یہاں کوتاہی ذوقِ عمل ہے خود گرفتاری 

Nov 08, 2022 | 11:39 PM

 مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی
قسط:44
”ہمہ یاراں دوزخ“ میں صدیق سالک کی سوچ کا محور ”خوئے ستمگر“ یعنی بھارت ہی رہا ہے۔ یہاں وہ خودا حتسابی کی طرف بہت کم آئے ہیں۔ زنداں تک پہنچنے میں اپنی قوم کا اجتماعی یا انفرادی کردار کیا تھا؟ ان تکلیف دہ سوالات کو انہوں نے نہیں چھیڑا جبکہ ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ میں انہوں نے دشمن کے بجائے اپنی کوتاہیوں پر زیادہ دھیان دیا ہے۔ ”ہمہ یاراںدوزخ“ جو موضوع ترتیب اور مزاج کے اعتبار سے نہ سہی واقعاتی طورپر ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ کی اگلی قسط ہے۔اس میں سالک نے سارا زورِ بیاں ہندوستان کے اصل چہرے کی ”نقاب کشائی“ پر صرف کیا ہے وہ شاعر کے اس خیال:
یہاں کوتاہی ذوقِ عمل ہے خود گرفتاری 
جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیّاد ہوتا ہے 
پر غور کرتے نہیںنظرآتے۔ ان کے جذبات کی ہر لہر بھارت سے شروع ہو کر بھارت پر ختم ہو جاتی ہے۔
مذہب سے لگاﺅ:
صدیق سالک نے اسیری کے مصائب میں مذہب کو بطور ڈھال استعمال کیا ہے۔ انہوں نے ذہنی و جسمانی تکالیف کے لیے مذہب کو مرہم پایا ہے خصوصاً قید تنہائی میں جہاں کوئی ذی روح موجود نہیں تھا وہاں صرف خدا کی ذات پر یقین ہی سب سے اہم تھا اس کیفیت کو یوں بیان کیا ہے:”ساری کائنات سمٹ کر میری ذات تک محدود ہو چکی تھی تمام دنیوی سہارے ٹوٹ چکے تھے وہاں نہ خاندانی وقار کام آیا نہ عہدے کا لحاظ اور نہ جرنیلوں کا قرب ہی آڑے آیا۔ نہ ذوقِ شعر و ادب۔ کا ئنات کی ہر چیز حقیر اور بے ثبات نظر آنے لگی۔ قصرِزیست کا کوئی ستون اگراب صحیح و سالم تھا تو وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان تھا اور ایسے وقت میں یہ ایمان اور بھی مستحکم اور قوی ہو جاتا ہے۔“ 
نماز پڑھنے کے متعلق لکھتے ہیں:
”نماز کا ایک ایک لفظ دل کی گہرائیوں میں اُترتا چلا گیا۔ ایاک نعبد و ایاک نستعینکا جو مفہوم اس کال کو ٹھڑی میں سمجھ میںآیا کبھی کوئی خطیب، مفسر کوئی واعظ نہ سمجھا سکا۔“
رجائیت:
مذہب سے لگاﺅ کے بعد جن عوامل نے قید میں ان کا حوصلہ مضبوط رکھا وہ مثبت طرزِ فکر اور رجائی سوچ تھی۔ سالک کا کہنا ہے کہ مایوس کُن حالات میں بھی انہوں نے اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا کہ طویل سیاہ رات کے بعد صبح نو ضرور آتی ہے۔ امید کی مثال ملاحظہ ہو:
”مذہب کے علاوہ صبر و سکون کا ایک سرچشمہ یہ حسین تصور تھا کہ ایک نہ ایک دن ہم ضرور ارضِ پاکستان پر قدم رکھیں گے‘ جہاں وطن کا ہر فرد ‘ ہر شجر‘ ہر قریہ اور ہر قرئیے کا ہرذرہ ہمیں سرآنکھوں پر بٹھائے گا۔مجھے اس منجدھار میں اکثر سوہنی کی مثا ل یاد آتی جو دریائے چناب کی بپھری ہوئی لہروں سے صرف اس لیے نبردآزما رہتی کہ دریاکے اُس پار اُس کا مہینوال اُس کا منتظر ہو گا گویا جو چیز اسے ڈوبنے سے بچائے رکھتی تھی وہ گھڑا نہیں ‘ بلکہ مہینوال کا تصور اور جذبۂ وصل تھا مجھے بھی پتہ تھا کہ سرحد کے اس پار ایک مہینوال نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں عشاق منتظرِ راہ ہوں گے۔ ان سے وصل کی گھڑی آئے گی اور ضرور آئے گی۔
”میں نے انہی خوابوں کی اوٹ میں چراغِ اُمید کو اسیری کی تندوتیز ہواﺅں سے بچائے رکھا اور آخری وقت تک اس کی لو مدھم نہ ہونے دی۔“( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزیدخبریں