کسی بڑی تباہی کا اندیشہ اسے گرفت میں لے رہا تھا
مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط:69
لیکن اونا کی چھوٹی بہن نے دروازہ کھولا اور جھری سے باہر جھانکا۔ ” اونا کہاں ہے ؟“ یورگس نے سوال کیا۔ بچی نے نہ سمجھنے والے انداز میں اس کی طرف دیکھا اور کہا ” اونا ؟“
”ہاں۔“ یورگس نے جواب دیا ” کیا وہ یہاں نہیں ہے ؟“
”نہیں تو۔“ بچی نے جواب دیا۔ یورگس ایک دم پریشان ہوگیا۔ ایک لمحے بعد یادویگا آگئی اور بچی کے پیچھے سے جھانکا۔ یہ دیکھ کر کہ کون آیا ہے وہ معذرت چاہ کر پیچھے ہٹ گئی کیوں کہ وہ مناسب کپڑوں میں نہیں تھی۔
” اونا یہاں نہیں ہے ؟“یورگس نے پریشانی میں پوچھا۔
” نہیں۔“ یادوِیگا نے جواب دیا” تمھیں کیسے خیال آیا کہ وہ یہاں ہوگی ؟ کیا اس نے کہا تھا کہ وہ آئے گی ؟“
” نہیں “ یورگس نے جواب دیا ” لیکن وہ گھر نہیں آئی۔۔۔ اس لیے میں نے سوچا کہ وہ پہلے کی طرح یہاں آئی ہوگی۔“
” پہلے کی طرح؟ “ یادویگا نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
” وہ جو اس نے یہاں رات گزاری تھی۔“ یورگس نے وضاحت کی۔
” کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ “ یادویگا نے جواب دیا ” اونا نے ہمارے ہاں کبھی رات نہیں گزاری۔“
اسے اس کے الفاظ پر یقین نہیں آرہا تھا۔” کیوں؟؟۔۔۔ کیوں۔۔۔؟؟؟“ اس نے الجھن سے کہا، ”2 ہفتے پہلے۔ اس نے مجھے بتایا تھا۔۔۔ جس رات بہت برف پڑی تھی اور وہ گھر نہیں آسکی تھی۔“
” تمھیں ضرور کوئی غلطی لگی ہے۔“ اس نے پھر کہا ” وہ یہاں نہیں آئی۔“
اس نے خود کو سنبھالنے کے لیے دروازے کا سہارا لیا تو یادویگا نے دروازہ کھول دیا۔ وہ خود بھی اونا کو پسند کرتی تھی۔” تمھیں یقین ہے کہ تمھیں کوئی غلطی نہیں لگی؟ “ اس نے کہا ”ہو سکتا ہے اس نے کسی اور جگہ کا کہا ہو؟“
” اس نے یہیں کا کہا تھا۔ “ یورگس نے اصرار کیا ” اس نے مجھے تمھارے بارے میں تفصیل سے بتایا تھا،تمھاری طبیعت، تمھاری باتیں۔ کیا تمھیں پکا یقین ہے ؟ تم بھول تو نہیں رہیں ؟ تم خود تو نہیں کہیں گئی ہوئی تھیں؟“
” نہیں، نہیں۔ “ اس نے کہا۔۔۔ اندر سے ایک کمزور آواز آئی۔۔۔ ” یاد ویگا، کیا بچے کو ٹھنڈ لگوانی ہے۔ دروازہ بند کردو!“
یورگس کچھ پل مزید رکا لیکن کچھ کہنے کو تو تھا نہیں اس لیے وہ معذرت کر کے لوٹ آیا۔
وہ نیم ہوش کے عالم میں تھا اور اسے خبر نہیں تھی کہ وہ کدھر جا رہا ہے۔اونا نے اسے دھوکا دیا تھا۔اس نے اس کے ساتھ جھوٹ بولا تھا۔ اس کا کیا مطلب تھا۔۔۔ وہ کہاں رہی تھی ؟ اس وقت وہ کہاں تھی ؟ اس کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ سیکڑوں الٹے سیدھے خیال اس کے ذہن میں آرہے تھے۔ کسی بڑی تباہی کا اندیشہ اسے گرفت میں لے رہا تھا۔
چوںکہ کرنے کو اور کچھ نہیں تھا اس لیے وہ دوبارہ ٹائم آفس کے باہر جاکر کھڑا ہوگیا۔ وہ7 بجے کے بعد بھی 1 گھنٹا کھڑا رہا پھر اونا کی فور لیڈی سے پوچھنے کے لیے اس کمرے کا رخ کیا جہاں اونا کام کرتی تھی۔ اونا کی فورلیڈی ابھی نہیں آئی تھی۔ شہر سے آنے والی گاڑیاں قطار میں کھڑی تھیں۔ پچھلی رات پاور ہاؤس میں کوئی حادثہ ہوا تھا اس لیے گزشتہ شب سے کوئی گاڑی نہیں چل رہی تھی۔ البتہ گوشت لپیٹنے والی عورتیں اپنا کام کر رہی تھےں۔ جس لڑکی سے یورگس نے بات کی وہ بہت مصروف تھی اور کن اکھیوں سے اِدھر اُدھر بھی دیکھتی تھی کہ کوئی اسے باتیں کرتے دیکھ تو نہیں رہا۔ ایک آدمی جو اسے اونا کے شوہر کے طور پر جانتا تھا تجسس کی وجہ سے پاس آگیا۔
” ہوسکتا ہے اس کی وجہ یہ گاڑیاں ہوں۔ “ اس نے خیال ظاہر کیا ” ہو سکتا ہے وہ شہر گئی ہو اور گاڑیاں نہ ہونے کی وجہ سے واپس نہ آسکی ہو۔ “
” نہیں وہ کبھی شہر نہیں گئی۔ “ یورگس نے کہا۔
” ہو سکتا ہے۔“ اس آدمی نے کہا۔
یورگس کو لگا جیسے بات کرتے کرتے اس آدمی نے اور لڑکی نے جلدی میں ایک دوسرے کی طرف دیکھا ہو۔ اس نے فورا ً پوچھا، ” تم اس کے متعلق کیا جانتے ہو ؟“
لیکن اس آدمی نے دیکھا کہ باس اس کی طرف دیکھ رہا تھا لہٰذا اس نے اپنے ٹھیلے کو دھکیلتے ہوئے کہا، ” مجھ کچھ پتا نہیں۔۔۔ مجھے کیسے پتا ہوسکتا کہ تمھاری بیوی کہاں جاتی ہے ؟“
یورگس پھر باہر نکل آیا اور عمارت کے سامنے ٹہلنے لگا۔ساری صبح وہ اپنا کام بھول کر وہیں کھڑا رہا لیکن بے سود۔ دوپہر کے وقت وہ معلومات کے لیے پولیس اسٹیشن گیا پھر دوبارہ وہیں نگرانی کے لیے آکھڑا ہوا۔آخر سہ پہر کے قریب وہ گھر روانہ ہوگیا۔
وہ ایش لینڈ ایونیو سے گزر رہا تھا۔ گاڑیاں پھر چلنے لگی تھیں اور سب کی سب پائے دان تک مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔ انہیں دیکھ کر یورگس کو جانے کیوں اس مزدور کا طنزیہ جملہ یاد آگیا اور وہ بلا ارادہ ہی گاڑیوں کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ اس کی مونھ سے حیرت بھری کراہ نکلی اور اس کے پاو¿ں زمین میں گڑ کر رہ گئے۔
پھر وہ بھاگنے لگا۔ پورا ایک بلاک وہ گاڑی کے پیچھے بھاگتا رہا۔ پرانا سیاہ ہیٹ جس میں کمھلایا ہوا پھول لگا تھا۔ وہ اونا نہیں ہو سکتی تھی لیکن اس سے مشابہت بہت زیادہ تھی۔ ابھی پتا چل جائے گا، اس نے سوچا، گاڑی نے2 بلاک دور تو رکنا ہی ہے۔ اس نے بھاگنا ترک کردیا اور گاڑی کو جانے دیا۔( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔