پاکستان اور چین، مقامی کرنسیوں میں تجارت؟

پاکستان اور چین، مقامی کرنسیوں میں تجارت؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین کے دوران یہ خبر آئی کہ چین اور پاکستان کے درمیان اپنی اپنی مقامی کرنسی میں تجارت کا فیصلہ کر لیا گیا اور اس پر عمل درآمد سے پاکستان پر ڈالر کا دباؤ کم ہو گا، اور اثرات 30فیصد تک مرتب ہوں گے، تاہم پاکستان آمد پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیرخزانہ اسد عمر نے میڈیا کو جو بریفنگ دی اس میں تو یہ بتایا گیا کہ مقامی کرنسی میں تجارت کے لئے غور کیا جا رہا ہے، یہاں یہ بھی غور طلب ہے کہ ان وزراء کرام نے یہ بھی نہیں بتایا کہ اس سلسلے میں کوئی ایم او یو بھی ہوا کہ نہیں، اس سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ محض تجویز ہے اور اس پر کب عمل ہو گا یہ اندازہ نہیں ۔جہاں تک پاکستان پر معیشی بوجھ کا تعلق ہے تو وزراء نے بڑی خوشخبری سنائی کہ 6ارب ڈالر سعودی عرب سے ملیں گے اور اتنا ہی چین سے مل جائے گا یوں عدم توازن پورا ہو گا جبکہ آ ئی ایم ایف سے بھی بات شروع ہے۔ سعودی عرب نے 3 ارب ڈالر پاکستان کے سٹیٹ بنک میں رکھنے اور ایک سال کے اندر تین ارب ڈالر کا تیل ادھار دینے کا اعلان کیا تھا۔ غالباً اسد عمر نے اپنی سہولت کے لئے اس کو چھ ارب ڈالر بنا لیا۔ چین سے کیا ملا، اس کی تفصیلات ابھی دستیاب نہیں یا پھر فی الحال اس کا پردہ رکھنا مقصود ہے۔جہاں تک مقامی کرنسیوں میں تجارت کا سوال ہے تو یہ بہت مفید ہے تاہم اس پر عملدرآمدکی صورت ابھی تک پیدا نہیں ہوئی۔ اگر یہ تجویز ہے تو ہم پندرہ بیس سال سے ایسی تجویز سنتے آ رہے ہیں، حتیٰ کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں تو بھارت کے ساتھ تجارت میں سہولت ہوئی تھی تب یہ کہا جا رہا تھا کہ پاک بھارت تجارت براہ راست بین الاقوامی سرحدوں کے ذریعے ہو تو یہ زیادہ مفید ہو گی کہ بار برداری کے اخراجات میں بچت ہو جائے گی تب اور اب بھی بھارت کے ساتھ واہگہ کی بین الاقوامی سرحد پر ٹماٹر، پیاز اور آلو جیسی خوردنی اشیاء کی تجارت تو ہو جاتی ہے تاہم صنعتی پیداوار براستہ دوبئی ہوتی ہے۔ بھارت اور پاکستانی تاجروں نے دوبئی میں کمپنیاں رجسٹرڈ کرا رکھی ہیں اور یوں بالواسطہ تجارت ہوتی اور ادائیگی ڈالروں میں کی جاتی ہے۔ اس دور میں بھی یہ تجویز سامنے آئی کہ دونوں ملک اپنی اپنی کرنسی میں تبادلہ کریں حتیٰ کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان اور بھارت کی ایک ایک برانچ دونوں ممالک میں قائم کرنے کی بھی بات ہوئی تھی، لیکن بی جے پی کی متعصب حکومت نے تو تعلقات ہی کشیدہ کر لئے چہ جائیکہ دوستی ہو جاتی اور پھر تجارت بھی ہوتی۔یوں کہا جاتا سکتا ہے کہ یہ تجویز پرانی ہے لیکن عملدرآمد میں رکاوٹ آ جاتی ہے، اب اگر چین کے ساتھ یہ سمجھوتہ ہوتا ہے تو اس کی واضح شکل اور تفصیل سامنے آنا چاہیے۔ وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ کو یہ کنفیوژن دور کرکے بتانا چاہیے کہ اس سلسلے میں کیا پیش رفت ہوئی اور کب سے عمل درآمد ہو گا کہ پاکستانیوں نے ابھی سے یہ دریافت کرنا شروع کر دیا ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -