وہ غور سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا، اس کی آنکھوں میں اچانک خوف کا سایہ لہراتے دیکھا
مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط:70
وہ عورت گاڑی سے اتری۔ جونہی وہ گلی مڑی یورگس دوڑنے لگا۔ اس کا شک بڑھ رہا تھا اور پیچھا کرنے میں اسے کوئی شرم محسوس نہیں ہورہی تھی۔ اس نے اس عورت کو اپنے گھر کے پاس موڑ مڑتے دیکھا تو پھر دوڑنے لگا۔ وہ ان کے گھر کا زینہ چڑھ رہی تھی۔ وہ پلٹا اور 5منٹ تک سڑک پر ٹہلتا رہا۔ اس کی مٹھیاں مضبوطی سے بند، ہونٹ بھِنچے ہوئے اور ذہن میں طوفان تھا۔پھر وہ گھر کی طرف چلا۔
دروازہ کھولتے ہی اسے الزبیٹا نظر آئی جو اونا کی تلاش میں گئی تھی اور ابھی لوٹی تھی۔ اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر یورگس کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ یورگس نے اس کے پاس آنے کا انتظار کیا۔
” شور مت کرنا۔“ اس نے جلدی سے سرگوشی کی۔
” بات کیا ہے ؟“ اس نے پوچھا۔
” اونا سو رہی ہے۔ “ اس نے جواب دیا، ” اس کی طبیعت بہت خراب ہے۔ مجھے ڈر ہے یورگس اس کے دماغ پر برا اثر ہوا ہے۔ رات وہ گھر کا راستہ بھول کر سڑک پر بھٹکتی رہی۔ میں نے بڑی مشکل سے اسے چپ کروایا ہے۔ “
” وہ گھر کب آئی تھی؟ “ اس نے استفسار کیا۔
” صبح تمھارے باہر جاتے ہی۔“ الزبیٹا نے جواب دیا۔
” کیا اس کے بعد وہ باہر نکلی تھی ؟“
” نہیں بالکل نہیں۔ وہ بہت کمزور ہے۔ یورگس وہ۔۔۔ “
اس نے دانت بھینچ لیے، ” تم مجھ سے جھوٹ بول رہی ہو۔“ اس نے کہا۔
الزبیٹا گھبرا گئی اور اس کا رنگ فق ہوگیا۔” ہیں !“ اس نے دبی دبی آواز میں کہا، ” کیا مطلب تمھارا؟ “
لیکن یورگس نے اسے کوئی جواب نہیں دیا اور اسے ایک طرف ہٹا کر سونے کی کمرے کی طرف بڑھا اور دروازہ کھول دیا۔
اونا بستر پر بیٹھی تھی۔وہ اندر داخل ہوا تو اونا نے ڈر کر اس کی طرف دیکھا۔ یورگس نے دروازہ بند کر کے الزبیٹا کو اندر آنے سے روک دیا اور اپنی بیوی کی طرف بڑھا۔ ” کہاں تھیں تم؟“ اس نے سوال کیا۔
اونا نے ہاتھ گود میں باندھے ہوئے تھے اور اس کا چہرہ کاغذ کی طرح سفید اور درد سے بھرا تھا۔ اس نے جواب دینے کی کوشش میں ایک دوبار مونھ کھول کر سانس لیا، پھر کہنے لگی، ”یورگس مجھے۔۔۔ مجھے لگتا ہے میرا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ میں کل رات گھر آرہی تھی مگر مجھے راستہ ہی یاد نہیں آیا۔۔ میں چلتی رہی۔۔۔ چلتی رہی۔۔۔ میرا خیال ہے شاید ساری رات۔۔۔ اور۔۔۔ اور میں صبح صبح۔۔۔ گھر پہنچی۔“
” تمھیں آرام کی ضرورت تھی۔۔۔“ اس نے بھاری آواز میں کہا، ” تو تم دوبارہ باہر کیوں گئی تھیں؟ “
وہ غور سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ اس نے اس کی آنکھوں میں اچانک خوف کا سایہ لہراتے دیکھا۔ ”وہ ۔۔ ۔ وہ مجھے دکان تک۔۔۔ جانا پڑا تھا۔۔۔ “
” تم مجھ سے جھوٹ بول رہی ہو۔ “ یورگس نے کہا۔
وہ مٹھیاں بھینچ کر اس کی جانب بڑھا۔ ” تم مجھ سے جھوٹ کیوں بول رہی ہو ؟“ وہ غصے سے چلّایا، ” تم ایسا کیا کر رہی ہو جس کی وجہ سے تمھیں مجھ سے جھوٹ بولنا پڑ رہا ہے ؟ “
”یورگس !“ اس نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا، ” اوہ یورگس ! تم میرے ساتھ ایسے کیسے بول رہے ہو ؟“
” میں کَہہ رہا ہوں کہ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا ہے۔“ وہ چیخا۔ ” تم نے بتایا تھا کہ تم اس رات یادویگا کے گھر رہی تھیں، کہا تھا نا ؟تم اُس رات بھی وہیں تھیں جہاں پچھلی رات رہ کر آئی ہو۔۔۔۔ شہر میں۔۔۔ میں نے تمھیں خود گاڑی سے اترتے دیکھا ہے۔۔۔ کہاں تھیں تم؟“
یہ جملہ ایسا تھا جیسے کسی نے اوناکے سینے میں چھری گھونپ دی ہو۔ اس کے حواس جواب دے گئے۔ ایک لمحہ نیم بے ہوشی کے عالم میں وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتی رہی پھر چیخ مار کر روتی ہوئی بانھیں کھول کر اس کی طرف دوڑی۔
وہ جان بوجھ کر ایک طرف ہٹ گیا اور اونا زمین پر گر گئی۔ اس نے بستر کا سہارا لے کر اٹھنے کی کوشش کی لیکن پھر ڈھیر ہوگئی اور ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔