ملک میں صحت کے نظام پر اب آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
لاہور (نامہ نگار خصوصی ) سپریم کورٹ نے ملک میں صحت کا نظام بہتر بنانے کا بیڑا اٹھاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ عدالت ملک میں صحت کے نظام پر اب آنکھیں بند نہیں کرے گی ، اس ازخودنوٹس کیس کوپنجاب تک محدود نہیں رکھیں گے بلکہ مفاد عامہ میں تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز کو بلائیں گے اور جب تک ملک میں صحت کا نظام بہتر نہیں ہوتا چین سے نہیں بیٹھیں گے، آج اگر صحت کا نظام ٹھیک نہ ہوا تو کل قوم کے بچے ہم سب کو قصور وار سمجھیں گے۔پالیسی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے مگر پالیسی میں خامیوں پر خاموش نہیں بیٹھ سکتے، عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ نے جعلی ادویات سے دل کے مریضوں کی ہلاکتوں کے خلاف ازخودنوٹس کیس میں آئندہ سماعت پر مشیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق کو پیش ہونے کا حکم دے دیا۔گزشتہ روز سپریم کورٹ لاہوررجسٹری میں مسٹر جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے پنجاب کارڈیالوجی میں جعلی ادویات سے دل کے مریضوں کی ہلاکتوں کے خلاف ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب حنیف کھٹانہ اور سیکرٹری صحت جواد رفیق ملک سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، عدالت نے استفسار کیا کہ دو برس قبل بننے والے جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے جس پر سیکرٹری صحت تسلی بخش جواب نہ دے سکے، جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جمہوری دور میں شہریوں کو جینے کا حق اور صحت کی بہترین سہولیات دینا ریاست کی ذمہ داری ہے مگر ایسا نہیں ہو رہا ہے ، یہ سچ ہے کہ پاکستان عملی طور پر ابھی فلاحی ریاست نہیں بن سکا ، یہ ازخود نوٹس عوامی مفاد کا مقدمہ ہے، بنچ نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جعلی ادویات کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن نے سفارشات دیں مگر اس پر عمل نہیں ہوا، سپریم کورٹ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیگی، جوڈیشل کمیشن کی رپورٹس فضول مشق نہیں ہوتی، سپریم کورٹ اس مقدمہ کو صرف پنجاب تک محدود نہیں رکھے گی بلکہ اسے پورے ملک کیلئے مثال بنائیں گے، محکمہ صحت پنجاب نے اس ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی ڈاکٹروں کی کمیٹی کی سفارشات پر کوئی غور کیا ہے، جسٹس ثاقب نثار نے مزید قرار دیا کہ یہ افسوسناک ہے کہ ایک مریض دوائی خریدتا ہے مگر اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ جعلی ہے،ملک میں جعلی ادویات سے شیرخوار بچے مر رہے ہیں،فاضل بنچ نے سیکرٹری صحت سے استفسار کیا کہ پنجاب کا وزیر صحت کون ہے جس پر سیکرٹری صحت نے کہا کہ وزیر صحت نہیں ہے بلکہ مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق ہی معاملات کو دیکھ رہے ہیں، اس پر فاضل بنچ نے کہا کہ یہ حیران کن ہے کہ گیارہ کروڑ عوام کے صوبے کیلئے کوئی وزیر صحت ہی نہیں ہے، آئندہ سماعت پر مشیر صحت خواجہ سلمان بھی عدالت میں پیش ہوں، بنچ نے کہا کہ ڈاکٹروں کے مسائل بھی حل نہیں کئے جا رہے، ایک ڈاکٹر کی تنخواہ سپریم کورٹ کے ڈرائیور سے بھی کم ہے، ایسی صورتحال میں ڈاکٹر بیچارہ کیا کرے،جسٹس ثاقب نثار نے مزید قرار دیا کہ ہسپتالوں میں صرف بیڈ ظاہر کر دینے سے ذمہ داری پوری نہیں ہوتی ، وہاں قابل ڈاکٹر اور عملہ تعینات ہونا بھی لازمی ہے، ہیپاٹائٹس کا جن منہ کھولے کھڑا ہے، اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کئے تو بہت دیر ہو جائیگی، فاضل جج نے کہا کہ شیخ زید ہسپتال کی حالت چار برس قبل ٹھیک تھی مگر جب سے یہ ہسپتال پنجاب حکومت کے زیر انتظام آیا ہے اسکی صورتحال ابتر ہو گئی ہے،بنچ کو بتایا گیا کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے باوجود ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے سربراہ کا تقرر نہیں کیا جا سکا، انصاف فراہم کرنا صرف عدالتوں کا کام نہیں محکمہ صحت کواب ایماندار اور دباو میں نہ آنے والی ٹیم تیار کرنا پڑے گی۔عدالت نے سیکرٹری صحت سے استفسار کیا کہ میڈیکل کالجز سے تعلیم حاصل کرنے والی کتنی بچیاں اس شعبے کو اختیار کرتی ہیں اور کتنی شعبہ چھوڑ جاتی ہیں اعداد و شمار سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔قوم کا 40لاکھ روپے ایک ڈاکٹر کو بنانے پر خرچ آتا ہے مگر نااہلی سے پیسے برباد اور قوم کا وقت ضائع کیا جاتاہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آئندہ سماعت کے بعد اس ازخونوٹس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر چلایا جائیگا اور اگر ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ اس مقدمے کی سماعت کیلئے خصوصی بنچ بھی تشکیل دے گی۔عدالت نے سیکرٹری صحت کو کہا کہ آئندہ سماعت پر بتایا جائے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر کیا اقدامات کئے گئے ہیں اور ادویات کی خریداری کے نظام پر کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔ عدالت نے سیکرٹری صحت پنجاب کے تبادلے کو بھی عدالتی فیصلے سے مشروط کر دیا ہے۔