عمرا ن خان نے فائرنگ واقعے کو خود متنازعہ بنا دیا ہے: میاں افتخار

عمرا ن خان نے فائرنگ واقعے کو خود متنازعہ بنا دیا ہے: میاں افتخار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


         پشاور(سٹی رپورٹر)عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ عمران خان نے خود لانگ مارچ میں فائرنگ کے واقعے کو متنازعہ بنادیا ہے۔ عمران کی طرز سیاست ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل رہی ہے۔ وزیرآباد واقعہ افسوسناک تھا، اے این پی پہلے ہی نہ صرف مذمت بلکہ شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرچکی ہے۔ چار گولیاں لگنے اور مرضی کی رپورٹ لکھوانے کیلئے ڈرامہ کیا جارہا ہے۔ میڈیکولیگل رپورٹ کیلئے جانے والی ٹیم کو عمران سے ملنے کیوں نہیں دیا گیا۔ پشاور پریس کلب میں مرکزی ترجمان زاہد خان، سیکرٹری خارجہ امور سید عاقل شاہ، صوبائی سینئر نائب صدر خوشدل خان ایڈوکیٹ، نائب صدر شاہی خان شیرانی، ایم پی اے شگفتہ ملک اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ سیاسی لوگ میدان میں دلیل اور منطق سے مقابلہ کرتے ہیں۔ عمران سے سیاسی اختلاف تھا، لیکن تشدد کی حمایت کسی صورت نہیں کریں گے۔ ہم باچا خان کے پیروکار ہیں، عدم تشدد ہمارانظریہ ہے۔ سیاسی مقاصد کیلئے تشدد کا استعمال نہ پہلے قابل قبول تھا اور نہ اب۔ واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں لیکن عمران جو زبان استعمال کررہا ہے وہ بھی کسی طور درست نہیں۔ واقعے کی اعلی سطح تحقیقات کی جائیں اور تمام حقائق سامنے لائے جائیں۔ تحقیقات سے قبل الزام تراشیاں اور مطالبے کسی طور مناسب نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران یہ سمجھتے ہیں کہ لانگ مارچ سے انکو وزیراعظم کی کرسی واپس مل جائے گی تو یہ انکی بھول ہے۔ عمران کی نظر میں جب تک وہ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھا تھا اس وقت سب ٹھیک تھا۔ کرسی گئی تو الیکشن کمیشن سمیت تمام ادارے خراب ہوگئیہیں۔ عدم اعتماد سے قبل پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے آزاد اور شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت تحریک انصاف انتخابات سے کیوں بھاگ رہی تھی؟ عمران نے اپنے دور حکومت میں جمہوریت کو بدنام اور پارلیمان کو بے قدر کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ پی ٹی آئی دورحکومت میں مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ اور اداروں کو تباہ کیا جارہا تھا۔ آج جب ایک آئینی طریقے سے اس کو منصب سے ہٹا دیا گیا ہے تو اب جمہوریت کا چیمپئن بن رہا ہے۔ فائرنگ واقعے کی ایف آئی آر معاملے بارے گفتگو کرتے ہوئے میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ تین سال وزارت عظمی کی کرسی پر رہنے کے باوجود عمران آج تک قانون اور آئین سے نابلد ہیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، واقعے کی ایف آئی آر تاحال کیوں درج نہیں کی گئی۔ تحریک انصاف مقدمہ درج کرانے سے کیوں کترا رہی ہے۔ ایف آئی آر درج نہیں ہوگی تو تحقیقات کیسے ہوں گی اور ملوث کردار کسطرح سامنے آئیں گے۔ قانون کی بجائے پسند کاسیاسی مقدمہ درج کرنے کی ضد حقائق کو سامنے لانے میں رکاوٹ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سینیٹر اعظم سواتی کی مبینہ لیک ویڈیو کا واقعہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ واقعے کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی کا قیام احسن قدم ہے۔ چادر اور چاردیواری کے تقدس کو کسی صورت سیاسی محاذآرائی میں ڈھال نہیں بنانا چاہیئے۔ کسی کی ذاتی زندگی کو نشانہ بناناپستی کی انتہا اور معاشرت کو داغدار کرانے کی مترادف ہے۔ ایف آئی اے کی فرانزک رپورٹ ویڈیو کو جعلی قرار دے چکی ہے لیکن تحقیقات ضروری ہیں۔اعظم سواتی اور انکے خاندان کی تسلی کرنی ہوگی اور جو بھی ملوث ہو اسکو قرار واقعی سزا دینی چاہیئے۔ میاں افتخار حسین کا مزید کہنا تھا کہ صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کو بھی قوم کے سامنے لایا جائے۔ ارشد شریف واقعے کو بھی تحریک انصاف نے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ پی ٹی آئی نے ارشد شریف کو انصاف فراہم کرنے کی بجائیالزام تراشیاں کی۔یہ رویہ کسی بھی طور درست نہیں اور مسائل حل کرنے کی بجائے مزید مشکلات کا باعث بنے گا۔ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا شروع ہی سے مطالبہ ہے کہ تمام اداروں کو آئینی دائرہ اختیار میں رہنا ہوگا۔ سیاسی فیصلوں کا اختیار صرف پارلیمان کو حاصل ہے، چاہے جو بھی ہو، آئین اور قانون سے بالاتر نہیں۔آج ادارے خود سیاسی میدان سے دور اور نیوٹرل رہنے کی بات کررہے ہیں۔ عمران ان حالات میں نیوٹرل کو جانور، میر صادق اور میر جعفر قرار دے رہے ہیں۔عمران خان کی نظر میں صرف وہی لوگ اچھے ہیں جو اسکی ہر جائز ناجائز مانے۔عمران کے پاس اگر اکثریت ہے تو پارلیمان میں مقابلہ کرے نہ کہ سڑکوں پر۔ آج بھی عمران کو وزیراعظم بناکر اسکی مرضی کاآرمی چیف لگادیا جائے تو وہ سب ٹھیک تسلیم کرلے گا۔ عمران خان کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ آئین اور قانون سب سے مقدم ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے مشکل معاشی حالات میں اقتدار سنبھالا ہے۔ عمران نیاپنے دور حکومت میں ملک کو دیوالیہ بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔آج حالات بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں تو عمران خان ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہا ہے۔عمران خان ڈر رہے ہیں کہ اگر حالات ٹھیک ہوئے تو اسکی سیاست ختم ہوجائے گی۔ ملک میں اسطرح کا ماحول عوام کے مسائل میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ پاکستان ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے، ہر قدم سوچ سمجھ کر لینا ہوگا۔ پختونخوا میں بدامنی بارے میاں افتخارحسین کا کہنا تھا کہ باقی پاکستان میں اقتدار کی جنگ جاری ہے جبکہ پختون امن کے طلبگار ہیں۔ پختونخوا کے مختلف علاقوں میں دہشتگردوں کا دوبارہ ظہور ایک نئی جنگ کا اشارہ ہے۔ہم پچھلے کئی عرصے سے دہشتگردوں کے منظم ہونے بارے خبردار کررہے تھے لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں تھا۔ ہم نے بتایا تھا کہ اس دفعہ اگر آگ لگی تو تباہی پہلے سے زیادہ ہوگی۔ عام عوام کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور لوگوں سے بھتے لئے جارہے ہیں۔ مذاکرات سے انکار نہیں کرتے لیکن پارلیمان کو اعتماد میں لئے بغیر مذاکرات قبول نہیں۔ جنہوں نے دہشتگردوں کے ہاتھوں اپنے کھوئے ہیں، اس عمل سے انکو کیسے باہر رکھ سکتے ہیں۔ اے این پی مطالبہ کرتی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے حقائق سامنے لائیں جائیں۔ قوم کو بتایا جائے کہ کن شرائط پر طالبان سے مذاکرات کئے گئے ہیں؟ یہ بھی وضاحت کی جائے کہ صوبائی حکومت کے ترجمان نے کس حیثیت میں مذاکرات میں شرکت کی ہے؟سوات، بونیرسے لیکر باجوڑاور و زیرستان تک عوام کا بدامنی کے خلاف یک آواز ہوکر نکلنا نیک شگون ہے۔ ان کا مزیدکہنا تھا کہ دہشتگردی اور بدامنی کے حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے۔4 نومبر کوپختون امن مارچ میں عوام کی کثیر شرکت نے ثابت کیا کہ عوام امن چاہتے ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی بدامنی کے خلاف اور امن کے قیام کے لئے صف اول کا کردار ادا کرے گی۔ امن ہوگا تو عوام چھین کی زندگی بسر کریں گے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔

مزید :

صفحہ اول -