حقِ خود ارادیت کی جدوجہد اور دہشت گردی میں تفریق
اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ عالمی برادری کو آزادی کی تحریکوں اور دہشت گردی میں تفریق کرنا ہو گی، جو طاقتیں دہشت گردی کے خلاف عالمی اتفاق رائے کا سہارا لے کر حقِ خود ارادیت کی تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہیں،اُنہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے،مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں جاری حقِ خودارادیت کی تحریکوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے اِس بات پر زور دیا کہ فوری طور پر دیرینہ اور حل طلب مسائل کے حل پر توجہ دی جائے، جن خطوں میں لوگوں کو حقِ خود ارادیت سے محروم رکھا جا رہا ہے اُدھر بھی نظر التفات ہونی چاہئے۔معاشی اور سیاسی ناانصافی سے تلخی اور کشیدگی پیدا ہوتی ہے، جو اکثر تشدد کا رُخ اختیار کر لیتی ہے،اِن مسائل کے بارے میں وسیع نظری سے کام لینا چاہئے ورنہ عالمی برادری مسائل کی جڑ تک نہیں پہنچ سکے گی۔دہشت گردی کو کسی مذہب، فرقے، عقیدے، نسلی لسانی گروہ، ثقافت اور کسی معاشرے کی اقدار سے نہیں جوڑنا چاہئے،کسی مذہب یا کسی خاص خطے کے لوگوں کو بدنام کرنے کے رجحان کا بھی تدارک کرنا ہو گا، کیونکہ اِس کی وجہ سے اکثر پُرتشدد ردعمل سامنے آتا ہے۔اقوام متحدہ کی سِکستھ کمیٹی میں خطاب کرتے ہوئے ملیحہ لودھی نے کہا کہ پاکستان نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے اڈوں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف مستقل مزاجی سے کارروائیاں کر کے مُلک کے اندر اُٹھنے والے دہشت گردی کے طوفان کا منہ موڑ دیا ہے۔
دُنیا کو کئی عشروں سے دہشت گردی کا سامنا ہے،لیکن آج تک اس کی کوئی متفقہ تعریف سامنے نہیں لائی گئی،نتیجہ یہ ہے کہ ہر مُلک مختلف قسم کی پُرتشدد کارروائیوں کو کبھی تو دہشت گردی قرار دیتا ہے اور کبھی محض فائرنگ کا واقعہ کہہ کر اس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،ابھی چند روز پہلے امریکی شہر لاس ویگاس کے کسینو میں ایک عمر رسیدہ شخص نے فائرنگ کر کے 50سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا، امریکہ میں اِس واردات کو ’’شوٹنگ‘‘ کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے،لیکن امریکہ کے ممتاز صحافی اور کالم نگار فریڈمین نے بجا طور پر یہ سوال اُٹھایا ہے کہ اگر فائرنگ کے اِس واقعہ میں ملوث شخص مسلمان ہوتا یا وہ کسی مسلمان مُلک کے دورے پر گیا ہوتا یا کسی مسجد کے قریب سے ہی گزرا ہوتا تو امریکی صدر ٹرمپ کا ردِعمل اس سے بہت مختلف ہوتا، جس کا اظہار انہوں نے اب کیا ہے،اس سے پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے کہ اگر کسی مسلمان نے یا مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے کسی آدمی نے کوئی واردات کر دی تو پوری دُنیائے اسلام حتیٰ اسلام کو بطور دین رگیدنا شروع کر دیا گیااور ہر تجزیئے کی تان اِس پر توڑی جاتی کہ مسلمان دہشت گردی میں ملوث ہیں،صدر ٹرمپ نے تو سات مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی بھی عائد کر دی تھی،جو عدالتی حکم سے معطل ہوئی اور ججوں نے اسے امتیازی کارروائی سے تعبیر کیا،اِن احکامات پر صدر ٹرمپ نے قوانین میں تبدیلی کی پھر انہیں عدالتوں میں مشکلات کا سامنا رہا، جس کی وجہ سے وہ اپنے مُلک کے ججوں کے خلاف منفی ریمارکس بھی دیتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بجا طور پر اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ کسی مذہب یا خطے کے ساتھ دہشت گردی کو چپکا دینا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے،دہشت گرد کوئی گروہ ہو، یا فرد اس کے اقدام کو کھینچ تان کر اس کے ہم وطنوں یا ہم مذہبوں پر منطبق نہیں کیا جا سکتا،دُنیا بھر میں دہشت گردی میں جو تنظیمیں ملوث ہیں وہ کارروائیاں کرتے وقت کسی مذہب و ملت کی تفریق روا نہیں رکھتیں،عراق و شام جیسے مسلمان ممالک کو جن دہشت گردوں نے تاراج کیا وہ بھی مسلمانوں اور اسلام کا نام لیتے ہیں،لیکن اُن کا ہدف بھی مسلمان مُلک ہیں۔
دُنیا میں حقِ خود ارادیت کی ہر تعریف کی رو سے مقبوضہ کشمیر کے باشندوں کی موجودہ جدوجہد، آزادی کی جدوجہد ہے،جس کا حق اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہوا ہے،لیکن بھارت کشمیریوں کو دہشت گرد گردانتا اور اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا روا جانتا ہے،کشمیریوں کی کئی نسلیں آزادی کی اِس جدوجہد میں شریک ہیں اور مسلسل اَن گنت قربانیاں دے ہی ہیں،اِس وقت بھی ایک چھوٹی سی ریاست میں بھارت کی سات لاکھ سے زیادہ فوج جمع ہے اور طاقت کا ہر حربہ استعمال کر کے اِس جدوجہد کو دبانے کے لئے کوشاں ہے، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ اِس میں تیزی آ رہی ہے، یہاں تک کہ اب فوج کے کئی سینئر افسر اپنی حکومت کو یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ طاقت سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا ،اِس لئے بات چیت کر کے کسی نتیجے پر پہنچا جائے، بہت سے سیاسی لیڈروں کی بھی یہی رائے ہے،لیکن بھارتی حکومت اُن کی بات سننے کے لئے آمادہ نہیں، پاکستان اِن کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کی حمایت کرتا ہے اور دُنیا کے ہر پلیٹ فارم پر اُن کے حق میں آواز بلند کرتا ہے،نریندر مودی اِس حمایت کی وجہ سے پاکستان کو بھی دہشت گرد ریاست قرار دلوانے کے لئے عالمی پلیٹ فارموں پر کوششیں کرتے رہتے ہیں۔اگرچہ انہیں اِس میں کامیابی تو نہیں ہوئی، لیکن انہوں نے کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کو دہشت گردی ثابت کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا ہوا ہے،حالانکہ دہشت گردی کی تعریف تو بھارتی فوج پر فٹ آتی ہے، جو ظلم و ستم کا ہر حربہ نہتے کشمیریوں پر آزما رہی ہے،کشمیریوں کے جنازوں کے جلوسوں پر بھی فائرنگ کی جاتی ہے اور اگر جواب میں مشتعل نوجوان سیکیورٹی فورسز کی جانب چند پتھر ہی پھینک دیں تو یہ دہشت گردی ٹھہری، جبکہ کشمیریوں کی آنکھوں میں پیلٹ گنوں کے چھرے مار کر اُنہیں اندھا کرنے کا وحشیانہ اقدام سنگ دِل حکمرانوں کو نظر نہیں آتا۔
اِسی طرح فلسطین کے عوام کی جدوجہد کو بھی اسرائیل دہشت گردی سے تعبیر کرتا ہے، جبکہ فلسطینی باشندے اُن غاصب اسرائیلیوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں، جنہوں نے ان کی زمینیں ہتھیا کر ناجائز ریاست قائم کی اور اپنے اِس عمل کو دولت کے بل بوتے پر جائز تسلیم کرایا۔اقوام متحدہ نے اسرائیل کو فلسطینی علاقے میں یہودی بستیاں آباد کرنے سے روکا،لیکن اُس نے عالمی ادارے کی قرارداد کی پرواہ نہیں کی،اسرائیل نے اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے لئے حفاظتی دیواریں تعمیر کر لیں اور فلسطین کو جیل خانے میں تبدیل کر دیا ان اقدامات پر جب ردعمل ہوتا ہے تو فلسطینیوں کو بھی دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے درست طور پر نشاندہی کی ہے کہ دُنیا کو حقِ خود ارادیت کی جدوجہد اور دہشت گردی میں تمیز کرنی چاہئے۔دہشت گردی کے اسباب میں ان ناانصافیوں کا بھی بہت عمل دخل ہے، جو دُنیا کے مختلف خطوں میں بہت سے طبقات سے روا رکھے جا رہے ہیں۔