دال میں کچھ کالا ہے
مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب کو سیاسی او ر مذہبی لحاظ سے کلیدی پوزیشن ہے۔ دُنیا کے تمام ممالک میں سعودی عرب کو خام تیل بر آمد کرنے والا اہم اور بڑا مُلک تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اوپیک دُنیا میں تیل کی قیمتیں طے کرتے وقت سعودی عرب کی رائے کو خاص اہمیت دیتی ہے۔ معاشی طور پر مستحکم ہونے کی وجہ سے اِس کے عوام متمول اور پُر تعیش زندگی بسر کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ مذہبی مقامات واقع ہونے کی وجہ سے دُنیا بھر کے مُسلمان عُمرہ اور حج کی فضلیت حاصل کرنے کے لئے ہر سال دُنیا کے کونے کونے سے سعودی عرب کی سر زمیں پر بصد شوق حاضری دیتے ہیں۔ سعودی عرب کے فرمانروا خادم الحر مین شریف ہونے کے ناطے دُنیا بھر سے آئے ہوئے زائرین کو حج اور عُمرہ کے لئے بہتر سے بہتر خدمات پیش کرتے ہیں۔ دُنیا بھر سے آئے ہوئے کروڑوں لوگوں کو فریضہِ حج کے لئے تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرنا کوئی خالہ جی کاباڑہ نہیں۔ لیکن سعودی حکومت ہر سال بڑی درد مندی اور سعادت کے ساتھ تمام حجاج کرام کو حج ادا کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ تاہم تنقید کرنے والے لوگ بھی ہمارے معاشرے کا ہی حصہ ہیں۔ وُہ حکومت کے ہر کام میں برُائی ڈھونڈنے کے عادی ہوتے ہیں۔ بعض ممالک اپنے مقا صد کو حاصل کرنے کے لئے مذہبی فرائض کی ادا ئیگی کو بھی ایک مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں تاکہ میزبان مُلک کو نیکی نامی دینے کی بجائے اُس پر تنقید کرکے اُسکی سُبکی کا اہتمام کیا جائے۔ مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب کے علاوہ ایران بھی تیل کی سپلائی میں ایک اہم مُلک ہے۔ اہل تشنیع ہونے کی وجہ سے تمام شیعہ حضرات کے لئے اہم مقام رکھتا ہے، سعودی عرب ، عراق، شام او ر لُبنان میں شعیہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکژیت پائی جاتی ہے۔ ایران اُن حضرات میں اپنا اثر و رسوخ قایم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ لہذاحکومت کے نظام میں غیر ضروری دخل اندازی ہونے کی وجہ سے حالات کا خراب ہونا ایک فطری سی بات ہے۔ ایران بد قسمتی سے امریکہ کے ساتھ عرصہ دراز سے غیر دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ وُہ مشرقِ وسطیٰ میں اجاراداری قایم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ خاص طور اُن علاقوں پر زیادہ توجہ دیتا ہے جہاں اہلِ تشیع سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہوتے ہیں۔ سعودی عرب کے حوالے سے ایران کی یہ مداخلت سعودی عرب کی حکومت کے لئے دردِ سر سے کم نہیں۔ کیونکہ سعودی عرب میں اہل تشیع سی تعلق رکھنے والے لوگوں کی قابلِ لحاظ آبادی سعودی عرب کے ایسے علاقوں میںآبا دہے جہاں پر تیل کے کنویں پائے جاتے ہیں۔ لہذا ایسے حالات میں سعودی عرب کا دوسرے ممالک کی سر گرمیوں پر نظر رکھنا از حد ضروری ہو جاتا ہے۔۔ اِس لئے سعودی حکومت اپنی مُلک کی حفاظت کے لئے دوسرے مُلکوں کی بہ نسبت زیادہ حساس ہے۔
سعودیہ میں بادشاہت کا نظام قایم ہے۔ جہاں تمام فیصلے اسلامی شر یعت کے مُطابق کئے جاتے ہیں۔سعودی عرب میں سیاسی سر گرمیوں پر پابندی ہے۔ عورتوں کے حقوق اسلامی صولوں پر ہی دئے جاتے ہیں۔ سعودی عرب کو غیر مُستحکم کرنے کے لئے وہاں عورتوں کے حقوق کو لیکر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ حکومت کے نظام کو بدلنے لئے زیر لب شکائت کی جاتی ہے۔ حکومت لوگوں کے تمام مُطالبات سے واقف ہے لیکن حکومت تبدیلی لانے کی بجائے مر حلہ وار تبدیلی لانے کے حق میں ہے۔ عورتوں میں آزادی دینے سے پہلے اِس
مو ضوع پر سعودی حکومت اپنا ہوم ورک مکمل کرنا چاہتی ہے۔ تاہم خوش آئیند بات یہ ہے کہ سعودی حکومت نے معاشرے میں اصلاحات لانے کے لئے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔ دینی علماء کو بھی اِن تبدیلیوں کو لانے کے لئے مختلف انداز میں قائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اِس کام کے لئے شاہ سلمان نے ا پنے بیٹے محمد کو ولی عہد مقرر کیا ہے۔ ولی عہد سعودی عرب کو مُستقبل قریب میں سعودی عرب کے عصرِ جدید کے تقاضوں کے مُطابق ڈھالنے کے لئے اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔ اِس لئے اِن دِنوں میں سعودی عرب میں کُچھ غیر معمولی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئے ہیں لگ بھگ گیارہ شہزادوں اور دو درجن سے زائد اہم وزیروں اور اہم منصب پر فائیز لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مُطابق مذکورہ حضرات مُلک میں انقلاب لانے کے لئے در پردہ کوششیں کر رہے تھے۔ بعض ذرایع کے مُطا بق اِن افراد کو امریکہ کی خفیہ ایجنسی کی اطلاع پر گرفتار کیا گیا ہے۔ بہانہ کرپشن کو بنایا گیا ہے۔ لیکن اِن افراد پر حکومت کو شک ہے کہ یہ کبھی بھی حکومت کا تختہ اُلٹ سکتے ہیں۔ سعود خاندان کے دو شہزادے اب تک کی خبروں کے مُطابق ہلاک ہوُ چکے ہیں۔ گرفتار ہونے والے شہزادوں کو فائیو سٹار ہوٹل میں رکھا گیا ہے۔ حکومت کے اعلان کے مُطابق گرفتار شُدہ شہزادوں اور حکام کو اپنی صفائی پیش کرنے کا پُورا حق حاصل ہو گا۔ یعنی شرعی اعتبارسے تمام افراد کے ساتھ یکساں سُلوک روا رکھا جائے گا۔تمام تحقیق شفاف انداز میں ہوگی۔
سعودی عرب میں رہنے والے لوگ اِس حقیقت سے واقف ہیں کہ ایسی گرفتاریاں سعودی عرب میں روز نہیں ہوتیں اور جب ایسے واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں تو اُنکو نا رمل ہر گز کہا نہیں جا سکتا۔ بعض تبصرہ نگاروں کے مُطابق مشکوک حضرات کو حراست میں لے کر حکومت نے اپنی پوزیشن کو مضبو ط کر لیا ہے۔ خاص طور پر ولی عہد نے حکومت پر اپنی گرفت کو پکا کرنے کے لئے اور ممکنہ بغاوت کے امکانات کو ختم کرنے کے لئے قبل از وقت اقدام کرکے حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ گرفتاریوں کو چھپانے کے لئے سعودی حکومت کرپش کا بہانہ بنارہی ہے۔ سعودی عرب میں لوگوں کے پاس بیشمار دولت موجود ہے اور حکومت خود اپنے شہزادوں کو سرکاری طور پر وظیفے دیتی ہے۔ علاوہ ازیں، تیل کی پیداوار میں طے شدہ معاہدے کے مُطابق خام تیل کی کُچھ مقدارفراہم کرتی ہے تاکہ شہزادے اپنی ضرورتوں کو پُورا کرنے کے لئے بین الاقوامی منڈی میں بیچ سکیں۔ پیسہ بنانے اور جمع کرنے کی دوڑ کئی سالوں سے جاری ہے۔ حکومت کو تمام اعلیٰ ا شخاص کے بارے میں ضروری معلومات حاصل ہیں۔ یکدم گرفتاریاں سعودی عرب کے عوام اور وہاں رہنے والوں کے لئے حیرت کا با عث ہیں لیکن بادشاہت ہونے کی وجہ عام آدمی اپنی زُبان نہیں کھول سکتا۔ لیکن سعودی عرب میں پچھلے ہفتہ ہونے والی کارروائی کو کسی بھی صورت میں ایک عام یا معمول کی کاروائی نہیں کہا جا سکتا۔ واقعات اور شواہد کا اگر تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دال میں ضرور کُچھ کالا ہے۔
سعودی عرب میں ہونے ولی گرفتایوں میں شہزداہ ولید کی گرفتاری بھی شامل ہے۔ حالانکہ عام حالات میں اُنکو حکومتِ وقت کا اہم رہنماء سمجھا جاتا ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ شہزادے نے ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی انتخابات کے دوران نہ صرف مخالفت کی تھی بلکہ نا زیبا کلمات بھی کہے تھے۔ افواہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا حساب چُکتا کرنے کے لئے ایسے افرادکے خلاف سازش کی ہے جو امریکی مداخلت کے سعودی حکومت میں مخالف ہیں۔ کُچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شہزادے ولید کے ٹرمپ کی بیٹی سے تعلقات تھے۔ لیکن ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ولی عہد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بے حد قریب ہیں۔ لہذا جو کُچھ بھی ہو رہا ہے وُہ امریکہ کے کہنا پر کیا جارہا ہے۔ وُہ لوگ جو امریکہ کی سعودی سیاست میں مداخلت کے خلاف ہیں۔ اُنکو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ تاکہ کرپشن اور بعد عنوانی کے بہانہ بنا کر اُنکو قید کر لیا جائے۔معاملہ کُچھ بھی ہو، مشرقِ وسطیٰ میں ایک اہم سیاسی تبدیلی کا مظہر ضرور ہے۔ جس کے دور رس نتایج نکلیں گے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔