داعش کے پیچھے کون ہے؟ مشہور برطانوی صحافی نے بہت بڑا دعویٰ کر دیا
ٹورنٹو(مانیٹرنگ ڈیسک) شام میں برسرپیکار تنظیم داعش اس وقت دنیا کی طاقتور ترین شدت پسند تنظیم سمجھی جا رہی ہے۔جب سے یہ معرض وجود میں آئی ہے ایک سوال تسلسل کے ساتھ اٹھ رہا ہے کہ اصل میں اس تنظیم کے پیچھے کون سی طاقت ہے اور کون سا ملک اس کی سرپرستی کر رہا ہے؟ کیونکہ کسی طاقتور ملک کی سرپرستی کے بغیر اس بڑے پیمانے پر کارروائیاں کرنے کے لیے گاڑیاں اور بھاری اسلحہ و گولہ بارود کا حصول ممکن ہی نہیں۔
نامعلوم کالرز کی معلومات دینے والی حیران کن ایپ اردومیں بھی دستیاب
کینیڈا کی نیوز ویب سائٹ NowToronto.comنے برطانوی اخبار ”دی انڈیپنڈنٹ“کے مشرق وسطیٰ کے نمائندے رابرٹ فسک(Robert Fisk)کی ایک تقریر کا حوالہ دیا ہے۔ تقریر میں رابرٹ فسک نے کہا ہے کہ داعش کے پیچھے کون سا ملک ہے اس کے متعلق حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن میں مجھے اس کا کافی حد تک اندازہ ضرور ہو چکا ہے۔ رابرٹ کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ایران سے اتحاد اور سعودی عرب سے دوریاں پیدا کرنے کے بعد داعش کچھ عرب طاقتوں کے لیے لڑاکا مینڈھا ثابت ہو سکتی ہے۔
رابرٹ کا کہنا تھا کہ تمام گلف ممالک بھی داعش کے خوف سے کانپ رہے ہیں۔ ”مجھے شک ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ وہ ایران کو مشرق وسطیٰ کا تھانیدار بنا دے۔اگر واقعی امریکہ یہ پالیسی اپنا رہا ہے تو اس کے پیش نظر سوال اٹھتا ہے کہ کیا ان عرب طاقتوں کے پاس امریکہ کی اس پالیسی سے نمٹنے کے لیے داعش ہی ایک واحد ہتھیار رہ جاتا ہے ؟“رابرٹ کا کہنا تھا کہ میں اس سوال کو بے جواب ہی چھوڑتا ہوں کیونکہ میں فی الحال اتنا ہی کہہ سکتا ہوں۔
چین میں شیشے کا پل بھی ”میڈ ان چائنہ“ نکلا، ایسا کیا ہوا کہ سب کے ہوش اڑ گئے؟