نان ایشوز کی بھرمار
ملک جب بھی سیاسی معاشی استحکام کی جانب قدم اٹھاتا ہے‘ کوئی نہ کوئی رکاوٹ اس کے راستے میں حائل ہو جاتی ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا اہم مسئلہ یہی ہے کہ یہاں جمہوریت کا تسلسل قائم نہیں ہوتا۔ اگر کوئی جمہوری حکومت دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کر بھی دیتی ہے تب بھی آمریت کی تلوار نئی حکومت کے سر پر لٹکتی رہتی ہے اور جب سیاسی حکومت معاشی طور پر اچھا پرفارم کر رہی ہو تو مخالفین کی طرف سے ایسے ایسے بوگس ایشوز اچھالے جاتے ہیں جنہیں بنیاد بنا کر عدم استحکام کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور ایسی فضا تیار کی جاتی ہے جس کے ذریعے حکومت کو کمزور کیا جا سکے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب مخالفین کے پاس کارکردگی دکھانے کا راستہ باقی نہ بچے۔
پھر وہ کبھی امپائر کی انگلی کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی تیسری قوت کی مداخلت کا جواز پیش کرتے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے پہلے نوے روز مکمل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جس کا ان کے ناقدین بھی اعتراف کرتے ہیں۔
وہ اگر نجی بیرونی دورے پر جاتے ہیں تو پروٹوکول نہیں لیتے اور نہ ہی سرکاری خرچ پر ٹکٹ لے کر جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں وہ برطانیہ نجی دورے پر گئے تو کیمرے کی آنکھ کے ذریعے پوری دنیا نے دیکھا کہ وہ خود اپنا سامان لے کر ایئرپورٹ سے نکل رہے ہیں‘ وہ ایک خوشحال کاروباری شخص بھی ہیں اور اگر وہ چاہتے تو ایک دو بندے سرکاری یا نجی طور پر انہیں پروٹوکول دے سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
میں سمجھتی ہوں جہاں ہمارے میڈیا اور سیاستدانوں کو حکمرانوں پر تنقید کا پورا حق حاصل ہے انہیں چاہیے کہ جب حکمران کوئی اچھا کام کریں تو ان کی جائز تعریف میں کنجوسی سے کام نہ لیا جائے۔
یہ سیاست ہے نہ صحافت کہ آپ صرف اس لئے حکمرانوں پر تنقید کرتے رہیں کہ وہ حکومت میں ہیں بلکہ سیاستدانوں اور میڈیا پرسنز کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاں بہتر کام ہو وہاں اسے دنیا کے سامنے لانے میں شرم محسوس نہ کریں۔
بعض اوقات تنقید کرتے ہوئے ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہماری حدود و قیود کیا ہونی چاہئیں۔ بس دوسروں کی دیکھا دیکھی اندھا دھند تقلید کرتے ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے یہ پروپیگنڈا جاری ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو غیر ضروری پروٹوکول دیا جا رہا ہے حالانکہ یہ سب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بطور سابق وزیراعظم ان کا یہ استحقاق ہے کہ انہیں ہر طرح کی سکیورٹی فراہم کی جائے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور سابق صدر آصف علی زرداری اس معاملے میں بے پر کی اڑانے میں مصروف ہیں۔ یہ دونوں اصحاب اگر پتھر مارتے وقت اپنے گریبان میں جھانک لیتے تو کیا ہی بہتر ہوتا۔
آصف علی زرداری سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ ایوان صدر‘ وزیراعظم ہاؤس ‘ گورنر ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاؤس میں مہمان خانے کیوں بنائے جاتے ہیں اور وہاں معزز ملکی و غیر ملکی شخصیات کو کیوں ٹھہرایا جاتا ہے۔
پچھلے دنوں آپ کو یاد ہو گا کہ جب تحریک انصاف کی منحرف رکن اسمبلی عائشہ گلا لئی عمران خان کے غیر اخلاقی ایس ایم ایس پر سیخ پا تھیں تو روزانہ عمران خان کی کچھ تصاویر نتھیا گلی کے ریسٹ ہاؤس سے جاری ہوتی تھیں جن میں وہ مختلف مناظر میں مہمانوں کے ساتھ بالکنی یا لان میں چائے پی رہے ہوتے تھے۔
اسی طرح ایک نجی ٹی وی اینکر نے ان کا ایک گھنٹے کا انٹرویو بھی نتھیا گلی کے اسی سرکاری ریسٹ ہاؤس میں کیا جو خیبرپختونخوا کی حدود میں ہے اور جس کا خرچ وہاں کے عوام کے ٹیکسوں سے چلایا جاتا ہے۔
اب اگر ہم عمران خان سے پوچھیں کہ وہ جو دوسروں پر تنقید کر رہے ہیں کیا وہ یہ جواب دینا پسند کریں گے کہ وہ کس حیثیت سے اس سرکاری ریسٹ ہاؤس کے مزے لوٹتے رہتے ہیں۔ وہاں قیام اور طعام کے اخراجات تو سرکاری خرچ سے ادا ہوتے ہیں تو پھر وہ وہاں کیوں قیام کرتے ہیں۔
وہ تو کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ نجی ہوٹل یا رہائش گاہ میں کیوں نہیں رہتے۔ انہیں سابق وزیراعظم پر بلاجواز تنقید کرتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ جو کام ان کے لئے جائز ہے وہ کسی اور کے لئے ناجائز کیوں ہو سکتا ہے۔کبھی وہ سابق وزیراعظم کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ملک واپس نہیں آئیں گے کبھی وہ کہتے ہیں کہ وہ عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے اور کبھی وہ کہتے ہیں کہ وہ ثبوت پیش نہیں کریں گے حالانکہ ان کے ان بیانات کے باوجود نواز شریف ملک واپس بھی آتے ہیں‘ وہ عدالتوں میں پیش بھی ہو رہے ہیں اور انہوں نے ہر طرح کے ثبوت بھی مہیا کئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عمران خان اور زرداری کا ایسی تنقید کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے دونوں سیاسی جماعتوں کو صاف نظر آ رہا ہے کہ آئندہ الیکشن قریب آ رہے ہیں اور پیپلزپارٹی سندھ میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکی اور اسی طرح تحریک انصاف خیبر پی کے میں تبدیلی کا ایک منظر بھی نہیں پیش کر سکی تو ان دونوں کو ڈر ہے کہ اگر مسلم لیگ ن کی حکومت نے ترقیاتی کاموں اور ملک کو سی پیک اور لوڈشیڈنگ سے نجات جیسے تحائف دے کر عوام سے ووٹ حاصل کر لئے تو ان دونوں کا کیا بنے گا۔
ایک مرتبہ پھر ہار جائیں گے۔ اقتدار حاصل کرنے کے لئے چور دروازے کی تلاش میں رہنے والے یہ دونوں اصحاب پوری کوشش میں ہیں کہ کبھی پروٹوکول اور مراعات لینے کا الزام لگا کر اور کبھی ماضی کے گڑھے مردے اکھاڑ کر مسلم لیگ ن کو مطعون کیا جائے تاکہ عوام کی نظر میں اپوزیشن کا کوئی نہ کوئی بھرم باقی رہے اور لوگ یہ نہ کہیں کہ اپوزیشن کوئی کام نہیں کر رہی۔ عوام اس گیم کو سمجھ چکے ہیں اور یقیناًاقتدار کا ہما آئندہ الیکشن میں اسی کے سر بیٹھے گا جو کچھ کر کے دکھائے گا نہ کہ اسے اقتدار ملے گا جو اس طرح کی بلاجواز تنقید میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرے گا۔پروٹوکول جیسے نان ایشوز کی بھرمار کرنے سے اپوزیشن کو کچھ حاصل ہوا نہ ہو گا۔بہتر ہو گا وہ اپنے اصل کام پر توجہ مرکوز کرے۔