لانگ مارچ اور عوام کی مشکلات
ملک کی معاشی بدحالی کو درست اور بہتر سمت پر لانے کے لئے حکومت اور متعلقہ ماہرین کی محنت و مہارت بروئے کار لانے کی فوری اور اشد ضرورت ہے پی ڈی ایم کے اتحادی رہنما باہمی مشاورت کے بعد واضح الفاظ میں متعدد بار اس امر کا اعلان کر چکے ہیں کہ عام انتخابات کا انعقاد آئندہ سال ماہ ستمبر یا اکتوبر میں ہونے کا امکان ہے۔ پی ڈی ایم رہنماؤں نے گزشتہ چند ماہ سے سابق وزیر اعظم عمران خاں کی جانب سے انتخابات کے فوری اعلان کے مطالبہ کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے لیکن عمران خان اپنا یہ مطالبہ تسلسل سے جاری رکھ کر لانگ مارچ کے عملی اقدام کو اب بھی ترجیح دے رہے ہیں جو جاری ہے اور آئندہ چند روز میں اس کے اختتام کے انجام کی کوئی پیش گوئی کرنا مشکل ہے کیونکہ تا حال وفاقی حکومت کے اتحادی فریقین بھی اپنے اس موقف پر جرات و ہمت سے قائم نظر آتے ہیں کہ عمران خان کو آئندہ انتخابات کے جلد اعلان کی بجائے ملکی آئین کے تحت مقررہ وقت پر انتخابات کے انعقاد کا انتظار کرنا ہوگا۔ ملک کے غیر جانبدار جائزہ کار حضرات و خواتین کی اکثریت بھی قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر عمران خان کو اپنے اس غیر آئینی مطالبہ پر اصرار اور تسلسل کی رٹ لگانے کی بجائے فوری طور پر ترک کرنے کا مشورہ دے رہی ہے تاکہ ملکی معیشت کی جلد بحالی کے لئے تعمیر و ترقی کے منصوبوں کو دستیاب مالی وسائل کے اندر رکھا جائے۔
ابھی تو صوبہ سندھ اور بلوچستان میں کئی اضلاع کے وسیع علاقوں میں سیلابی پانی کھڑا ہے اسے اردگرد کے نشیبی حصوں، ندی، نالوں یا شہری اراضی کی طرف بھی بہایا یا نکالا نہیں جا سکا۔ یہ مشکل اور مجبوری ابھی درپیش ہے۔ اس پانی سے بدبو و تعفن پھیلنے مچھر کی افزائش ہونے سے بیماریاں پھیل چکی ہیں۔ متاثرہ علاقوں کے لا تعداد افراد اپنے گھروں میں جانے سے تا حال قاصر ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی گزشتہ چند ماہ سے مسلسل بند ہیں یوں ان علاقوں کے طلبہ اور طالبات کا حصول تعلیم کا قیمتی وقت بھی ضائع ہو رہا ہے۔ وفاقی اور متعلقہ صوبائی حکومتوں کے لئے ان سیلاب متاثرین کو اپنے گھروں میں واپس لا کر معمول کی زندگی بحال کرنے کی تا حال سہولتیں فراہم کرنا کوئی آسان معاملہ نہیں ہے کیونکہ ان امور کے لئے کثیر مالی اخراجات کی ضرورت ہے۔ مہنگائی لوگوں کے لئے خاصا مشکل مسئلہ بنی ہوئی ہے مہنگائی صوبہ پنجاب میں بھی اشیائے خورو نوش کے حصول کے لئے عوام کی تکلیف و اذیت میں شب و روز کے لئے ایک بڑا سبب ہے۔ اس پر قابو پانا پنجاب حکومت کی اہم بلکہ اولین اور فوری ذمہ داری ہے۔ پنجاب میں اکثر و بیشتر مقامات پر لوگ اس مہنگائی کا شکوہ کرتے ہوئے اپنے مسئلہ کے حل کے لئے گزارشات کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ حکومت کو عوام کے استعمال کی اشیائے خورد و نوش کی کم قیمت پر فراہمی کا انتظام درست کرنے کے لئے گراں فروش ذخیرہ اندوز اور سمگلنگ کرنے والے لوگوں کی غیر قانونی اور سماجی دشمن سرگرمیوں کا آہنی طریقوں سے قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ لوگ عادی مجرموں کی طرح اپنی منفی حرکات جاری رکھ کر مصنوعی مہنگائی پیدا کرتے ہیں۔
عوام کی مذکورہ بالا پریشانی پر توجہ دینا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جلد اور ترجیحی ذمہ داری ہے۔ اس لئے عمران خان گروپ کو عوام کی مشکلات سے عدم توجہی اور چشم پوشی سے کام نہیں لینا چاہئے انہیں بخوبی علم ہے کہ آج کل وہ خود اور ان کے ساتھی وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی شرکت کرنے سے گریزاں ہیں اور نہ وہ گزشتہ کئی ماہ سے اس قومی فورم میں آکر قانون سازی یا قانونی اصلاحات کی درست اور بہتری کے لئے اپنی استعداد سے تجاویز دینے پر مائل و راغب ہیں۔ اس بارے میں دیگر کسی غیر متعلقہ رہنما یا شخص کو اپنی پسند یا خواہش کا اظہار کرنا یا اس پر اصرار کر کے عمل درآمد پر زور دینا سراسر غیر متعلقہ اور غیر آئینی انداز فکر و عمل کا رجحان ہے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اس ذمہ داری کی انجام دہی کے لئے ایسے مطالبہ یا تجویز کو تسلیم کرنے کے کسی طور پابند نہیں اس کا حل یہ ہے کہ عمران خان اپنی اس خواہش کو ترک کر کے حقائق کی دنیا میں واپس آئیں اور وہ جلد لانگ مارچ کا احتجاجی مظاہرہ ختم کر کے عوام اور حامی افراد کی مشکلات میں کمی کریں۔