کابل:کہ ایں زمیں ز طلسمِ فرنگ آزاد است
اقبالؒ جب تین برس یورپ میں گزارنے کے بعد 1908ء میں وطن واپس آئے تو وہاں کی تہذیب کے ایک پہلو پر یہ تبصرہ بھی کیا:
یہ حوریانِ فرنگی دل و نظر کا حجاب
بہشتِ مغربیاں، جلوہ ہائے پابہ رکاب
دل ونظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا
مہ و ستارہ ہیں بحرِ وجود میں گرداب
لیکن اگر اقبال آج زندہ ہوتے اور آج کا امریکی تمدن بھی ان کے سامنے ہوتا تو وہ نہ صرف یورپ کے دل و نظر کے حجابات بھول جاتے بلکہ امریکہ پلٹ درجنوں پاکستانی حضرات کو اخلاقیات کا کوئی درس دینے سے ہی یکسر گریزاں ہوتے ۔۔۔ میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہوتی کہ یورپ کی حوریانِ فرنگی تو پھر بھی کسی نہ کسی دائرہ تہذیب میں محصور کی جا سکتی ہیں لیکن ان حوریانِ امریکی کا تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ جنگ و جدال کہیں بھی ہو، مغرب میں ہو یا مشرق میں، اس کا پہلا شکار ’’میڈم اخلاق خانم‘‘ ہوتی ہیں۔۔۔ ملٹری ہسٹری کے طلباء کو معلوم ہے کہ یورپی جنگیں جب تک یورپ تک محدود رہیں یا یورپی کمانڈروں کے زیر قیادت لڑی جاتی رہیں تو یورپین سولجرز کے ہاتھوں نسوانی اخلاقیات کے صیدِ زبوں کا گراف وہ نہیں تھا جو ماضی ء قریب میں امریکی ٹروپس کے ہاتھوں ہوا۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر اگرچہ اتحادی افواج فاتح بن کر ابھریں لیکن ان کے کاندھوں پر اپنی ہی تہذیب اور اخلاق کے لاکھوں جنازے بھی لدے ہوئے تھے۔ اخلاقیات کے ان مغربی جنازہ بردوشوں میں امریکی سب سے آگے آگے رہے۔ اس جنگ کے خاتمے کے بعد جوں جوں وقت گزرتا گیا، امریکی عسکری اخلاقیات کی دھجیاں مزید بکھرتی چلی گئیں۔1950ء کے عشرے میں کوریا اور 1960-70ء کے عشروں میں ویت نام کی جنگوں میں امریکی افواج کو ناکامی اور پسپائی کا جو سامنا کرنا پڑا، اس کی پروفیشنل وجوہات کے علاوہ ایک وجہ امریکی ٹروپس کا اخلاقی انحطاط بھی تھا جو جدید ترین امریکی اسلحہ اور سازوسامان کے باوصف ہر امریکی سولجر کو نفرت کی علامت بنا گیا۔۔۔ اس موضوع پر اگر کوئی قاری ناقابلِ یقین ’’نسل‘‘ کی حکایات پڑھنا چاہیں تو دنیا بھر کی ملٹری لائبریریوں میں ان کو بہت سا مواد مل جائے گا۔
گزشتہ صدی کی عظیم جنگوں سے شروع کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ 21ویں صدی کے آتے آتے امریکن افواج کا ایک مخصوص کوڈ آف کنڈکٹ بن چکا تھا۔ آج عالم یہ ہو چکا ہے کہ وہ جس ملک پر حملہ کرتی ہیں سب سے پہلے اس کا بڑی تفصیل سے جغرافیائی جائزہ لیتی ہیں ۔ یہ تشخیص اور سروے لینس معروف عسکری معانی میں ہرچند پروفیشنل ہوتی ہے اور ہر فوج یہی کچھ کرتی ہے لیکن اس سروے لینس کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جسے ’’ایکسٹرا پروفیشنل‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔۔۔اور یہ صرف امریکہ کی جدید ترین فوج کا ہی مقدر ہے۔۔۔ آج امریکی وزارتِ دفاع (پینٹاگون) کو اس امر کی پیشگی تشخیص (Assesment) کرنی پڑتی ہے کہ جس ملک میں فوج کو بھیجا جا رہا ہے، وہاں اس کی شہوانی (Sexual) پیاس بجھانے کے امکانات کتنے روشن اور کتنے دھندلے ہیں۔ جنسی تلذذ کی وہ سہولتیں کیا ہیں جن کو ’’مقامی ذرائع‘‘ سے پورا کیا جا سکتا ہے اور وہ کیا ہیں جن کاانتظام و انصرام وطنِ مالوف کے کوچہ و بازار سے کرنا پڑے گا۔۔۔
2001ء میں امریکی افواج جب افغانستان پر حملہ آور ہوئی تھیں تو ایکسٹراپروفیشنل سروے لینس کی یہ ایکسرسائز بھی ساتھ ہی مکمل کر لی گئی تھی۔ اس کے بعد جوں جوں افغانستان میں مغربی افواج کی تعداد بڑھتی گئی اور انہوں نے NATO اور EASAF کا روپ دھارنا شروع کیا تو انواع و اقسام کے ٹروپس کے ’’جنسی تقاضوں‘‘ کا کیف و کم بھی بڑھتا چلا گیا۔۔۔ علاوہ ازیں کابل کو لاس ویگاس بنانے میں بعض ’’مقامی وسائل‘‘ نے اہم رول ادا کیا۔ افغانستان کے ناخواندہ،نیم خواندہ، پسماندہ اور قدیم روائتی ماحول کی چاردیواری میں ایک چھوٹا سا طبقہ ایسا بھی تھا جو خواندہ، روشن خیال، لبرل، مغرب زدگی کا رسیا اور غیر روائتی اقدار کا خوگر تھا۔ اور اس طبقے میں چند ایسے خاندان بھی تھے جو طالبان کے مختصر لیکن ’’جناتی دور‘‘ میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ چنانچہ جب 2001ء میں امریکی ٹروپس نے افغانستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو اس ’’ہائی فائی‘‘ طبقے نے پھر سے سر اٹھانا شروع کیا۔ یہ ایک ایسا سیلاب تھا جس کی زد میں دارالحکومت کابل کا ایک بڑا جغرافیائی حصہ بہہ کر ٹوٹ پھوٹ گیا!
دیکھتے ہی دیکھتے جگہ جگہ ناچ گھر، چکلے،NGOs، شیشہ سنٹر ، ریستوران، کلب اور زن و شوکی ایسی مخلوط ملن گاہیں (RVs)وجود میں آ گئیں جن کا تصور اس قدامت پرست افغان معاشرے میں ناقابلِ تصور تھا۔
پھر یہ ہوا کہ اس الٹرا ماڈرن طبقے میں مغرب کا ایک ایسا شعبہ بھی دھم سے آ کودا جسے ’’امریکی میڈیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ Embeddedیا Freeمیڈیا، حملہ آور افواج کا ’’بازوئے قلم زن‘‘ کہلایا۔۔۔ یورپی اور امریکی ملٹری کمانڈروں اور سیاسی قائدین کو بھی اس کی اشد ضرورت تھی۔ وہ کہتے تھے کہ یہ نہ ہو تو مغربی ممالک کے عوام طرح طرح کے بے جا اوہام میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔۔۔
پھر دسمبر2014ء کے اواخر میں جب ناٹو افواج کی اکثریت افغانستان سے نکل گئی تو جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، افغانستان ایک بار پھر ’’طالبان دور‘‘ میں واپس جانے کی تیاریاں کرنے لگا۔ بعض سیاسی پنڈتوں نے ہزار پیش گوئیاں کیں کہ افغان نیشنل آرمی، افغان نیشنل پولیس اور 9800 ’’خالص امریکی‘‘ ٹروپس جو کابل و قندھار میں ANA اور ANP کو ٹریننگ دینے کے لئے باقی رکھے گئے ہیں، وہ افغانستان کے جدید سماجی ڈھانچے کو سنبھال لیں گے۔ لیکن جلد ہی ان کے غبارے سے بھی ہوا نکلنے لگی۔۔۔ اس صورت حال کا نقشہ ایک امریکی لکھاری، علیسہ روبن (Alissa Robin) نے خوب کھینچا ہے۔ وہ لکھتی ہے : ’’اکتوبر 2015ء کے وسط میں کابل میں صورت حال یہ ہو گئی کہ امریکی سفارت خانے کے کسی اہلکار کے کابل ائرپورٹ سے امریکی سفارت خانے تک بذریعہ کار جانے کی اجازت بھی سلب کر لی گئی۔ یہ فاصلہ صرف ڈیڑھ میل ہے۔ لیکن طالبان کے خوف سے اس فاصلے کو بھی بذریعہ ہیلی کاپٹر طے کیا جانے لگا۔۔۔ آج بھی کہ جب یہ سطور لکھ رہی ہوں کابل ائرپورٹ سے کابل کے امریکی سفارت خانے تک کوئی ادنی سے ادنی امریکی اہلکار بھی ’’بائی روڈ‘‘ 12فرلانگ کا یہ مختصر فاصلہ طے نہیں کر سکتا۔‘‘
اندازہ کیجئے کہ 14برس تک ناٹو اور ایساف کے ہزاروں لاکھوں ٹروپس افغانستان کے طول و عرض میں برسرپیکار رہے لیکن ساڑھے تین لاکھ افغان آرمی اور اڑھائی لاکھ پولیس کے ہوتے ہوئے بھی ’’مٹھی بھر‘‘ طالبان کو دیکھتے ہی حکومتی سپاہ کی جان نکل جاتی ہے۔ بلٹ پروف ملٹری گاڑیاں (Humvess) قطار اندر قطار کابل کے اردگرد دوڑتی نظر آتی ہیں۔ ان کے اندر بیٹھے ہوئے امریکی سورما سرتاپا غرق آہن ہوتے ہیں اور جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی ان کی غلام ہے۔ لیکن یہ ننگ دھڑنگ طالبان ان پر بھاری ہیں۔۔۔ وجہ یہ ہے کہ امریکی جان بچانے کے لئے لڑتے ہیں اور طالبان جان گنوانے کے لئے موت کی تلاش میں لڑتے رہے ۔۔۔ ذہنیت کا یہی فرق ہے جو صدیوں سے افغانوں اور غیر ملکی حملہ آوروں کے درمیان ایک فیصلہ کن عنصر بنا ہوا ہے۔
نئی ہزاری کے پہلے دس برس افغانستان میں امریکیوں کا عشرہ بھی کہے جاتے ہیں۔۔۔ آج تک امریکہ اور ناٹو کی افواج نے اپنے ہلاک اور زخمی ہونے والے فوجیوں کی تعداد ظاہرنہیں کی۔لیکن اس جنگ پر امریکہ کا جو خرچہ آیا ہے اس کا تخمینہ بتا دیا گیا ہے جو 715 بلین ڈالر ہے۔۔۔ ہم پاکستانیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ 46بلین ڈالر کا ہے جس کا غلغلہ بپا ہے جبکہ امریکہ اس رقم سے15،16گنا زیادہ خرچ کر چکا ہے اور اب بھی لرز رہا ہے کہ افغانستان کی بھول بھلیوں سے کیسے نکلے۔۔۔
علیسہ روبن (Alissa Robin)کابل کے ایک اور پہلو کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتی ہے : ’’چکلے ویران ہو چکے ہیں ۔۔۔ شیشہ سنٹر خالی پڑے ہیں۔۔۔ ناچ گھر سنسان ہو گئے ہیں۔۔۔فرانسیسی، اطالوی اور تھائی ریستوران جو کبھی امریکیوں سے ہمہمایا کرتے تھے، آج وہاں اُلو بولتے ہیں، ایک آدھ جاپانی اور ہندوستانی ریستوران کھلتا ضرور ہے لیکن کوئی گاہک نظر نہیں آتا تو منتظمین مایوس ہو کر تالہ لگاتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔۔۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کابل گویا ایک ایسا ساحلِ سمندر (Beach) ہے جو ’’آف سیزن‘‘ ہے۔ یعنی موسمِ سرما زوروں پر ہیں، کوئی کشتی ،کوئی ناؤ، کوئی بجرا دکھائی نہیں دیتا۔ سارا بیچ آسیب زدہ لگتا ہے، بید کی کرسیاں اور میزیں جو گیلی سوکھی ریت پر بچھی ہوتی تھیں یکدم اٹھا لی گئی ہیں۔ گویا سارا منظر ہی بدل گیا ہے۔۔۔ وجہ صرف ’’اتنی سی‘‘ ہے کہ گزشتہ برس کسی خودکش بمبار نے اس "Beach" کے ایک ریستوران پر حملہ کر دیا تھا۔ 21لوگ مارے گئے تھے جن میں 13غیر ملکی تھے۔ کابل کے پوش علاقے میں جو فرانسیسی ریستوران رات گئے تک جاگتے رہتے تھے ، اب خاموش ہیں۔ وہاں صرف ایک بمبار نے حملہ کیا تھا اور صرف ایک گاہک مارا گیا تھا اور 12 زخمی ہوئے تھے۔ ان زخمیوں میں ایک ’’افغان نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میوزک‘‘ کا سربراہ احمد سرمست بھی تھا جس کا خیال تھا کہ وہ غریب اور نادار افغان نوجوانوں کو موسیقی کی تربیت دے کر ان کے مستقبل کے نان نفقہ کا بندوبست کر دے گا۔ لیکن اس حملہ میں اس کی حسِ سماعت ہی ضائع ہو گئی۔۔۔ اب وہ کس کو موسیقی سنائے اور کس کو سکھلائے؟!‘‘
علیسہ روبن نے ’’تب اور اب‘‘ کا جو مزید نقشہ کھینچا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ لیکن آخر میں جب وہ اپنی برادری(میڈیا) کی طرف لوٹتی ہے تو دیکھئے کہ اس کے یہ فقرے کتنے کاٹ دار ہیں: ’’وہ درجنوں صحافی جو اس جنگ کی کوریج کے لئے جوق در جوق کابل، قندھار، ہرات، ننگر ہار اور ہلمند میں اکٹھے ہو کر دن کو جنگ کی فلمیں شوٹ کرتے، شام کو اپنے اپنے میڈیا مراکز کو ’’احوال جنگ‘‘ سے آگاہ کرتے اور شام کو ناچ گھروں اور ریستورانوں میں ایک ہاتھ میں سکاچ اور وہسکی کی بوتلیں اور دوسرے میں اپنی گرل فرینڈز کی کمریں دبائے ہلکورے کھاتے نظر آتے تھے، وہ اب کابل سے نکل کر دمشق کا رخ کررہے ہیں۔۔۔ ان کو معلوم ہوا ہے کہ وہاں پوٹن کی فضائیہ اسد حکومت کے باغیوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کررہی ہے جو طالبان نے 14برس تک غیر ملکی ستمکاروں کے ساتھ روا رکھا تھا‘‘۔
کابل کی اس 10،15سالہ تاریخ کے قصے پڑھ کر اقبالؒ یاد آتے ہیں۔وہ 1933-34ء میں جب کابل گئے تھے تو شہنشاہ بابر کے مزار پر بھی حاضری دی تھی اور سات اشعار پر مشتمل ایک لاجواب نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا: ’’برمزارِ شہنشاہِ بابرخلد آشیانی‘‘ ۔۔۔ دورانِ سروس راقم السطور کو بھی وہاں حاضری دینے کا موقع ملا ، اس کی تفصیل پھر کبھی۔۔۔ اس کالم کا خاتمہ اس نظم کے ایک شعر پر کرتا ہوں جس کے مفہوم کی ابدیت پر میں با رہا حیران ہوا ہوں۔ بابر نے آگرہ میں وفات پانے سے پہلے یہ وصیت کی تھی کہ اس کی میت کو کابل میں دفن کیا جائے۔ اس پس منظر کو نگاہ میں رکھئے اور اقبال کا یہ شعر دیکھئے:
خوشا نصیب کہ خاکِ تو آرمید اینجا
کہ ایں زمیں ز طلسمِ فرنگ آزاد است
( زہے نصیب کہ تو کابل میں آسودۂ خاک ہے۔ جس کی سرزمیں افرنگی طلسم سے آزاد ہے!)