صحافی جرائم کی زد میں۔عالمی رپورٹ
دنیا بھر کے صحافیوں کو جرائم سے تحفظ دلانے،آزاد صحافت کو یقینی بنانے اورانھیں بنیادی حقوق و انصاف کی فراہمی کے لئے اقوام متحدہ کے زیراہتمام ہر سال 2نومبر کو صحافیوں کے خلاف جرائم کے استثنیٰ کے خاتمہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس عالمی دن کی مناسبت سے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے عالمی برادری اور رکن ممالک پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دنیا بھر کے صحافیوں سے یکجہتی کے لئے کھڑے ہوں، صحافیوں اور میڈیا کارکنان پرہونے والے جرائم کی تحقیقات اور مقدمات کے لئے سیاسی عزم کا اظہار کریں۔ اقوام متحدہ اس سال صحافیوں کی سلامتی کے لئے ایکشن پلان کی دسویں سالگرہ بھی منارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2006سے 2020تک رپورٹنگ اور معلومات عوام تک پہنچانے کے دوران دنیا بھر میں تقریبا 1200سے زائد صحافی مارے جاچکے ہیں جبکہ ہر دس میں سے نو کیسز میں قاتلوں کو سزا نہیں ملی۔ایک عالمی سروے کے مطابق 73فیصد خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ انھیں صحافتی فرائض کے دوران دھمکیوں اور توہین آمیز رویہ کا سامنا رہتا ہے۔ یونیسکو رپورٹ کے مطابق سن2016 سے سن 2020 کے دوران تقریبا 400صحافیوں کو ان کی ڈیوٹی کے وقت قتل کیا گیااور سن2020 میں 274 صحافیوں کو قید کیا گیا جوکہ تین دہائیوں میں سب سے زیادہ سالانہ تعداد بنتی ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کی ایک عالمی تنظیم ”کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس“نے اپنی رپورٹ میں سن 2021کے دوران بھارت اور میکسیکو کو صحافیوں کے لئے مہلک ترین ملک قرار دیا تھا۔
برصغیر میں اردو ادب میں صحافت کا پہلا شہید مولوی محمد باقر کو کہا جاتا ہے۔ہندوستان میں جب انگریزوں کے مظالم حد سے زیادہ بڑھنے لگے تو علامہ سیدباقر دہلوی نے انگریزوں کا دیا ہوا عہدہ چھوڑ کران کے خلاف قلم اُٹھانے کا فیصلہ کیا اور سن 1837میں اُردو کے پہلے باقاعدہ اخبار”اخبار دہلی“ کا آغاز کیا۔”اخبار دہلی“ ایک ہفت روزہ اخبار تھا جس کی ماہانہ قیمت دو روپے تھی۔ہندوستان میں یہ اُردو کا پہلا ایسا عوامی اخبار تھا جس میں ”حضوروالا“ کے عنوان کے ساتھ مغل بادشاہ اورشہزادوں کی خبروں کے علاوہ”صاحب کلاں“ عنوان کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کی خبریں بھی شائع کی جاتی تھیں۔ اخبار میں دیگرسیاسی و تعلیمی سرگرمیوں، مذہبی مضامین، ادبی تحریریں اور معروف شعراء مومن، ذوق، غالب، بہادرشاہ ظفراور زینت محل کا کلام بھی شائع کیا جاتا تھااس کے باوجودخبار کا اصل مقصد ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانا تھا۔ 10 مئی 1840کو اخبار کا نام ”اخبار دہلی“سے تبدیل کرکے ”دہلی اُردو اخبار“ رکھ دیا۔اخبار عوام میں مقبول ہونے لگا اور مولوی محمد باقر ایک مشہور صحافی بن گئے۔
مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دور کے آخری عرصہ میں جب عید الاضحیٰ آئی تو بہادر شاہ ظفر نے گائے کی قربانی پر پابندی لگادی تاکہ انگریز سازش کرکے ہندو،مسلم فساد برپا نہ کروادسکیں ادھرمولوی محمد باقر بھی اپنے اخبار اور تحریروں کے ذریعے نہ صرف ہندو،مسلم فساد روکنے اور باہمی اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہے بلکہ انگریزوں کی ہر نئی سازش کو ناکام بھی بناتے رہے جب انھوں نے اپنے اخبار میں آزادی کی جنگ کے تمام ترحالات و واقعات کی رپورٹنگ(آنکھوں دیکھا حال) اور قلمی نام سے مضامین شائع کرنا شروع کئے تو انگریز حکومت بوکھلاہٹ کا شکارہوگئی۔انگریز حاکمین مولوی محمد باقر کے سخت خلاف ہوگئے اور ان کو جان سے مارنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔نگریزوں نے جب دہلی پر دوبارہ قبضہ کرلیا تو انھوں نے ایک سازش کے تحت مولوی محمد باقرکو ایک ایسے انگریز کے قتل کے جرم میں گرفتار کرلیاجودہلی کے ہجوم کی مارپیٹ سے ہلاک ہوگیا تھا۔مولوی محمد باقر کو گرفتار کرنے کے بعد جب میجر ولیم اسٹیفن رائیکس ہڈسن کے سامنے پیش کیا گیاتو اس نے مقدمہ چلائے بغیر انگریز حکمرانوں کی خواہش کے مطابق مولوی محمد باقر کو توپ کے گولے سے شہید کرنے کاحکم سنادیا چنانچہ مولوی محمد باقر کو16ستمبر 1857 کو دہلی دروازے کے سامنے میدان میں توپ کا گولہ مار کر شہید کردیا گیابعض حوالہ جات میں گولی مار کر شہید کرنے کا بھی تذکرہ موجود ہے۔اس طرح مولوی محمد باقر اردو صحافت کے پہلے شہید صحافی تھے جنھیں انگریزوں نے انوکھی سزا سنائی تھی۔