گھر کابھیدی مُخبر اور انعامی رقم کا سراب؟
مکرمی! وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے ’’وِسل بلؤرز پروٹیکشن ایکٹ 2018ء ‘‘ کے خدوخال گزشتہ ہفتے میڈیا میں بیان کئے۔ ویسے تو گھر کے بھیدی ’’سِیٹی باز‘‘ (Whistle Blowers) یعنی اندرونی مُخبر یا مُخبروں کی فراہم کردہ معلومات کے نتیجے میں بازیاب ہونے والے ناجائز اثاثہ جات یا کرپشن کے ذریعے کمائی گئی رقوم میں سے ایک مقررہ تناسب سے رقم کی ان مخبروں کو بطور انعام ادائیگی سمیت ان کی شناخت کی، دائمی رازداری و شخصی تحفظ (Protection) کا تصور کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم ایکٹ ہذا میں سب سے اہم ’’جدت‘‘ بقول وزیر موصوف یہ ہے کہ کسی مخبر کی فراہم کردہ معلومات یا شکایت پر آزاد کمیشن بنا دیا جائے گا، جو معلومات کی ابتدائی جانچ پرکھ کرے گا۔ نظر بظاہر (Prima Facie) اگر مفادعامہ (Public Interest) میں ضروری ہوا تو مزید قانونی چارہ جوئی (پراسیکیوشن) کے لئے متعلقہ ایجنسیوں یعنی نیب، ایف آئی اے یا Secp وغیرہ میں ریفرنس دائر کردیا جائے گا، جس میں ’’شکایت کنندہ‘‘ خود کمیشن ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔ اب ذرا غور فرمائے کہ کمیشن کے شکایت کنندہ بن جانے کا مطلب یہ ہوا کہ سارے معاملے سے بے چارے مُخبر کا پتا تو ہوگیا صاف، جبکہ شناخت اس کی ویسے ہی صیغۂ راز یعنی سینوں میں دفن رہے گی، لہٰذا اگر وقت آنے پر اسے سرے سے پہچاننے ہی سے انکار کردیا جاتا ہے یا پھر انعامی رقم کی ادائیگی میں لیت و لعل کیا جاتا ہے تو یہ بے چارہ ’’سیٹی باز‘‘ کسی کا کیا بگاڑ لے گا؟ کس کے درپر جاکر فریاد کرے گا! زیادہ تو تڑاخ کرے گا تو کیا اِسی کیس میں شریک جرم ٹھہرا کر دھر نہیں لیا جائے گا کہ ’’نکالو ، کرپشن کے پیسے‘‘؟ پڑ گئے ناں لینے کے دینے!۔۔۔اہم سوال یہ ہے کہ بالفرض مُخبر کے ہاتھ کچھ آبھی جاتا ہے تو اسے یہ کون بتائے گا کہ کتنی بازیابی ہوئی اور اس کا انعامی ’’حق الخدمت‘‘ کتنا بنتا ہے۔ محترم وزیر قانون ان اہم نکات کی وضاحت فرمادیں!(ندیم اصغر، لندن، یوکے)