امریکہ: انتخاب کے بعد؟

امریکہ: انتخاب کے بعد؟
 امریکہ: انتخاب کے بعد؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکہ کے نئے صدر کا انتخاب آج ہو جائے گا۔ ماضی کے برعکس اس بار امیدواروں کے درمیان ناخوشگوار ماحول بھی پیداہوا۔ ایک طرف ری پبلکن امیدوار تاجر، بے حد دولت مند ڈونلڈ ٹرمپ ہے جو ’’انٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ سمجھا جاتا ہے اور غالباً ہے بھی۔ دوسری طرف ڈیمو کریٹ ہلیری کلنٹن ہے جو سابقہ صدر کلنٹن کی بیگم ہیں جو خود بھی وزیرخارجہ رہی ہیں۔ سیاست کا وسیع اور اچھا تجربہ ہے، ان انتخابات میں امریکی معاشرے میں تضادات کھل کر سامنے آئے ہیں، جس سے عالمی سطح پر امریکہ کا تاثر مجروح ہوا ہے۔ اس بار انتخابات کی کمپین بھی ماضی کے مقابلے میں جلد ہی شروع ہو گئی اور لمبا عرصہ چلی ہے، لیکن اب تو ختم ہے اور ذہنوں میں سوال جنم لینے لگے ہیں۔اب تک کے اندازوں کے مطابق ہلیری کلنٹن سابقہ سینیٹر، سابقہ وزیرخارجہ کی کامیابی کے امکانات روٖشن ہیں، لیکن اندازے غلط بھی ہو سکتے ہیں، کیونکہ بہرحال اندازے اور حقیقت میں فرق تو ہوتا ہے۔ حال ہی میں کولمبیا میں ایک ریفرنڈم کا نتیجہ اندازوں اور امکانات کے برعکس آیا ہے جو حیران کن ہے، کیونکہ جس معاہدے کے بارے میں ریفرنڈم ہو رہا تھا، اسے مسترد کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اسی طرح کلنٹن کی کامیابی یقینی سمجھی جا رہی ہے ،لیکن۔۔۔ نتیجے کا انتظار تو کرنا ہی ہوگا، اس وقت تک تجزیے اور اندازے ہی ہیں، لیکن ایک بات یقینی ہے کہ انتخابات کا نتیجہ جو بھی نکلے، اختلافات کتنے ہی ظاہر کیوں نہ ہوں۔ تضادات کتنے ہی واضح کیوں نہ ہوں، انتخابات کے بعد اس بات سے قطع نظر کہ کانگرس کے دونوں ایوانوں میں کس کی اکثریت ہے،دونوں جماعتوں کو امریکی پالیسی کے مفادات کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہی ہوگا اور کریں گی، لیکن ڈیمو کریٹ کا جھکاؤ بائیں بازو کی طرف اور ری پبلکن کا جھکاؤ دائیں بازو کی طرف تو ہے اور رہے گا اور ان کی پالیسیاں اس کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ ایک اختلاف ہے، جس پر کبھی کمپرو مائز نہیں ہوا اور نہ ہوگا۔


اس بحث سے قطع نظر اگر ہلیری جیت جاتی ہیں تو ری پبلکن کے سنجیدہ رہنما یہ خیال کریں گے کہ یہ ناکامی ان کی جماعت کی نہیں، ٹرمپ کی اپنی ذات اور اس کی کچھ خامیوں کی وجہ سے ہے، اس لئے وہ ہلیری کو One-Term صدر ہی سمجھیں گے۔ امریکہ میں تبدیلی کی خواہش بھی غالب آ جاتی ہے، اس لئے وہ ہلیری کو ایک اور ٹرم دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے اور صدر کے لئے مشکلات پیدا کرتے رہیں گے، تاکہ وہ 2020ء میں پھر سے ایک مضبوط امیدوار کی حیثیت سے سامنے نہ آئیں۔ دوسری طرف اگر ٹرمپ جیت جاتے ہیں۔ ڈیمو کریٹ اور بعض ریپبلکن بھی اپنے اندازے غلط ثابت ہونے پر پریشان ہوں گے اور ان کی اول ترجیح یہی ہوگی کہ وہ دوبارہ نہ جیت سکیں، کیونکہ ان کے ساتھی بھی ان کے ایجنڈا سے لاعلم رہیں گے کہ وہ قابل اعتراض بھی ہوگا(ان کے خیال میں) اور ان کے دور میں حکمرانی(گورننس) بہت مشکل ہوگی، اچھی ہونا تو دور کی بات ہے۔دونوں صورتوں میں بھی یہ ممکن ہوگا کہ اہم معاملات پر اچھے اور بہتر اقدامات کئے جا سکیں گے۔ حکومتی ڈھانچے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہوگی، جس پر دونوں امیدواروں کی جماعتوں کا اتفاق ہے۔ٹیکس کے نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے اور لائی جائے گی۔ امیروں اور بڑی کارپوریشنوں پر ٹیکس بڑھانے کی بھی ضرورت ہے اور کی جائے گی۔ صحت کے شعبے میں اصلاحات لانے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ صدر اوباما نے بھی اصلاحات لانے کی کوشش کی تھی، لیکن موجودہ صورت حال برقرار رکھنے کے حامی، جن کے مفادات اس سے وابستہ ہیں، انہیں عمل درآمد کرنے نہیں دیا، اسی اثناء میں انتخابی فضا کی وجہ سے بھی انہوں نے یہ سب آنے والے صدر پر چھوڑ دیا ہے، لیکن بعض دیگر بڑے اور اہم فیصلوں پر، جن کی ضرورت ہے،نئے صدر اور کانگریس کے درمیان ہم آہنگی مستقبل قریب میں نظر نہیں آ رہی۔ اس میں نقل مکانی کرکے امریکہ آنے والوں کے بارے میں بھی اہم فیصلے کرنا ہوں گے اور اس کے مطابق قانون سازی کی ضرورت ہوگی اور امریکہ کے علاوہ یورپ میں بھی اس پر بحث جاری ہے۔


ایک اور شعبہ تجارت ہے ۔ داخلی حالات کے مطابق پالیسی بنانے والوں کے لئے غیر ملکی تجارت کی ترجیحات طے کرنا مشکل ہوگا، حالانکہ اس سے امریکہ کی معیشت پر بحیثیت مجموعی اچھا اثر پڑے گا، لیکن عام امریکی پر شائد بہتر اثرات مرتب نہ ہوں۔ قرضہ جات بھی بڑھیں گے ، کیونکہ ابھی تک انہیں کم کرنے کے بارے میں دونوں طرف سے مضبوط ارادے اور حکمت عملی کا اظہار دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس کے لئے اخراجات کم کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ کس کس شعبے میں کیسے اور کتنے کم کئے جائیں گے؟ خارجہ پالیسی غالباً امریکہ کے لئے سب سے اہم شعبہ ہے۔ امریکہ کا آئین صدر کو بعض معاملات میں لا محدود اور بعض معاملات میں اہم فیصلے کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ کانگریس جنگ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اہم دفاعی معاہدے کرنے کی منظوری دیتی ہے، لیکن صدر بھی امریکہ سے باہر فوجی قوت کے استعمال کی اجازت دے سکتا ہے اور انکار بھی کر سکتا ہے۔وائٹ ہاؤس کا طاقتور سٹاف مقرر کر سکتا ہے۔ انتظامی امکانات کے تحت اہم فیصلے بھی کر سکتا ہے، جیسے صدر اوباما نے کیوبا کے معاملے پر بہت اہم اور دور رس اثرات کا حامل فیصلہ کیا۔ ہلیری کے صدر بن جانے کی صورت میں شام کے معاملے پر اہم فیصلوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یوکرائن کو مزید فوجی امداد مہیا کرنے کا فیصلہ کہ اسے روس کے اثر و رسوخ سے محفوظ رکھا جا سکے۔ شمالی کوریا کے بارے میں سخت پالیسی اختیار کی جائے گی، انہیں ایٹمی اور میزائل پروگرام کو مزید مضبوط ہونے سے روکنا مقصد ہوگا، لیکن ٹرمپ کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ وہ ان معاملات پر کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔۔۔ لیکن توقع کی جا رہی ہے چونکہ وہ پہلی بار اس سطح کی سیاست میں آئے ہیں، ان کی ٹیم کیا ہوگی؟ ان Areas کے اور یورپ سے تعلقات کے بارے میں کیا واضح پالیسی اپناتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ وہ شاید یورپ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اپنے دیرینہ اتحادیوں کے بارے میں گرم جوشی کی پالیسی اختیار نہ کریں، لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کون جیتے گا؟ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ دنیا بھر کے 96فیصد انسان امریکہ کے صدارتی انتخاب میں حصہ تو نہیں لے سکتے، مگر اس کے نتائج سے امریکی عوام کی طرح کم و بیش ہی سہی، متاثر ضرور ہوتے ہیں اور ہوں گے۔

مزید :

کالم -