گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 44

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ ...
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 44

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لارڈولنگڈن کے بعد لارڈ لنلتھگو آئے جن کے سیکرٹری سرگلبرٹ لیتھو یٹ تھے۔ وائسرائے کے سیکرٹریوں میں ان کا شمار انتہائی جفاکش اور لائق سیکرٹری کے طور پر ہوتا تھا۔ اس کی اسی اہلیت کی بنا پر لوگ بعض اوقات تفنن طبع کے لیے لنلتھگو حکومت کی بجائے ،لنلتھویٹ حکومت کہتے تھے۔ لنلتھگو مضبوط قوت ارادی کے آدمی تھے ۔ منصف مزاج تھے اور اپنے معاملات کو نہایت اچھی طرح سمجھتے تھے۔ زرعی کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے (یہ کمیشن انہی کے نام سے موسوم تھا) لاہور تشریف لائے تو ان کے اعزاز میں لاہور کے جیم خانہ کلب میں میں ایک نہایت پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا کھانے کے بعد تقریر کا موقع مجھے میسر آیا۔

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 43 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

میں نے کہا کہ کمیشن کے سلسلے میں ہمارے لیے رکاوٹ کا اصل سبب اس کا نام ہے ۔ اس نام کے ابتدائی دو حصے مشکل سے ادا ہوتے ہیں۔ البتہ آخری حصہ صوتی اعتبار سے ہمارے یہاں کے لفظ گؤ سے ملتا جلتا ہے اور اسی بنا پر امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کمیشن ایسی سفارشات پیش کرے گا جو اس ملک کے لوگوں کے حق میں گائے کے دودھ کی طرح فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ میں دوسری جنگ عظیم کے تذکرہ میں لنلتھگو کے بارے میں مزید عرض کروں گا۔ لنلتھگو کو زراعت سے بہت دلچسپی تھی۔ ان کی خدمات اس میدان میں بہت نمایاں ہیں۔
ضیافت کے بعد کی تقریروں کے سلسلہ میں مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ مرکزی اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کے غیر سرکاری ارکان نے اس وقت کے وزیر داخلہ سر ہیری ہیگ کو صوبہ جات متحدہ کا گورنر مقرر کیے جانے پر الوداعی دعوت دی۔ سر ہری سنگھ گور، مرکزی اسمبلی کے سب سے معمر رکن تھے۔ چنانچہ الوداعی تقریر کے لیے ان سے گزارش کی گئی اور وہ سرہیری پر تجسین و ستائش کے ڈونگرے برسانے کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھ گئے ۔ میں ان کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ میں نے انہیں کہنی مار کر یاد دلایا ’’آپ اپنی تقریر میں لیڈی ہیگ کا ذکر بھول نہیں گئے۔‘‘ چنانچہ وہ پھر اچھل کر کھڑے ہو گئے اور اپنی فروگذاشت پر پردہ ڈالتے ہوئے بولے ’’ اور ہاں لیڈی ہیگ کی پرکشش شخصیت اتنی مشہور و معروف ہے کہ ان کے بارے میں جتنا کم کہا جائے، اتنا ہی اچھا ہے‘‘ کوئی ڈیڑھ ہزار افراد پر مشتمل پوری پارٹی نے وہ زبردست قہقہہ لگایا کہ ہال کی چھت ہل گئی۔ سرہری سنگھ اپنے محاورہ فقرے کے بے محل استعمال سے غافل حاضرین کے قہقہوں کو ستائش پر محمول کرکے چاروں طرف سرکوخم کردیتے اور تسلیمات بجالاتے رہے۔ تقریروں کے بہترین لطائف وہ ہیں جو برجستہ اور بے ارادہ زبان سے ادا ہوتے ہیں اور حاضرین دوسروں کے واسطے سے بے اختیار قہقہے لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
عشائیہ کے بعد کی تقریر مدہم ہونی چاہیے تاکہ مہمانوں کے دماغ میں خوب سماسکے جو خوب کھاپی کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس تقریر کا مختصر اور دلچسپ ہونا بھی ضروری ہے۔ یہاں برسبیل تذکرہ یاد آیا کہ سرہری سنگھ گور نہ صرف ایک کامیاب وکیل تھے بلکہ قانون کی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ انہوں نے اس قدر دولت کمائی تھی کہ ناگپور یونیورسٹی کو ایک کروڑ پاچ لاکھ روپیہ کا عطیہ دیا۔ واضح ہوکر یہ 1930ء کا ذکر ہے۔
لارڈ لنلتھگو کے بعد لارڈویول آئے جو شمالی افریقہ کی جنگ کے ہیرو تھے۔ ان کے ساتھ میری واقفیت لنلتھگو سے بھی زیادہ تھی کیونکہ ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے وہ وائسرائے کی کونسل میں میرے رفیق کار رہ چکے تھے۔ ان کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن آئے۔ انہیں میں بہت ہی کم جانتا تھا کیونکہ جب وہ وائسرائے مقرر ہوئے تو میں اس وقت (ستمبر1945ء ) تک مستعفی ہوکر دہلی سے لاہور پہنچ چکا تھا۔
میں شملہ میں مختلف وائسراؤں کے اے ڈی سیز کو اچھی طرح جانتا تھا۔ یہ عام طور پر برطانوی فوج کے نوجوان لڑکے ہوتے تھے اور یہ بات حیران کن تھی کہ وہ لوگوں کو وائسرائے سے متعارف کراتے وقت ہندوستانی ناموں کو کس طرح یاد رکھتے تھے۔ شملہ کے وائسرائے لاج میں لق و دق ہال کے اندر پچاس ساٹھ افراد صف بستہ کھڑے ہوتے۔ وائسرائے اپنی اہلیہ کے ساتھ تشریف لاتے۔ ایک ایک اے ڈی سی ان کے ساتھ ہوتا۔ اس سلسلہ میں جو آداب مقرر تھے، ان کے تحت وائسرائے کو اپنی اہلیہ پر فوقیت حاصل تھی، کیونکہ وہ شاہ برطانیہ کی نمائندگی کرتا تھا۔ یہ جواں سال فوجی افسر ہندوستانی ناموں کو رٹ لیا کرتے تھے اور پھر مجال تھی جو غلطی ہوتی۔ مدراسیوں کے نام بڑے لمبے ہوتے ہیں اور ان کی ادائیگی بہت مشکل ہوتی ہے لیکن کبھی میں نے یہ نہیں دیکھاکہ کسی اے ڈی سی کو یہ نام ادا کرنے میں غلطی ہوئی ہو۔ میں نے اے ڈی سی نوجوانوں کو اپنے مخصوص کمرے میں، دعوتوں سے پہلے مختلف ناموں کو بار بار دہراتے اکثر دیکھا تھا، وہ یہ مشق تلفظ کی صحیح ادائیگی کے لئے کرتے تھے لیکن ایک بار ایک اے ڈی سی سے لغزش ہوگئی۔ انڈین سول سروس کے رکن اور پنجاب کے فنانشل کمشنر مسٹر چارلس ٹاؤنسنڈ کو شملہ میں وائسرائے کی قیام گاہ پر کھانے کی دعوت کا شرف بخشا گیا۔ اے ڈی سی نے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ آپ پنجاب کے فنانشل کمشنر مسٹر کنگ ہیں۔ مسٹر کنگ بھی انڈین سول سروس کے رکن تھے لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کی والدہ برمی تھیں۔ مسٹر ٹاؤنسنڈ ایک کٹر آئرش تھے۔ ناموں کا یہ ردوبدل برداشت نہ کرسکے۔ انہوں نے برجستہ کہا ’’میرا نام ٹاؤنسنڈ ہے‘‘ میرا خیال ہے کہ اے ڈی سی کی کوتاہی کی اصلاح اس طرح شاید ہی کسی نے کی ہوگی۔ اے ڈی سی کا کام دلچسپ لیکن بڑا محنت طلب ہوتا ہے۔
میں جن د نوں وائسرائے کی انتظامی کونسل کا رکن تھا، ایک بار کوئی اے ڈی سی گزشتہ اتوار کے شکار کا حساب کررہا تھا۔ لارڈ لنلتھگو بڑے اچھے نشانہ باز تھے بلکہ اس فن میں والیان راست سے بھی بازی لے گئے تھے۔ جن کی اصل مصروفیت ہی بیشتر سیر و شکار اور نشانہ بازی ہوا کرتی تھی۔ اے ڈی سی نے مجھ سے کہا کہ اگر مجھے جہنم میں بھیج دیا گیا تو وہاں مجھ سے حساب کتاب کی مشقت نہیں لی جائے گی۔ یہ نوجوان اردو سیکھ رہا تھا اور لاہور کے ایک روزنامہ کا مطالعہ پابندی سے کرتا تھا۔ اس کا نام لارڈ ایلفنس ٹوم تھا اور وہ موجودہ ملکہ کو، جن کا وہ چچا زاد بھائی ہے، ان دنوں اکثر خط لکھتا رہتا تھا۔ ملکہ الزبتھ نے جو اس وقت شہزادی الزبتھ تھیں، مجھے یہ بات لندن کے دوران قیام میں ایک ملاقات کے دوران میں بتائی تھی۔ ہندوستان کے معاملات سے وہ ان دنوں بھی خاصی باخبر تھیں۔ جب میں ہائی کمشنر تھا تو اس ننھی سی لڑکی کو ونڈسرپارک کے باہر والدہ اور والد کے ساتھ گھوڑے پر سواری کرتے ہوئے دیکھتا تھا۔
صوبوں میں بھی یہ معمول تھا کہ گورنر اپنی بیگمات پر فوقیت رکھتے تھے کیونکہ وہ بھی شاہ برطانیہ کے نمائندے تھے۔ آزادی کے بعد گورنوں کا تقرر مرکزی حکومت کی طرف سے عمل میں آنے لگا۔ یہ رقم کہ گورنر کو ہال میں سب سے پہلے داخل ہونا چاہیے پاکستان کے جمہوریہ بننے سے قبل تک برقرار رہی۔
اولیت کے سلسلہ میں ایک حکایت ہے اور جب بھی وہ مجھے یاد آتی ہے محفوظ ہوتا ہوں۔ ایک دفعہ جرمنی کے شاہ فریڈرک اعظم نے رقص کا اہتمام کیا۔ رقص شروع ہونے سے قبل شاہ کا اے ڈی سی بھاگا بھاگا آیا اور بولا کہ حضور دو معزز خواتین باہر کھڑی اس بات پر جھگڑرہی ہیں کہ بال روم میں پہلے کون داخل ہو۔ حضور فیصلہ فرمائیں۔ شاہ نے کاغذ کے ایک پرزے پر یہ عبارت لکھ کر انہیں بھجوادی ’’جو زیادہ احمق ہو وہ پہلے داخل ہو‘‘ یہ ایک مفید حکایت ہے جسے ہماری بعض خواتین کو یاد رکھنا چاہیے۔(جاری ہے)
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 45 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں