قسط نمبر 235۔ ۔۔ فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز

قسط نمبر 235۔ ۔۔ فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز
قسط نمبر 235۔ ۔۔ فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وہ ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھول کر کھڑے ہوگئے اور ہم دل ہی دل میں نصرُ من اللہ و فتح قریب پڑھتے ہوئے اندر داخل ہوگئے۔ یہ کمرہ وزیر کے کمرے سے قدرے کشادہ تھا۔ نیم تاریکی میں ایک بڑی سی میز پر لیمپ کی روشنی میں ایک صاحب بیٹھے کچھ کاغذات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ کمرے کی نیم تاریکی سے ہماری آنکھیں مانوس ہوئیں تو وہ صاحب بھی نظر آگئے جن کا نام مسعود الرؤف تھا اور جو اس زمانے میں مغربی پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات تھے۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 234 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مسعودالرؤف صاحب کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے ۔بہت خوش اخلاقی سے ہاتھ ملایا اور بیٹھنے کے لئے کہا۔ ہم لمبی چوڑی میز کے دوسری جانب ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھ گئے۔ وہ ایک دراز قد خوب صورت آدمی تھے۔ عمر 35اور 40کے درمیان ہوگی مگر چہرے سے شگفتگی کا اظہار ہوتا تھا۔ بال غالباً تھوڑے گھونگریالے تھے۔
مسعود الرؤف صاحب نے بڑی اپنائیت سے ہماری مزاج پرسی کی پھر بتایا کہ جن دنوں وہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے تھے تو ہمارے مضامین پڑھتے رہتے تھے۔ پھر انہوں نے ہماری لکھی ہوئی کچھ فلمیں بھی دیکھی تھیں۔ غائبانہ طور پر ہم سے بخوبی واقف تھے۔ انہو ں نے چائے یا کافی کے لئے دریافت کیا مگر ہم نے معذرت کر دی کہ ابھی کچھ دیر پہلے پی کر آئے ہیں۔
ان کی دوستانہ اور خوش گوار گفتگو کی وجہ سے کمرے کا ماحول خاصا سازگار ہوگیا تھا ۔ انہوں نے موسم‘ صحافت‘ سیاست اور ادب کے بارے میں کچھ باتیں کیں پھر انہیں یاد آیا کہ ہم کسی کام سے ان کے پاس آئے ہیں۔
’’کہئے کیسے آنا ہوا؟‘‘ انہوں نے پوچھا
ہم نے فوراً اپنا مسئلہ بیان کر دیا۔ نہایت مختصر الفاظ میں انہیں بتایا کہ فلم مکمّل ہونے کے بعد عین وقت پر اس کو دو ڈھائی ہزار فٹ کاٹ دینا بہت مشکل ہے۔ اس طرح تو فلم کا حلیہ ہی بگڑ جائے گا۔
وہ مسکرائے اور شائستگی سے بولے ’’ہماری فلموں میں تو یہ پرابلم ہی نہیں ہوتی۔ جہاں سے چاہے نکال دیجئے، دیکھنے والوں کو کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔‘‘
ہم نے کہا ’’ہاں بعض فلموں میں ایسا ہوتا ہے مگر ہماری کہانی مربوط ہے۔ اس میں کاٹ چھانٹ کرنا بہت مشکل ہوگا۔ ‘‘
’’کیا کہانی ہے آپ کی؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
ہم نے مختصراً کہانی سنائی۔ کرداروں اور ان کی نفسیات کے بارے میں بتایا پھر ہم نے یہ بھی کہا کہ اگر خام فلم پر خرچہ بچانا ہی مقصود ہے تو دراصل فلم نیگیٹو کے استعمال پر پابندی ہونی چاہیے۔ وہ مہنگا بھی ہوتا ہے اور اگر ساٹھ ستر ہزار فٹ نیگیٹو استعمال کرنے کے بعد فلم کی لمبائی صرف بارہ ہزار فٹ مقّرر کر دی جائے تو بھی اس سے سراسر نقصان ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
وہ بڑے صبر و تحمل سے ہمارے خیالات سنتے رہے۔
پھر وہ بولے ’’آپ کی فلم کی فائل ابھی ابھی میرے پاس آئی ہے ‘‘یہ کہہ کر انہوں نے ایک طرف سے فائل نکال کر اپنے سامنے رکھ لی اور پوچھا ’’اب مسئلہ کیا ہے؟‘‘
ہم نے کہا ’’وہی فلم کی طوالت کا مسئلہ ہے بارہ ہزار فٹ میں یہ کہانی نہیں سمیٹی جا سکتی۔ اس کی لمبائی میں اضافہ کرنے کی اجازت دی جائے۔‘‘
انہوں نے ایک نظر فائل پر ڈالی پھر پوچھا ’’مثلاً کتنی لمبائی ہو تو آپ کی فلم بے ربط نہیں ہوگی؟‘‘
ہم نے کہا ’’کم از کم ساڑھے چودہ ہزار فٹ تو ہونی چاہیے۔ ‘‘
انہوں نے قلمدان میں سے قلم نکالا اور فائل پر کچھ لکھ دیا۔ پھر ہماری طرف دیکھ کر مسکرائے ’’لیجئے یہ تو ہوگیا ،میرے لائق کوئی اور خدمت؟‘‘
ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
اس روز ہمیں ایک وزیر اور ایک سیکرٹری کی قوت اور اختیارات کے فرق کا اندازہ ہوا۔
مسعود الرؤف صاحب نہایت شائستہ اور پڑھے لکھے انسان تھے۔ اس کے بعد ان سے ایک آدھ بار ہی کسی محفل میں ملاقات ہوئی جو علیک سلیک اور مزاج پرسی تک محدود رہی مگر ان سے مل کر بہت اپنائیت کا احساس ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ بہت پرانے شناسا ہیں اور ہماری مدد کرنے میں قطعی پس و پیش نہیں کریں گے۔ ان کی اس خوبی کا مظاہرہ چند سال بعد ہماری فلم ’’سزا‘‘ کی ریلیز کے وقت ہم نے دیکھا جب فیصل آباد کے طلبا نے اس فلم میں حیوانات کے ڈاکٹروں کی بے عزّتی کرنے کا الزام لگا کر سارے پنجاب میں اس کی نمائش پر پابندی عائد کرا دی تھی۔ ہم بھاگے بھاگے کراچی سے لاہور پہنچے (مگر پیدل نہیں بذریعہ ہوائی جہاز) مسعود الرؤف صاحب اس زمانے میں بھی غالباً سیکرٹری اطلاعات یا سیکرٹری محکمہ قانون تھے۔ اس میں مسعودالرؤف صاحب بھی شامل تھے۔فلم کو دیکھ کر فیصلہ کرنے کے لئے سرکاری افسروں کی ایک کمیٹی بنا دی گئی تھی۔ فلم دیکھنے کے بعد انہوں نے طلبا کے قائدین سے پوچھا ’’اس میں کون سی قابل اعتراض بات ہے؟‘‘
’’سر اس میں ڈاکٹر کا مذاق اڑایا گیا ہے؟‘‘
وہ بولے’’ اوّل تو فلم میں اس شخص کو جعلی ڈاکٹر دکھایا گیا ہے۔ اس لئے ڈاکٹروں کی توہین کا پہلو نہیں نکلتا۔ دوسرے یہ کہ اس فلم میں سیاستدانوں اور معاشرے کے دوسرے شعبوں کو بھی طنز و مزاح کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ میرے خیال میں تو اس پر پابندی کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘‘
پینل کے دوسرے اراکین نے بھی ان سے اتفاق رائے کیا۔ سٹوڈنٹس لیڈروں کا کہنا تھا کہ فلم میں سے خواہ برائے نام چند فٹ ہی سہی مگر کچھ حصّہ ضرور حذف کر دیا جائے ورنہ ہم واپس جا کر اپنی یونین کو کیا منہ دکھائیں گے۔ مسعودالرؤف صاحب تو ایک فٹ بھی حذف کرنے کے مخالف تھے مگر ہم نے اتمام حجت کی خاطر چند فٹ فلم حذف کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی اور اس طرح فلم پر سے فوری طور پر پابندی ہٹا لی گئی۔
مسعودالرؤف صاحب کی شرافت اور اعلیٰ ظرفی کے ہم ایک بار پھر قائل ہوگئے۔ کاش ان جیسے معقول بیورو کریٹ ہمارے ملک میں کچھ اور بھی ہوتے تو حالات مختلف ہوتے۔ کسی تعارف، ذاتی شناسائی ،تعلقات یا سفارش کے بغیر انہوں نے دونوں مرتبہ ہمارے نقطہ نظر کی پذیرائی کی تھی۔
اس رات عالم علی سیّد صاحب کا فون آیا۔ وہ بے چارے بہت شرمندہ اور شرم سار تھے۔ کہنے لگے ’’سنو آفاقی۔ میں نے تمہارا کام کرانے کے لئے ایک اور ذریعہ تلاش کرلیا ہے۔‘‘
ہم نے کہا ’’سیّد صاحب شکریہ مگر اب اس کی ضرورت نہیں ہے ہمارا کام ہو چکا ہے۔‘‘
’’ارے وہ کیسے؟‘‘ وہ حیران رہ گئے۔
ہم نے بتایا کہ سیکرٹری اطلاعات مسعود الرؤف صاحب نے ہماری فلم کی لمبائی میں اضافے کی اجازت دے دی ہے۔
بولے ’’یار وہ بڑا نر آدمی ہے۔ بے خوف افسر ہے۔‘‘
ہم نے کہا ’’تم تو وزیروں کے چکّر میں تھے۔‘‘
بولے ’’واقعی غلط خیال تھا۔ اصل حکومت تو بیورو کریٹس کی ہے۔‘‘
آغا جی اے گل مرحوم کی رنگین فلم ’’نائلہ‘‘ بھی ہماری فلم ’’کنیز‘‘ کے ساتھ ہی ریلیز ہونے والی تھی مگر انہیں بھی فلم کی لمبائی کا مسئلہ درپیش تھا۔ انہوں نے ہی ہمیں یہ بتایا تھا کہ ایک ہوائی سفر میں کسی سیکرٹری نے انہیں اس پابندی کی اطلاع دی تھی پھر انہوں نے ہم سے پوچھا ’’ تم اپنی فلم کی لمبائی برقرار رکھنے کے لئے کیا کرو گے؟‘‘
ہم نے کہا ’’جو آپ کریں گے‘ دیکھئے نا آغا صاحب‘ آپ ہمارے بزرگ اور رہنما ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اپنے ساتھ آپ ہمارا کام بھی کرا دیں گے۔‘‘
آغا صاحب کے مراسم بہت دور تک تھے اور پاکستان میں اس ذریعے سے بڑے بڑے بند دروازے کھل جاتے ہیں لیکن ہم نے ان سے پہلے ہی اپنی فلم کی لمبائی بڑھوا لی تھی۔
شام کو ایورنیو سٹوڈیو گئے تو آغا صاحب کے ملازم خصوصی بوستان خان وارد ہوگئے۔ ’’آفاقی صاحب‘ آپ کو آغا صاحب یاد کرتا ہے‘‘
آغا صاحب نے ’’ چئے روڑا‘‘ کا آرڈر دینے کے بعد ہم سے کہا ’’یار سنا ہے تم نے کام کرا لیا ہے۔ ہمیں بھی بتاؤ‘‘
ہم نے انہیں بتا دیا کہ ہمیں سیکرٹری اطلاعات نے اجازت دی ہے۔
’’نائلہ‘‘ صحیح معنوں میں پاکستان کی پہلی رنگین فلم تھی جس کے ہدایت کار شریف نیّر صاحب تھے۔ آغا صاحب کے لئے بھلا یہ کون سا مشکل کام تھا۔ انہوں نے بھی اجازت حاصل کر لی اور ’’کنیز‘‘ اور ’’نائلہ‘‘ ایک ساتھ ہی ریلیز ہوئیں اور دونوں نے بہت زبردست کامیابی حاصل کی۔
فلم کی ریلیز سے پہلے ایک اور پریشانی پیدا ہوگئی۔ پرنٹس بنانے کیلئے بازار میں پوزیٹو موجود نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ بحری جہاز کے ذریعے سٹاک آ رہا ہے۔ (جاری ہے)

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔قسط نمبر 236 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)