دو روز پہلے (6نومبر) انگریزی زبان کے ایک اخبار کے بین الاقوامی ایڈیشن میں ایک مضمون نظر سے گزرا۔ یہ اخبار مختلف موضوعات پر ایسے آرٹیکل شائع کرتا رہتا ہے جو دلچسپ بھی ہوتے ہیں اور معلوماتی بھی ”سائنس“ کے عنوان سے پورا ایک صفحہ سائنسی مطالب و مفاہیم کے لئے مختص ہے اس ہفتے ”سائنس“ کے موضوع پر جو آرٹیکل شائع ہوا، وہ ”کوے“ کے بارے میں تھا۔
ہماری نظر میں کوے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ گھریلو قسم کے کوے ہیں جن پر پرائمری سکول کی تیسری جماعت میں ایک نظم پڑھی تھی جس کا عنوان ”کوا“ تھا۔ اسماعیل میرٹھی نے بچوں کے لئے جو نظمیں لکھیں ان میں یہ کوے والی نظم بھی بہت مشہور ہے۔دوسری نظموں میں ”صبح کی سیر“ ہماری ایک پسندیدہ نظم تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انگلش میں جن موضوعات پر مضامین، سالانہ امتحان کے پیپر میں آتے تھے، ان میں ایک موضوع ”صبح کی سیر“ (Morning Walk)بھی ہوتا تھا۔ ہم نے ایک بار محمد حسین آزاد کی اس نظم ”صبح کی سیر“ کا انگریزی ترجمہ امتحانی پرچے میں دے دیا تھا جس پر ہمیں کافی شاباش ملی تھی۔ اس نظم کے چنداولین اشعار یہ تھے:
سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی
خوشی کا تھا وقت اور ٹھنڈی ہوا
پرندوں کا تھا ہرطرف چہچہا
یہی جی میں آئی کہ گھر سے نکل
ٹہلتا ٹہلتا ذرا باغ چل
چھڑی ہاتھ میں لے کے گھر سے چلا
اور اک باغ کا سیدھا رستہ لیا
اس کے بعد کے اشعار بھی یاد ہیں،اس دور میں اساتذہ، اردو اور انگریزی کی منظومات کو زبانی یاد کروایا کرتے اورکلاس میں سنا بھی کرتے تھے۔ یہ ایک بہت اچھی ایکسرسائز تھی۔ نظم اور نثر میں فرق معلوم ہو جاتا تھا،لہک لہک کر پڑھنے سے اشعار میں پوشیدہ موسیقی بھی ”منظرِ عام“ پر آ جاتی تھی اور لب و لہجے کی درستگی کا بندوبست بھی ہو جاتا تھا۔ آج شائد یہ ایکسرسائز دووجوہات کے سبب ختم ہو چکی ہے۔ایک تو کلاس میں طلبا کی تعداد بڑھ چکی ہے۔ہمارے زمانے کے اساتذہ جو ہم سے بھری کلاس میں زبانی نظمیں سنانے کی پابندی کرواتے تھے، وہ اب نہیں کی جا سکتی اور دوسرے اساتذہ کا اپنا ذوقِ موسیقی بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اس میں زبان کی قید نہیں۔ عربی، فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں میں نظم و نثر کا امتیاز اب اٹھ چکا ہے۔ ریاضی، جیومیٹری اور الجبرا کی ایکسرسائزیں اب کمپیوٹرزدگی کا شکار ہو چکی ہیں۔ اس لئے طلباء میں ترنم اور موسیقی کی نفاستوں اور باریکیوں کی جگہ مشقی سوالات کے الجھاووں نے لے لی ہے۔
ہم بات کووں کی کررہے تھے۔ کوے اب بھی ہمارے گھروں کے صحنوں اور منڈیروں پر آ کر بیٹھتے ہیں،کائیں کائیں کرتے ہیں، دانہ دنکا چگتے ہیں اور اڑ جاتے ہیں۔ ہمارے بچوں کو ان کے دیکھنے کی ”فرصت“ نہیں ملتی۔
شہروں کے باسیوں کو ”پہاڑی کوے اور شہری کوے کے سائز کے چھوٹے بڑے ہونے کے علاوہ اور کسی بات کی خبرشاذ ہی ہوتی ہے۔
فوجی ملازمت کے دوران ہماری پوسٹنگ مری، ایبٹ آباد، کوئٹہ اور قلات جیسے مقامات پر ہوتی رہی جن میں چھوٹے کوے بہت کم دیکھنے کو ملتے تھے اور پہاڑی کووں کی بہتات ہوتی تھی۔ جس آرٹیکل کا ذکر میں نے کالم کے آغاز میں کیا ہے اس میں مضمون نگار نے پہاڑی کوے کی بعض ایسے خصوصیات کا ذکر کیا ہے جو سراسر سائنسی معلومات کی ذیل میں آتی ہیں مثلاً اس نے لکھا ہے کہ کوے کی یادداشت قابلِ رشک ہوتی ہے۔ اگر آپ اس کے گھونسلے میں اسے یا اس کے بچے/ بچوں کو تنگ کریں تو وہ آپ کو نہیں بھولتااور جہاں آپ کو دیکھتا ہے، آپ کے سر پر اڑانیں بھر کر آپ سے انتقام لینے کی کوشش کرتا ہے۔آپ کی شکل بھی اسے ازبر ہو جاتی ہے۔
کوے کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کو بُلا کر آپ کا قافیہ تنگ کر دیتا ہے۔ اس کا ذاتی تجربہ مجھے کئی بار ہوا۔ ایک دفعہ سکول کے ایام میں کوے کا ایک بچہ ہم نے پکڑ لیا اور پھر جب کووں کا اژدہام ہمارے اردگرد منڈلانے لگا تو اسے چھوڑنا پڑا۔لیکن وہ کوا جہاں بھی ہمیں دیکھتا،ہمارے سر کی شامت آجاتی۔ کوہستانی علاقوں میں لوگ پہاڑی کووں کو تنگ کرنے کی بجائے ان کی اچھی خوراک وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں۔کوے کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے۔ وہ مل کر ایک غول کی صورت میں آتے ہیں اور شام کو غول کی صورت ہی میں واپس ”گھروں“ کو جاتے نظر آتے ہیں۔اسماعیل میرٹھی کی نظم کا ایک شعر کوے کی اس خصوصیت کی عکاسی کرتا ہے وہ بھی دیکھ لیجئے:
کوئی ذرا سی چیز جو پالے
کھائے نہ جب تک سب کو بلالے
ہم نے من حیث الطلباء و طالبات مشاہدۂ طیور کے موضوع کو ایک طویل عرصے سے ترک کر رکھا ہے۔ بچوں کے علاوہ بڑوں کے لئے بھی پرندوں کے مشاہدات سبق آموز ہیں ……شیخ فریدالدین عطار نے مثنوی ”منطق الطیر“ یا ”مقاماتِ طیور“ میں مختلف پرندوں کی مجلس کا اپنے اشعار میں ذکر کیا ہے۔ اس مثنوی میں اگرچہ فی الحقیقت روحانیت اور تصوف کے موضوعات پر بحث کی گئی ہے لیکن یہ تمام مباحث پرندوں کی ایک ”کونسل“میں ڈسکس کئے جاتے ہیں۔ اشعار کی روانی اور موضوع کے ساتھ ان کی وابستگی شاعر کا کمالِ فن ہے۔ لیکن انگریزی اخباروں میں ان صوفیانہ موضوعات کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ وہ لوگ صرف پرندوں کے اوصاف و خصائص کا سائنسی جائزہ لیتے ہیں۔ ان کی تحقیق کا دائرہ روحانیت کی کسی شاخ سے ہرگز وابستہ نہیں ہوتا۔ شیخ فرید الدین عطار نیشا پوری کے بعد مثنوی مولانا روم میں بھی پرندوں کی داستانوں سے بہت سے اسباق اخذ کرکے ان کو پرندوں کی دنیا سے نکال کر انسانوں کی دنیا پر منطبق کیا جاتا ہے۔ یہ کالم ان طویل داستانوں کی تفصیلات بتانے کا متحمل نہیں وگرنہ یہ حقیقت بتانے میں مجھے کوئی تامل نہ تھا کہ انگریزی زبان کے مصنفین اور پرندوں پر تحقیق کرنے والوں اور قدیم فارسی شعراء نے ان پرندوں کے بارے میں جو کہانیاں بیان کی ہیں، ان کے منتہائے مقصود میں کیا فرق ہے۔ اخلاق و تہذیب کا درس دینے میں ان معلمین اخلاقیات نے جو اسرار و رموز پرندوں کی زبان سے ہم تک پہنچائے ہیں، وہ مغربی فلاسفہ اور لکھاریوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر قابلِ غور اور لائقِ اعتناء ہیں۔
بات کوے سے چلی تھی اور منطق الطیر تک جا پہنچی۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب نے بھی اسی نام سے ایک ناول لکھا ہے جس میں ”پرندوں کی کانفرنس“ (منطق الطیر) کی تقلید میں انسانوں کی ایک کانفرنس کا تذکرہ کیا ہے اور خوب کیا ہے۔ ان سے بھی پہلے بانوقدسیہ صاحبہ نے اسے ایک ناول ”راج گدھ“ میں برتا۔
انگریزی اخبار کے اس سائنسی ایڈیشن میں اس لکھاری نے پہاڑی کوے کے جذبہء انتقام کا حوالہ دے کر اپنے ذاتی تجربات کا ذکرکیا ہے۔ کوا، طوطی(یاطوطا) ہد ہد، کوئل اور اس قبیل کے پرندوں کا دماغ، ان کی یادداشت اور ان کے جذبات کا سائنسی تجزیہ اب تک بہت کم لوگوں نے کیا ہے۔ لیکن اس لکھاری کو شاید معلوم نہیں کہ فارسی ادب میں حکیم عطار،مولانا روم اور اردو ادب میں فارسی شعر و ادب کے تتبع میں بہت سا کام ہو چکا ہے جس کا اندازہ مغربی فلاسفہ اور لکھاریوں کو نہیں ہو سکتا۔
اس کی وجہ یہ ہے فارسی میں ان موضوعات پر جو کلاسیکل تصانیف گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی میں لکھی گئیں ان کا انگریزی ترجمہ نہیں کیا گیا۔ پہلے دور کے کئی برطانوی مستشرقین نے ان موضوعات پر کئی ضخیم تصانیف قلمبند کیں۔ مثلاً ڈاکٹر براؤن کی ”ہسٹری آف پرشین لٹریچر“ آج بھی ایک کلاسیک شمار ہوتی ہے تاہم ان تصانیف کا بھی ایک دور تھا جو شایدگزر چکا ہے۔ اب تو لوگ ویسے بھی کسی ضخیم کتاب کو دیکھ کر گھبرا اٹھتے ہیں۔ وقت کی طوالت،اب وقت اور فرصت کے اختصار کا تقاضا کرتی ہے۔ دیکھیں اس کے بعد کیا ہوتا ہے!