وسط مدتی انتخابات میں امریکی عوام کا فیصلہ منقسم
واشنگٹن سے براہ راست(اظہر زمان کاخصوصی تجزیہ)
اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے دو سال بعد ہونے والے وسط مدتی انتخابات کے نتائج ان کے لیے نیگ شگون نہیں ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ صدارتی انتخابت کے وقت کانگریس کے دونوں ایوانوں میں حکمران ری پبلکن پارٹی کو جوبرتری حاصل تھی وہ جزوی طور پر ختم ہوگئی ہے اور صدر ٹرمپ اس حقیقت سے نظریں چرا کر سینیٹ میں اپنی برتری برقرار رہنے کو اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں ۔ ایوان نمائندگان میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی لیڈر نینسی پاول نے جو کہا ہے کہ آج امریکہ میں ایک نیا سورج طلوع ہوا ہے تو اس بیان میں خاصا وزن ہیں۔ 78سالہ میں مس پاول جو نئے ایوان کی متوقع سپیکر ہے بجا طور پر ڈیموکرئیک پارٹی کی کامیابی کا جشن منارہی ہیں۔ وسط مدتی انتخابات وائٹ ہاؤس میں دوسال قبل ممکن ہونے والے صدر کے لئے ہمیشہ ریفرنڈیم شمار ہوتا ہے اگرچہ بیلٹ پیپر پر صدر کا نام نہیں ہوتا لیکن وسط مدت انتخابات میں جس انداز سے ووٹرز ووٹ ڈالتے ہیں اس سے یہ سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آتی کہ اس وقت کے صدر کی دوسالہ کارکردگی کو عوام نے کس حد تک پسند یا نا پسند کیا ہے ۔ کانگریس کے ایو ان نمائندگان میں موجودہ وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکرئیک پارٹی کے ارکان کی تعداد 193سے بڑھ کر 222تک پہنچ گئی ہے اور ابھی چار نشستوں کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے حتمی نتیجے کے بعد ڈیموکرئیک ارکان کی تعداد 222سے بھی بڑھ سکتی ہے اگرچہ سینیٹ میں حکمران جماعت نے برتری برقرار رکھی ہے لیکن اس نتیجے کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ کی مقبولیت کی سطح وہ نہیں رہی جو 2016ء میں صدارتی انتخابات کے وقت ہیں۔امریکی آئین کے مطابق قومی خزانے کا کنٹرول صدر کی بجائے کانگریس کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ترقیاتی منصوبوں کی فنڈنگ، بیرونی امداد، ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے یا دیگر بین الاقومی اقتصادی یا مالیاتی معاہدے اپنی صورت بد ل سکتے ہیں یا ڈیمو کرئیک ایوان کے باعث اتہواء میں پڑ سکتے ہیں ڈیموکرئیک ارکان کا صدر ٹرمپ کے خلاف کارروائی کا یقیناً کھلا اختیار حاصل نہیں ہوگا کیونکہ ان کے راستے میں سینیٹ حائل رہے گا ایک دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہر کسی بل کا آغاز ایوان نمائندگان میں ہوتا ہے جس کی بناء پر وہ ہر قانون سازی میں رکاوٹ پیدا رکرسکتاہے لیکن سینیٹ میں اقلیت کے باعث سارا معاملہ ڈیموکریٹس کے ہاتھوں میں نہیں گیا۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی انتخاب کے بعد دونوں حریف جماعتوں اپنی اپنی کامیابی کا جشن منائیں۔ وسط مدتی انتخابات کے بعد ایسا بھی ہورہا ہے لیکن سب سمجھتے ہیں کہ 6نومبر کے بعد صدر ٹرمپ کے مشکل وقت کا آغاز ہوچکاہے صدارتی انتخابات کی طرح موجودہ وسط مدتی انتخابات میں بھی قدامت پسند اور نسبتاً کم پڑھے لکھے سفید فام شہریوں نے ری پبلکن کا ساتھ دیا ہے جبکہ ڈیموکرئیک امیدواروں کا ووٹروڈ میں تعلیم یافتہ طبقہ، خواتین اور نوجوانوں کے علاوہ رنگدار لوگوں کی اکثریت نظر آرہی تھی ایسے ووٹ ملنے کے باعث سینیٹ میں ری پبلکن اور ایوان نمائندگان میں ڈیمو کرئیک کو اکثریت حاصل ہوئی کینساس کی ریاست میں صدر ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے سخت حامی ری پبلکن امیدوار گورنر بننے سے قاصر ہے جو امیگرئنس کی اکثریت والی ریاستوں سے نکلنے والا ایک نمائندہ اشارہ ہے اس کے علاوہ ان انتخابات کے موقع پر ہونے والے سروے بھی بتاتے ہیں کہ صرف 44فیصد ووٹروں نے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی حمایت کی اور 54فیصد ان کے نافد نکلے ان نتائج کی روشنی میں نہ صرف صدر ٹرمپ کو اپنا ایجنڈا آگے بڑھانا مشکل ہوگا بلکہ یہ اشارہ بھی ملاہے کہ صدر ٹرمپ 2020ء کا انتخاب ہار بھی سکتے ہیں۔
تجزیہ اظہر زمان