انڈیا کی میڈیسن انڈسٹری 

  انڈیا کی میڈیسن انڈسٹری 
  انڈیا کی میڈیسن انڈسٹری 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اگلے روز میں بین الاقوامی شہرت کے حامل ایک انگریزی روزنامے کے صفحہ اول پر شائع ہونے والی ایک خبر دیکھ رہا تھا جس کا عنوان تھا: ”انڈیا ایسی ادویات بنا رہا ہے جن سے موت واقع ہو سکتی ہے“۔
یہ انڈیا ہی پر منحصر نہیں کسی بھی ملک میں بننے والی ادویات موت کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ مجھے تجسس ہوا کہ دیکھوں کون سی ایسی دوا ہے جو ’میڈ اِن انڈیا‘ ہے اور اس کے کھانے سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
آپ اسے پاگل پن ہی کہہ لیں کہ میں آرمی جوائن کرنے سے بھی پہلے ہر انگریزی دوا خواہ وہ گولیوں کی شکل میں ہوتی تھی یا مائع (سیرپ) کی شکل میں، خواہ کیپسول اور خواہ انجکشن کی صورت میں، جب بازار سے خرید کر لاتا تھا تو اس کے اندر رکھا ہوا ایک کاغذ ضرور پڑھتا تھا جس میں اس دوا کے اجزائے ترکیبی، فوائد و نقصانات، طریقہء استعمال، جانبی اثرات (Side Effects) وغیرہ سب درج ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ عادت پختہ ہوتی چلی گئی اور جب فوج میں آیا اور خود اپنی اور اپنے اہل و عیال کے مختلف امراض سے واسطہ پڑا اور فوجی ہسپتالوں (CMHs) میں آنا جانا شروع ہوا تو یہ عادت اور بھی پختہ ہو گئی۔ بعض جانبی اثرات تو اتنے زیادہ ہوتے تھے کہ میں ڈاکٹر سے پوچھا کرتا تھا کہ یہ دوا اگر ایک مرض کا علاج ہے تو اس سے درجنوں دوسرے امراض بھی لاحق ہو جاتے ہیں، آپ ایسی ادویات کیوں دیتے ہیں؟……


وہ ہنس کے جواب دیا کرتے تھے کہ غیر ملکی دوا ساز کمپنیاں چونکہ بین الاقوامی سکیل پر ان ادویات کو فروخت کرتی ہیں اس لئے ہر اس سائیڈ ایفکٹ کو لکھ دیتی ہیں جس کا ذرہ بھر بھی احتمال ہوتا ہے تاکہ کوئی مریض اگر یہ دوا کھانے سے کسی موذی مرض کا شکار ہو جائے تو عدالت میں کمپنی کے خلاف مقدمہ درج نہ کروا سکے۔ یورپین اور امریکن دوا ساز کمپنیوں کو بارہا لاکھوں ڈالر اس وجہ سے کسی مریض کو ادا کرنے پڑے کہ اس بے چارے نے الف مرض کی دوا لی اور اسے ب یا ج مرض نے آن گھیرا جو لا علاج بتایا جاتا ہے۔ اس لئے آپ ان جانبی اثرات کو زیادہ درخورِ اعتناء نہ گردانا کریں۔ جب کوئی ڈاکٹر کوئی دوا آپ کو دیتا ہے تو اسے بہت سی ایسی علامات اور وجوہات وغیرہ کا بھی دھیان رکھنا پڑتا ہے جو ہر مریض کی انفرادی میڈیکل ہسٹری میں پائی جاتی ہیں اور صرف ڈاکٹر ہی اس امر کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ آپ کو کون سی دوا دینی ہے اور کون سی سے اجتناب کرنا ہے…… لیکن میں پھر بھی آج تک ’پرچہء ترکیبِ استعمال‘ کے ”مطالعے“ سے باز نہیں آتا اور بسا اوقات اس کے مثبت اثرات بھی حاصل ہوتے ہیں۔ میں اس تفصیل میں جا کر آپ کا وقت ضائع نہیں کروں گا۔


چونکہ اس مذکورہ بالا خبر میں انڈیا کا ذکر تھا اور انڈیا کی ناکامی کا بھی تذکرہ تھا اس لئے میں نے اول سے آخر تک اس خبر کو پڑھا اور آپ کے ساتھ اس لئے شیئر کر رہا ہوں تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ بعض ادویہ جو کسی ایک مریض کو آرام پہنچاتی ہیں وہ کسی دوسرے کی موت کا سبب بھی بن سکتی ہیں …… خبر میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ دنوں گیمبیا (Gambia) میں 70 بچے کھانسی کا شربت پینے سے انتقال کر گئے۔ گیمبیا تو مغربی افریقہ میں ایک نہائت چھوٹا سا ملک ہے۔ لیکن اس کی زیادہ تر ادویات انڈیا سے درآمد کی جاتی ہیں، جن میں یہ کھانسی کا شربت بھی تھا۔گیمبیا افریقہ کا سب سے چھوٹا ملک ہے جس کا رقبہ صرف چار ہزار مربع میل اور آبادی 25لاکھ ہے۔اس آبادی کا 97 فیصد حصہ مسلمان ہے۔ میں نے نقشے پر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ ملک صرف ایک دریا (دریائے گیمبیا) کے دو کناروں پر بسایا گیا ہے۔ یہ دریا مشرق کے پہاڑوں سے نکل کر مغرب میں بحراوقیانوس میں جا گرتا ہے۔ دارالحکومت کا نام بنجول (Banjul) ہے۔ جتنی جنگلی حیات گیمبیا میں پائی جاتی ہے وہ افریقہ کے کسی دوسرے ملک میں (بلحاظ رقبہ) نہیں پائی جاتی۔ نظام حکومت صدارتی ہے۔ 1965ء تک یہاں برطانیہ حکمران رہا۔ لوگ خوشحال ہیں۔ زراعت، ماہی گیری اور سیاحت یہاں کے بڑے بڑے پیشے ہیں۔البتہ دیہاتی علاقوں میں غربت اور شہروں میں امارت دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن دیہاتوں میں آبادی کی شرح یہ ہے کہ ہر گھر میں 6 سے 8تک بچے پیدا ہوتے ہیں جن میں سے دوتہائی اکثر جوانی کی عمر تک پہنچتے پہنچتے راہیء ملکِ عدم ہو جاتے ہیں۔ شہروں اور دیہاتوں میں ادویات کی دکانوں کی کثرت ہے۔ انڈیا سے جو ادویات درآمد کی جاتی ہیں وہ امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک کے مقابلے میں انتہائی سستی ہیں۔ خبر میں کہا گیا تھا کہ کف سیرپ جو انڈیا سے خریدا جاتا ہے وہ ارزاں تو ہے لیکن زیادہ اموات اسی سیرپ کے استعمال سے ہوتی ہیں!


انڈیا میں دیسی جڑی بوٹیوں سے مختلف امراض کی دوائیں تیار کی جاتی ہیں اور انہیں سستے داموں دساور کو برآمد کیا جاتا ہے۔ یادش بخیر کافی برس پہلے میں نے  Time میگزین میں چار صفحات کا ایک رنگین آرٹیکل پڑھا تھا جس میں نیم کے درخت سے بنائی جانے والی بہت سی ادویات شامل تھیں مثلاً نیم کا صابن، نیم کا منجن، نیم کا اینٹی بایو ٹک لوشن اور نیم کا کف سیرپ وغیرہ…… اس آرٹیکل میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ انڈیا کے صوبہ گجرات میں نیم کے درخت بڑی کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔ دہلی، ممبئی اور کول کتہ سے دوا ساز کمپنیاں ان درختوں کو خرید لیتی ہیں۔ جن گھروں میں نیم کا درخت ہوتا ہے ان کو یہ کمپنیاں ہر سال ایک معقول ایڈوانس رقم دے دیتی ہیں۔ نیم کے پتے اور پھل (نبولی) سال میں دو مرتبہ دوا ساز کمپنی کے اہلکار خود آکر لے جاتے ہیں اور ان سے مختلف اقسام کی ادویات وغیرہ تیار کرتے ہیں۔ دیسی جڑی بوٹیوں میں نیم کا درخت ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ خود پاکستان میں بھی نیم کے پتے، نبولیاں اور شاخیں وغیرہ بہت سی بیماریوں کا علاج سمجھی جاتی ہیں۔ تقریباً 5،7 برس قبل میں نے اپنے پچھلے لان میں دو نیم اور دو سوہانجنے کے درخت لگائے تھے۔ دونوں کی اونچائی اب 20،25 فٹ تک ہو گئی تھی اور ان کو نبولیاں اور پھلیاں لگتی ہیں لیکن آرمی نے حال ہی میں عسکری کالونیوں کی (Relifing) کا جو پروگرام شروع کیا ہے اس میں پھلدار درختوں کے علاوہ باقی تمام درخت مثلاً جنگلی شہتوت، سنبل، اسٹونیا، سوہانجنا، نیم وغیرہ کو کاٹ ڈالا گیا ہے۔ اب تمام گھروں کے گراؤنڈ فلوروں کے اگلے پچھلے دونوں (Lawns) کے Hedge اور گھاس بھی اکھاڑ دیئے گئے ہیں اور اس کی جگہ نیا گھاس لگایا گیا ہے۔ جہاں میری رہائش ہے (عسکری ون) اس میں 7،8 سو گھر ہیں۔ اب ان گھروں کی نچلی منزلوں کے لانوں میں چند پھلدار درخت باقی ہیں، باقی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ دیکھنے میں تو یہ جھاڑ جھنکار کا خاتمہ ایک صاف ستھرا منظر (View) پیش کرتا ہے لیکن ”سبزہ و گل“ کی اپنی ”بہار“ ہوتی ہے۔


ہم انڈین ادویات کی باتیں کر رہے تھے…… کچھ عرصے سے انڈیا اپنے آپ کو ”ورلڈ فارمیسی“ کہلانے لگا ہے۔ ملیریا، اسہال،نزلہ، بخار، کھانسی اور اس طرح کی عام بیماریوں کے لئے انڈین ادویات کی مانگ اس لئے زیادہ ہے کہ ان کی قیمت بہت کم ہے۔ انڈیا کی یہ انڈسٹری اب 50ارب ڈالر کی حد کراس کر چکی ہے۔ آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں کہ انڈیا اس وقت دنیا میں ادویات سازی کی تیسری بڑی مارکیٹ ہے۔ انڈیا اس وقت ساری دنیا کی 60فیصد ویکسین اور 20فیصد گولیاں اور کیپسول مینوفیکچر کر رہا ہے۔ کورونا کے ایام میں انڈیا کی ویکسین کا برآمدی حجم 20فیصد بڑھ گیا تھا۔ امریکہ میں ہر تیسری گولی (Pill) اور یورپ میں ہر چوتھی گولی انڈیا سے آ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر گیمبیا میں انڈین کف سیرپ وغیرہ سے کثیر تعداد میں بچوں کی اموات چہ معنی دارد؟


اس کا جواب یہ ہے کہ انڈیا جو ادویات مغربی (امریکی اور یورپی) ممالک کو بھیجتا ہے ان کا کوالٹی کنٹرول اعلیٰ قسم کا ہے اور افریقہ جیسے ممالک میں جو انڈین ادویات برآمد کی جاتی ہیں ان کی کوالٹی پر زیادہ توجہ نہیں جاتی۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یورپ اور امریکہ اپنے محکمہ ہائے صحت کی ٹیمیں گاہے بگاہے انڈیا بھیجتے رہتے ہیں جو دوا ساز کمپنیوں کے ہاں وزٹ کرکے موقع پر کوالٹی چیکنگ کرتے ہیں۔ یہ سہولت ان ممالک میں موجود نہیں جو ایسا نہیں کر سکتے۔ ایشیائی اور افریقی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ انڈیا جو ادویات مغرب کو برآمد کرتا ہے، وہی ان کو بھی فروخت کی جا رہی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے اور بفرضِ محال کوئی افریقی/ ایشیائی ملک یہ بوجھ اٹھاتا بھی ہے تو بھارت کی دوا ساز کمپنیاں اور ادارے ان سے ”سودا بازی“ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
پاکستان میں بھی بعض انڈین ادویات (ویکسین، شربت، گولیاں اور کیپسول) گاہ گاہ مارکیٹ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مجھے اس کا ذاتی تجربہ ہے۔ جب مجھے 2019ء میں کورونا کی وجہ سے CMHلاہور میں 40روز تک رہنا پڑا تھا تو وہاں ایک نہایت مہنگی ویکسین کا تذکرہ ڈاکٹروں کی زبانی سنا تھا جو پاکستان خریدنے پر اس لئے مجبور تھا کہ اس کا بدل کہیں اور دستیاب نہ تھا!

مزید :

رائے -کالم -