زندگی کو راستہ دیں!
خواتین و حضرات! عالمی ادارہ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس پاکستان نے گزشتہ دِنوں الحمرا آرٹ سنٹر میں ایک اجلاس کیا جس میں محکمۂ صحت، پولیس، محکمہ ٹرانسپورٹ، ٹریفک پولیس اور ریسکیو1122 کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی ، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ یکم اکتوبر سے31دسمبر2017ء تک ’’ایمبولینس کو راستہ دیں۔۔۔ زندگی کو راستہ دیں‘‘ کی عوامی مہم کا آغاز کیا جائے گا، جس میں عوام الناس کو ایمبولینس کو پہلے راستہ دینے کی تربیت دی جائے گی تاکہ ایمبولینس میں لے جائے جانے و الے ایسے مریضوں کی جان بچائی جا سکے جو ٹریفک میں پھنس جانے کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں شہروں میں اب ٹریفک اِس قدر بڑھ گئی ہے کہ سڑکوں پر لوگوں کا بہت سا وقت اِسی ٹریفک جام کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ذہنی کوفت اور جھنجھلاہٹ الگ ہوتی ہے۔
اس سب سے بڑھ کر زیادہ مسئلہ ایمبولینسوں کو ہوتا ہے جو مریضوں کو ایمرجنسی کی حالت میں ہسپتال لے جا رہی ہوتی ہیں۔ہم تقریباً ہر روز یہ منظر دیکھتے ہیں کہ ٹریفک میں پھنسی ایمبولینس چیخ چلا رہی ہوتی ہے، مگر راستہ نہیں ملتا۔اِسی مسئلے کے حل کے لئے مذکورہ بالا محکموں اور اداروں نے ایک آگاہی مہم چلانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ مقام فکر ہے کہ بحیثیت معاشرہ ہم اتنے غیر ذمہ دار اور بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمیں یہ سمجھانے یا بتانے کی ضرورت ہے کہ ایک ایمبولینس شور مچا رہی ہے کہ ایک مریض کو ایمرجنسی کی حالت میں ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔خدارا اُسے راستہ دے دیں تاکہ قیمتی جان بچائی جا سکے۔کیا اِس مقصد کے لئے آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے؟ مگر مقامِ افسوس ہے کہ ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔
خواتین و حضرات! کیا ہم واقعی ایسے غیر ذمہ دار ہیں؟میری دانست میں ہر گز نہیں! اس المیے کے ذمہ دار عوام کے مقابلے میں کہیں زیادہ حکومت اور متعلقہ ادارے ہیں،جنہیں اِس امر کی طرف توجہ مبذول کرانے کی ضرورت ہے۔اس مہم کے مخاطبین بنیادی طور پر عوام نہیں،بلکہ حکومتیں اور ادارے ہونے چاہئیں۔یہ دراصل ناقص منصوبہ بندی اور غلط انفراسٹرکچر کا شاخسانہ ہے۔
ہمارے ہاں سڑکوں کی تعمیر کے وقت یہ خیال نہیں رکھا جاتا کہ اس پر ایمبولینس نے بھی چلنا ہے۔ سڑکیں تنگ ہیں اور ٹریفک کا دباؤ زیادہ۔لہٰذا اگر ٹریفک میں پھنسی ایمبولینس کو راستہ دینے میں لوگ مخلص بھی ہوں اور تمام تر کوشش بھی بروئے کار لائیں، تو راستہ دینے میں ناکام رہیں گے،لہٰذا اس مہم کے دوران حکومت اور اداروں سے مخاطب ہونا چاہیے۔اس مسئلے کا ایک سیدھا اور آسان حل تو یہ ہے کہ دیگر ممالک کی طرح ایمبولینس کے لئے ایک الگ ٹریک ہونا چاہئے۔شاید آپ خیال کریں کہ ہم ایسا کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، تو عرض ہے کہ جو شہر میٹرو بس اور اورنج ٹرین جیسے میگا پراجیکٹس افورڈ کر سکتے ہیں، وہ ایمبولینس کے لئے ایک راستہ اور سڑک بھی بنا سکتے ہیں،تاہم جب تک ایسا نہیں ہو پاتا، تو جن شہروں میں میٹرو بس کے لئے الگ ٹریک/ سڑک موجود ہے، اُسے ایمبولینس کے لئے استعمال کرنا چاہئے تاکہ وہ بروقت ہسپتال پہنچ سکے۔ اس کے علاوہ ایک ٹریفک مینجمنٹ کنٹرول سسٹم، سائنسی بنیادوں پر قائم کرنا چاہئے، جو ایمبولینس کو راستہ دینے میں معاونت کر سکے اور اِن حالات میں اُسے متبادل راستے کی نشاندہی کر سکے۔
خواتین و حضرات! جیسا کہ آپ کو علم ہے ہمارے حکمرانوں کو پروٹوکول کابہت شوق،بلکہ جنون ہے۔ اُن کی آمد سے گھنٹہ گھنٹہ پہلے ٹریفک روک لی جاتی ہے اور عوام بے بسی کے عالم میں سڑکوں پر پھنسے کھڑے رہتے ہیں۔اِس دوران ایمبولینس کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔ کوئی مرتا ہے تو مرے،پروٹوکول کی شان میں فرق نہیں پڑنا چاہئے۔
یہ ہم محاورتاً عرض نہیں کر رہے،بلکہ کراچی کے ایک ہسپتال میں ایک وی آئی پی کی آمد کے موقع پر جب ٹریفک اور مریضوں کو گھنٹوں روکا رکھا گیا تو ایک ننھی بچی بسمہ نے تڑپ تڑپ کر اپنے والد کی بانہوں میں جان دے دی،مگر اُسے اندر ہسپتال میں نہیں جانے دیا گیا کہ حکمران ایک شعبے کا افتتاح کر رہے تھے۔اِسی طرح آپ کو یاد ہو گا کہ جب کوئٹہ میں آصف علی زرداری کی سواری نے گزرنا تھا تو ٹریفک کو بہت دیر تک روکے رکھا گیا۔ اِسی ٹریفک میں ایک رکشے میں ایک خاتون بچے کی پیدائش کے لئے ہسپتال جا رہی تھی،مگر ٹریفک کے دیر تک بند ہونے کی وجہ سے رکشے میں ہی ڈلیوری ہو گئی۔
یہ وی آئی پی موومنٹ کی بد انتظامی اور حکمرانوں کی بے حسی کی بدترین مثال ہے۔ اِن حالات میں مذکورہ بالا ادارے کون سے عوام کو ایمبولینس کو راستہ دینے کی عوامی آگاہی کی مہم چلانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں؟ آگاہی کا احساس اور تعلیم تو حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کو دینے کی ضرورت ہے۔پروٹوکول کے دلدادوں کی حالت تو فیض احمد فیض کے اس شعر کے مصرع کی حقیقی عکاس ہے:
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
اسی طرح سیاسی جلسے، جلوس اور دھرنے بھی ٹریفک بشمول ایمبولینس کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں، جب یہ سڑکوں پر کیے جا رہے ہوں۔ اگر آپ کو سروسز ہسپتال، اتفاق ہسپتال اور جنرل ہسپتال کے سامنے سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہسپتال کے سامنے والی سڑک سے اگر ہسپتال میں داخل ہونا ہے تو اس کے لئے کوئی راستہ یا کٹ نہیں دیا گیا،بلکہ ایمبولینس کو کافی دور تک جا کر پھر یُو ٹرن لینا پڑتا ہے، تب تڑپتے مریض کو ہسپتال کے گیٹ کے اندر لے جا سکے۔ وہ محکمے کا جن اوپر ذکر ہوا ہے ذرا اِس نکتے پر بھی توجہ کریں اور ایمبولینس کو ان ہسپتالوں میں داخلے کا براہِ راست راستہ بنا کر دیں۔
اس کے علاوہ ڈولفن ٹریفک پولیس کے نوجوان بلا مقصد اِدھر اُدھر مٹر گشت کرتے پھرتے ہیں۔انہیں اِس مقصد کے لئے استعمال کرنا ضروری ہے ،جو ٹریفک میں پھنسی ایمولینس کے لئے راستہ بنائیں۔واضح رہے کہ اس وقت اپنے اسی شہر لاہور میں پولیس کے متعدد محکمے بشمول پنجاب ٹریفک پولیس، پنجاب ہائی وے پٹرول،محافظ، نو فیئر، پنجاب ایلیٹ فورس اور ڈولفن وغیرہ کام کر رہے ہیں۔ان کی تربیت میں ایمبولینس ریسکیو کو راستہ دینے کی تربیت بھی شامل ہونا ضروری ہے۔یہاں ہمیں 1122 ریسکیو کی خدمات کی تعریف کرنا ہو گی کہ وہ جس مستعدی سے لوگوں کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر حکومتی اداروں کی ناقص منصوبہ بندی اِس راہ میں رکاوٹ ہے۔ آپ نے محسوس کیا ہے کہ کسی بھی ٹریفک کے اشارے پر کھڑے پولیس اہلکار موٹر سائیکل سواروں کے چالان کرنے میں کس قدر مستعد ہیں۔ اُنہیں دھڑا دھڑ جرمانے کی پرچی کاٹ کر تھما دیتے ہیں، مگر ایمبولینس کو راستہ نہ دینے پر کوئی سزا یا جرمانہ عائد نہیں کیا جاتا۔
ٹریفک میں پھنسی ایمبولینس کو راستہ دینے کی آگاہی جہاں عوام کو دینے کی ضرورت ہے تو اُس سے کہیں زیادہ ضرورت حکومت اور متعلقہ اداروں کو اِس مسئلے کی نشاندہی اور موثر منصوبہ بندی کے لئے راضی کرنا ہے۔اِن حالات میں ان متعلقہ اداروں کو اپنے مخاطبیں میں سرفہرست حکومتی اداروں کو رکھنا ہو گا۔