’خط کالا تے کاغذ چٹا‘

’خط کالا تے کاغذ چٹا‘
’خط کالا تے کاغذ چٹا‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جن دِنوں ہم سب مسلمان ایک دوسرے کے اجتماعات میں بخوشی شامل ہو جایا کرتے تھے، پنجاب یونیورسٹی لاہور کی ایک محفل میں علامہ اظہر حسن زیدی نے بندے اور خدا کے رشتہ کی نشاندہی بڑے دل نشیں پیرائے میں کی تھی۔ انگشت شہادت اپنے سینے  اور پھر آسمان  کی طرف کر کے  بولے ”اللہ کا گھر ہمارے دل میں، ہمارا گھر جنت میں“۔ تحسین کا شور تھما تو کہنے لگے ”اگر جنت میں کھلا مکان چاہئیے تو اللہ کے گھر میں کشادگی پیدا کرو، اس میں ائر کنڈیشنر لگواؤ۔ اللہ کو ٹھنڈی ہوا آئے، میرے بچو!‘‘۔ اپنے عزیز وں پہ نظر ڈالوں تو ایک چچا یعقوب ہی تھے، جنہوں نے اللہ کے گھر کو کشادہ رکھا اور اتنے ائر کنڈیشنر لگوائے کہ جنت میں انہیں ایک گھر  نہیں، پوری کالونی الاٹ ہونی چاہئے۔  ان کے بچوں نے ابو جی کی بجائے ہمیشہ بوجی کہا، جبکہ ہم پانچوں بہن بھائی انہیں سگی پھوپھی کا شوہر سمجھتے ہوئے بھی پرانے خاندانی رشتے کے حساب سے چاچا جی ہی کہتے رہے۔ 


   چاچا جی کیا تھے؟ بھلے وقتوں کے گریجویٹ، پاکستان آرڈنینس فیکٹریز میں ورکس منیجر، کرکٹ، کبڈی، تاش کے کھلاڑی، مچھلی کے شکار کے شوقین، پیچ لڑانے والے چمپیئن پتنگ باز، کلامِ اقبال کے حافظ، صوفیا کے عاشق، دفتری کام میں سب پر بھاری، ذاتی فائدہ نقصان  سے یکسر عاری۔ پتا نہیں آپ کے ذہن میں آج سے ٹھیک چھ سال پہلے رخت ِ سفر باندھنے والی اِس ہستی کا کیا نقشہ ابھر ے جن کی اہلیہ بھی دو ماہ ہوئے اُن کے پاس پہنچ گئی ہیں۔ بعض عادتیں تو شاید ایک دوسری کی ضد لگیں گی۔ جیسے چھٹیوں میں ایک ایسے فرض شناس شخص کا تین تین دن سوئے رہنا جو آٹھ بجے دفتر پہنچنے کے لئے  ہر صبح ساڑھے چھ بجے ہی ریلے کی سائیکل نکال لیتا ہو۔ آپ سستی اور چستی کے اِس ٹکراؤ کو سمجھنا چاہیں تو ہائی سکول والے نیلے اور لال لٹمس کے تجربہ پر غور کرنا پڑے گا۔ خاص طور پہ وہ مرحلہ جب کاغذ کی نیلگوں رنگت سرخی میں ضم ہوتے ہوتے یک رنگ سی ہو جاتی ہے۔ 


   بچپن میں چاچا جی کے ساتھ سیالکوٹ میں اُس گوردوارہ کے باہر کبڈی کا مقابلہ دیکھنا یاد پڑتا ہے،جو با با گرو نانک کے پودے کی نسبت سے ’بابے دی بیری‘ کہلایا۔ حافظے میں اگلی تصویر ریڈیو پر کرکٹ کمنٹری سننے کی ہے اور پھر وہ دن جب چاچا جی یہ پوچھنے کے لئے میرے سکول آئے تھے کہ لڑکا کیسا چل رہا ہے۔ تب مجھے چچا کا جسمانی زمرہ منفرد سا لگا تھا کہ لڑکپن کی پہلوانی کی بدولت گردن ایک طرف جھکی ہوئی اور دایاں مونڈھا بائیں سے ذرا اونچا۔ بعد میں پتا چلا کہ آپ کے نظریاتی  مونڈھے بھی اوپر نیچے ہیں۔ اونچ نیچ کا یہ احساس واہ کینٹ میں پہلے ایک ہی سرکاری گھر اور پھر قریب قریب رہتے ہوئے ہوا۔ چچا یعقوب نے ہماری نشوونما پہ نظر تو رکھی، مگر زیادہ توجہ کارک والی سرخ گیند سے آف بریک، لیگ بریک اور گوگلی پھینکنے پر رہی۔ پر جی، دسویں جماعت کا امتحان ختم ہونے کی دیر تھی کہ ایس ایم اختر کی ’ماڈرن اکنامکس‘ اور داس اینڈ چیٹر جی والی ’پولیٹکس میڈ ایزی‘ مجھے تھما دی گئیں۔ یوں ایک  سلسلہ چل نکلا۔


   کتابوں کی مسلسل رسد اِس لئے بیزار کن نہ لگی کہ چاچا جی پیشہ ور ممتحن کے بر عکس ایسا سوال ہی نہ کرتے، جس سے میرے نیم پختہ مطالعہ کا پول کھل جاتا۔ ورنہ سوچیں کہ پندرہ سولہ سال کا لڑکا سید علی ہجویری کی کشف المحجوب، یورپی سیاسی افکار کی تاریخ اور اُس تحقیقی کتاب سے کتنا استفادہ کر سکا ہو گا،جس میں بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل کا تعلق وادیئ کشمیر سے جوڑا گیا ہے، جو دینی مطبوعات پڑھنے کو مِلیں اُن میں غلام احمد پرویز کے ماہنامہ ’طلوع اسلام‘ کے شمارے تھے اور ایک ابتدائی کتاب ’اسلامی معاشرت‘ جس کا سرنامہ ہے عورتوں، بچوں، کم پڑھے لکھے افراد اور سرکاری ملازموں کے لئے اسلام کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کا ذریعہ۔ مجھے یاد ہے کہ اُن  دنوں میری نیم تعلیم یافتہ دادی نے چاچا جی کے متعلق تشویش بھرے لہجہ میں کہا تھا ”سُنیا اے، ساڈا یعقوب طلوع اسلام پڑھدا اے“۔


روایتی بزرگوں کی دینداری اپنی جگہ، پر وہ جو نظم گو آفتاب اقبال شمیم نے کہا ہے ’وہی ہر روز کے مضموں میں لکنت خالی جگہوں گی‘۔ تو انسانی رویوں کی زمرہ بندیاں کرنے والوں کو کیسے سمجھاؤں کہ چچا یعقوب کو اپنے باطن کے ہرے گوشوں میں خالی جگہیں پر کرنے کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑے۔ یہ یونہی تو نہیں کہ سیالکوٹ میں امام علی الحق کے مزار سے لے کر بابا فرید، بلھے شاہ اور میاں محمد بخش تک کی بارگاہوں کا سفر طے کرتے ہوئے بھی وہ ایک ہاتھ میں عقلیت پسند علامہ پرویز کی کتابیں تھامے ہوتے اور دوسرے میں اُن آشفتہ سر دوستوں کے بازو جنہیں سلطان باہو نے ’لعلاں دے ونجارے‘  کا نام دیا تھا۔ مراد ہیں اڈہ پسروریاں سیالکوٹ کا باتونی تمباکو فروش ملک ہادی، ’پٹھانوں والی ڈھکی‘ کے حافظ صاحب اور لودھی پریس والے افتخار خان جو تہمد باندھ کر کانلے کرکٹ ٹورنامنٹ دیکھنے پہ اصرار کیا کرتے۔  


   تو کیا ہم اِسے چاچا جی کے متضاد رویوں کا چلن کہیں گے؟  میری رائے میں تو یہ محض لٹمس کا تضاد ہے جس کی سرخی اور نیل دو انتہاؤں کے بیچ کہیں نہ کہیں چپکے سے ہم رنگ ہو جاتے ہیں۔ ایلیٹ مذہبی نظریات کے دور میں ’جمہور مسلمان‘ کی خوشگوار اصطلاح میں نے چچا یعقوب ہی سے سنی تھی۔ خالق اور اُس کی مخلوق سے یکساں دلبستگی اُن کی دانشوری اور قلندری کے درمیان توازن کا نکتہ رہی                              ۔ میاں محمد صاحب نے یہی نکتہ اپنے انداز میں یو ں بیان کیا ہے:
خط کالا تے کاغذ چٹا، اؤں دکھلائی دیندا
چاننیاں وچ چھاں باغ دی، چمکاں نور مریندا

مزید :

رائے -کالم -