڑ کر بھارتی فلموں کو کیوں دیکھیں گے؟ اسی طرح تھیٹر اور ٹی وی میں کمرشل ازم کے باعث انتہائی بازاری اور سطحی نوعیت کی رومانویت کو ڈراموں کا نام دے کر پیش کرنے سے ڈرامے کی کلاسیکل حیثیت ہی مجروح ہو رہی ہے۔ اسی طرح اگر ہم اپنے بچوں کی جمالیات کی تسکین کے لئے اپنی تہذیب کے نمونوں کو بہتر انداز میں ان کے سامنے پیش نہیں کریں گے تو پھر یہ بچے بھی اپنی جما لیا تی تسکین کی آبیا ری کے لئے پرائی تہذیبوں اور زبانوں میں بنے ڈورے مون، سپر مین اور مکی ماؤس جیسے کرداروں سے متا ثر ہو کر ان ہی کی بولیوں میں ہم سے با ت کریں گے۔