اسلام میانہ روی کا دین ہے
میَں نے بچپن میں قرآن پڑھنا نہیں سیکھا تھا، بلکہ سچ پوچھیں تو اپنی عمر کے 75 سال گذر جانے کے باوجود میں نے قرآن کی تعلیم ، الفاظ کی صحیح قرأت اور قرآنی آیات کی تشریح سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ بس میَں ایک پیدائشی مسلمان تھا کروڑوں پاکستانی مسلمانوں کی طرح ۔
اس زندگی کے دوران اعلیٰ ملازمتیں کیں، خوشحالی بھی ملی، اپنے فرائضِ منصبی کی وجہ سے دنیا کے بڑے چھوٹے ممالک کو دیکھنے کا موقع بھی مِلا، لیکن اس کے باوجود میَں قرآن کی صحیح تعلیم سے محروم رہا۔
اس عرصے میں دنیاوی علوم کا مطالعہ بھی کیا۔ تاریخ، جغرافیہ ، انگریزی ادب، حالاتِ حاضرہ اور اپنی ملازمت سے متعلق معلومات کے لئے خوب جان کاری لی ۔ اِدھر اُدھر ملکوں گھومنے پھرنے کے دوران دوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے بھی رابطے رہے۔ میَں برائے نام مسلمان تو ضرور تھا، لیکن جب دوسرے مذاہب والے اپنے دھرم کو اونچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے تو پھر میرے اندر کا مسلمان کسمسا جاتا تھا، لیکن میں اپنے دین کے بارے میں علمی طور پر واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے دوستوں کو قائل نہیں کر سکتا تھا۔
آہستہ آہستہ مجھے اپنے دین کے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ میَں بڑے بڑے عُلما کی کتابوں کے نزدیک بھی نہیں گیا حالانکہ میرے گھر میں مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا پورا مجموعہ(Set) موجود تھا۔ مسلمان دانشوروں کی کتابوں کا ذخیرہ والد صاحب کی وفات کے بعد بھی گھر میں موجود تھا۔ میَں نے اِن کتابوں کو بھی ہاتھ نہیں لگایا، اپنے طور پر سب سے پہلے میَں نے عربوں کے زمانہِ جاہلیہ کی تاریخ پڑھی۔ میَں نے ادیانِ ابراھیمی کا مطالعہ کیااور اُن کے دور کی تا ریخ کو بھی پڑھا۔
میَں نے دوسرے بڑے مذاہب کا بھی بغور مطالعہ کیا، خاص طور پر ہندوتا اور برہمنی شاستروں کی بنیادی تعلیم کو جانا۔ زرتشتی، بدھ اور سکِھ مذاہب کے بارے میں جان کاری اِتنی لی کہ بدھسٹ اور سِکھ مجھے کافی حیرت سے دیکھتے تھے۔ کہ میَں اَن کے دھرم کو جاننے کے باوجود بدھ یا سِکھ کیوں نہ ہوا۔ سکھِی دھرم پر مناسب علمی عبور رکھنے کی وجہ سے مجھے پنجاب گورنمنٹ نے 2004 میں ننکانہ صاحب ترقیاتی بورڈ کا کنوینر بنایا۔ یہ بورڈ بھاری بھرکم ممبران پر مشتمل تھا۔
پنجاب حکومت کی طرف سے میَں عالمی سکھوں کے سالانہ سیمنار میں بطور سپیکر حصہ لیتا رہا۔ میَں بین الاقوامی شُہرت یافتہ سِکھوں ، گرنتھیوں اور پربندھک کمیٹیوں کے چیرمینوں میں جانا پہچانا پاکستانی نظر آتا تھا۔اِن مذاہب کے مطالعہ نے بھی مجھے متاثر نہیں کیا۔
میَں نے آخر میں قران کا ترجمہ پڑھنا شروع کیا۔ مجھے Linguistics کا شوق تھا۔ سعودی عربیہ میں سرکاری بینک میں 8 سال ملازمت کرنے کی وجہ سے مجھے جدید عربی کی مناسب شدھ بدھ بھی ہو گئی تھی۔ قران کے ڈائریکٹ ترجمے سے بعض جگہ مکمل وضاحت نہیں ملتی تھی ۔ تفسیریں پڑھنے سے مجھ میں مسلکی رجحان پیدا ہونے کا ڈر تھا۔ اس لئے میَں نے قران کی اُن ہدایات کو سمجھنے پر زیادہ زور دیا جو ہمیں معاشرت، معیشیت ، اِخلاقیات اور سماجی طور طریقوں پر عمل کرنے کی تلقین کرتی ہیں۔ قران کی سورۃ بقرہ کی 143 ویں آئت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اُمتِ رسول کو درمیانی قوم بنایا گیا یعنی ہماری زندگی کے ہر شعبے میں میانہ روی ہو۔ صحیح حدیث میں تو ہمارے نبی کریمؐ ہمیں عبادات میں بھی میانہ روی کی تلقین کرتے ہیں۔
ایک جملے میں اگر بیان کیا جاے کہ اس دنیا میں مسلمانوں کو کس طرح زندگی گذارنی چاہیے تو وہ جملہ ہے ’’زندگی کے ہر شعبے میں درمیانی راستہ ‘‘ جوں جوں درمیان کے راستے پر میں نے غور کیا، مجھے محسوس ہوا کہ یہ ہی راستہ عافیت، اَمن اور ذہنی سکون کا راستہ ہے۔ اس راستے سے تمام دنیا کے لوگ بشمول ہم مسلمان بالکل ہٹ چکے ہیں۔
مجھے اپنے دین کی Logic سمجھ آنا شروع ہو گئی۔ میَں شدت پسند مسلمان تو بن ہی نہیں سکتا تھا، کیونکہ میرا دینی علم Self taught ہے۔ میَں کہہ سکتا ہوں کہ دین کی Spirit کو سمجھ کر 80 سال کی عمر میں دوبارہ میَں مسلمان ہوا ہوں۔
صنعتی انقلاب نے سرمائے کو اِنسانوں پر فوقیت دی۔ وقت کے گذرنے کے ساتھ سرمایہ ہماری ہر ضرورت کا مداوا بن گیا۔ سرمایہ کاروں نے ایجادات کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ۔ مواصلات کے لئے ریل گاڑی، ہوائی جہاز، موٹرکار، تارگھر اور ریڈیو ایجاد ہو گئے۔ علاج معالجے کے لئے ایلوپیتھک ادویات، ہسپتال اور نئے نئے آلات برائے تفشیشِ امراض بنا لئے گئے۔۔
بجلی نے زندگی پہلے ہی آسان کر دی تھی، لیکن اس سارے دور میں اِنسان کی اہمیت برقرار تھی۔ ابھی درمیانی راستے سے ہم بھٹکے نہیں تھے، لیکن ڈیجیٹل اِنقلاب ٹیکنالوجی کو کہیں سے کہیں لے گیا۔ ڈیجیٹل اِنقلاب میں بڑا اہم مقام سٹلائٹ TV اور ٹیلیفون کا ہے۔ آہستہ آہستہ اِن دونوں ایجادات نے اِنسانی ذہن پر قبضہ جمانا شروع کر دیا۔ سرمایہ داروں نے اپنی مصنوعات کی فروخت کے لئے TV کمرشلز کو اِتنے دلکش طریقوں سے استعمال کیا کہ آہستہ آہستہ انسانی معاشرہ Consumerism کا غلام بن گیا۔ آج سے 40 سال پہلے گھر میں صرف ایک ٹیلی ویژن ہوتا تھاAnalogue ٹیکنالوجی کا۔ گھر کے تمام افراد اِکھٹے ٹیلی ویژن دیکھتے تھے۔ آپس میں گفتگو کرتے تھے، پروگرام پر تبصرے بھی ساتھ ساتھ ہوتے تھے۔ یعنی خاندان ابھی تِتّر بتّر نہیں ہوا تھا۔
پھرکیا ہوا کہ ٹیکنالوجی نے TV کو عام آدمی کی دسترس تک پہنچا دیا۔ اَب TV ہمارے بیڈرومز میں بھی آ گیا۔ خاندان کے افراد جو شام کو TV دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوتے تھے، وہ سب اپنے اپنے کمروں میں گھُس کر اپنی پسند کے پروگرام دیکھنے لگے۔ خاندان کی شکل میں TV اتفاق رائے سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ بھی ختم ہو گیا۔ 2000 ء کے بعدہم ٹیکنالوجی کے مکمل نرغے میں آچکے ہیں۔ Internet اورRobotics نے ہم سے ہمارا پرانا رہن سہن چھین لیا ہے۔ ہمارا ڈاکیا منظر سے بالکل غائب ہو چکا ہے۔
وہ اَب صرف GPO میں ملتا ہے۔ ہزاروں پیشہ ور منشی جو ڈاکخانے کے باہر خظ لکھا کرتے تھے، وہ بھی مر کھپ گئے۔ ہماری آبادی کا 65% حصہ 35 سال سے کم عمر کا ہے یعنی اِس نوجوان نسل کو ہمارے معاشرے کے اہم کِرداروں کا معلوم ہی نہیں ہے۔
یہ کِردار جو ہمارے کلاسیکی ادب کا حصہ ہیں ۔ مثلاً بہشتی، ڈاکیا، ماہ رمضان میں جگانے والے، بہروپئے جو اپنے فن کی نمائش کے بعد سلام کر کے مانگتے تھے، ٹانگے والا، کھوجی، سارنگی بجا کر خیرات مانگنے والا، گھو گھو گھوڑے بیچنے والیاں۔ اِن کرداروں کو ہماری نوجوان نسل تو بالکل نہیں جانتی۔وہ بھلا اُردوادب کوکیسے جانے گی۔اب اِن کی جگہTap water آگیا اور بہشتی ختم ہو گیا ۔ SKYP,Messanger,IMO,SMS,
Whatsapp,E-mail اور Facetime آگئے۔ ڈاکیا بھی ختم۔ ٹانگے کی جگہ ترقی کرتے کرتے اَب UBER اورCureemنے جگہ لے لی، کھوجی کی جگہ، Fransics نے لے لی۔ سارنگی بجانے کا ہنر معدوم ہو رہا ہے اور گھوگھو گھوڑے بیچنے والیاں ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگتی نظر آتی ہیں پہلے ہمارے بچوں کے ہاتھ میں مکانکی کھلونے آ ئے اور اُس کے بعد ڈیجیٹلGadgets، Play Stations اورPokemans آ گئے،بلکہ بالکل نئی پود تو اَب iPod اور ماں باپ کے موبائل فون سے کم پر راضی ہی نہیں ہوتی۔
Cyber میڈیا نفرتیں پھیلانے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔ جاہل مولوی یو ٹیوب پر ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے نظر آتے ہیں۔ اِسی میڈیا پر دانشور عالموں کو سننے والوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر جاوید غامدی، ڈاکٹر رفیق اختر، مولانا اِسحاق اور احمدجاوید کی سنجیدہ اور مدّلل گفتگو کو ہمارے جاہل اور شغلی عوام کم ہی سنتے ہیں۔ اَب انسانی میل جول اور اختلاطSMS اور Whatsapp کے ذریعے ہوتا ہے۔ ہمارا دین جہاں بے تحاشا دولت مندی کو نا پسند کرتا ہے وہاں غربت کو بھی ناپسندیدہ سمجھتا ہے، کیونکہ دونوں معاشی حدوں میں ایمان کی پختگی قائم نہیں رہ سکتی ۔
غریب اپنی غربت سے تنگ آکر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ جبکہ اکثر امیر لوگ قدم قدم پر جھوٹ، ریاکار ی، وعدہ خلافی، حق تلفی، منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، رشوت ستانی ، ٹیکس چوری اور معاشی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ جوں جوں وقت گذر رہا ہے، دنیا میں مسلمان بڑھ رہے ہیں، لیکن اسلام کو اللہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔توازن، اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین اِنسانی روّیہ ہے۔
ہم نے اپنی زندگیوں سے توازن(میانہ روی) کو نِکال باہر کیا ہے۔ ہماری معاشی، سماجی، سیاسی، معاشرتی اور مذہبی فِکرغیر متوازن ہو چکی ہے۔ ہماری شادی اور مرگ کی رسموں کو ہی دیکھ لیں، ہمارے سیاسی اور مذہبی روّیوں کی بے لچک سوچ پر غور کریں ،بے جا اور نمائشی اِسراف ہماری معیشیت بن چکی ہے۔ہم درمیان کی قوم کہلانے کے مستحق نہیں رہے۔