بی این پی کے بعد ایم کیو ایم بھی حکومت سے ناراض نتیجہ کیا ہوگا ؟
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
تحریک انصاف کی قیادت میں وفاق میں جو حکومت قائم ہے، اس میں آٹھ اتحادی جماعتیں بھی ہیں، جن کے نظریات میں تو بعد المشرقین ہے لیکن انہوں نے عام انتخابات کے بعد عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے ایک نکتے پر اتفاق کرلیا تھا، اس لئے ان سب کے ووٹوں سے تحریک انصاف کی حکومت تو بن گئی لیکن اتحادیوں کے درمیان جو معمول کا ربط ضبط ہونا چاہئے، وہ بھی قائم نہیں ہو رہا، اس لئے حکومت میں شامل ہونے کے باوجود یہ جماعتیں اپنا اپنا موقف رکھتی ہیں اور دہراتی بھی رہتی ہیں، مثال کے طور پر ایم کیو ایم (پاکستان) ہے جس کے پاس دو اہم وفاقی وزارتیں ہیں لیکن یہ جماعت بھی الزام لگاتی ہے کہ 25 جولائی کے انتخاب میں دھاندلی ہوئی تھی، گویا دھاندلی کے معاملے میں ایم کیو ایم (پ) اور اپوزیشن جماعتوں کا نقطہ نظر یکساں ہے، اس لحاظ سے ایم کیو ایم کی پوزیشن اس شخص کی طرح ہے جو بوقت ضرورت زاہد کے ساتھ نماز ادا کرلیتا ہے اور پھر ضرورت پڑے تو رند کے ساتھ دخت رز سے شغل فرمانے میں بھی کوئی برائی نہیں سمجھتا۔ ایم کیو ایم یہ شکایت کرتی رہی ہے کہ اس کے امیدواروں کو عام انتخابات میں ہروایا گیا۔ ایم کیو ایم سے نکلنے والے مصطفی کمال بھی یہ شکایت کرتے پائے گئے کہ انہیں جن حلقوں سے کامیابی کا یقین دلایا گیا تھا، ان سے بھی ہروا دیا گیا، یہ وضاحت البتہ انہوں نے نہیں کی کہ یقین دہانی کرانے والے کون تھے، لیکن اتنا تو یقینی ہے کہ کوئی ایسے لوگ ہی ہوں گے جن کی بات نہ صرف معتبر تھی بلکہ انہوں نے اس پر پوری طرح یقین بھی کرلیا، انہوں نے الیکشن کے اگلے ہی روز یہ وعدہ تو کیا تھا کہ وہ سب کچھ تفصیل سے بتائیں گے، لیکن اب تک بتایا نہیں، ممکن ہے انہوں نے بتایا ہو اور اس تجزیہ نگار کو خبر نہ ہوسکی ہو، لیکن اس وقت بات مصطفی کمال کی نہیں، ایم کیو ایم پاکستان کی ہو رہی ہے، جو اب ضمنی انتخابات میں دوبارہ طبع آزمائی کر رہی ہے اور اس یقین کے ساتھ میدان میں اتری ہے کہ اب کی بار کسی کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ ان کے امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کو زبردستی پولنگ سٹیشن سے نکال دے۔ ایم کیو ایم کے لیڈر فیصل سبزواری نے کراچی میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 25 جولائی کو کراچی میں نتائج تبدیل کئے گئے، ہماری جیتی ہوئی نشستوں سے ہرایا گیا۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر رہنما عامر خان نے بھی کہا کہ ہم اپنے مضبوط رہنماؤں کو پولنگ ایجنٹ بنائیں گے، جن کے سینوں پر بندوق بھی رکھ دی گئی تو وہ فارم 45 لئے بغیر پولنگ سٹیشن سے نہیں نکلیں گے۔
قارئین محترم یہ ان دو رہنماؤں کے خیالات ہیں، جن کی جماعت حکومت کا باقاعدہ حصہ ہے، اور وزارتوں کے مزے بھی لے رہی ہے۔ ایم کیو ایم ماضی میں بھی حکومتوں کا حصہ رہی اور اقتدار کے مزے بھرپور لیتی رہی، لیکن اس نے آج تک مان کر نہیں دیا کہ وہ حکومتوں کا حصہ رہی ہے۔ اس کا دو ٹوک موقف رہا کہ حکومت یا تو پیپلز پارٹی کی تھی یا مسلم لیگ اور جنرل پرویز مشرف کی۔ ہم حکومت میں شامل ضرور تھے لیکن پالیسیاں ان کی تھیں جن کی حکومتوں کا حصہ ہم بنے ہوئے تھے، جب ہماری حکومت آئے گی تو ہم اپنا ایجنڈا پورا کریں گے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ روایتی طور پر جو شہر ایم کیو ایم کا گڑھ تھے، وہ تو ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ کراچی میں ان کے نامور رہنما تحریک انصاف کے ان ورکروں سے ہار گئے، جن کی سیاسی اہمیت زیادہ نہیں تھی۔ کراچی میں تو شہباز شریف بھی فیصل واڈوا سے سات سو ووٹوں سے ہار گئے اور ان کی دوبارہ گنتی کی درخواست بھی مسترد ہوگئی۔ عامر خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت میں شامل ہوتے وقت ہمارے ساتھ جو وعدے کئے گئے تھے، وہ پورے نہیں ہوئے جبکہ حکومت کے پچاس دن گزر چکے ہیں، عامر خان کا کہنا تھا کہ ہم مزید پچاس دن انتظار کریں گے اور اگر ہمارے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہ کئے گئے تو ہم حکومت سے الگ ہو جائیں گے، حکومت کا ساتھ دینا ہماری مجبوری نہیں ہے۔ اس سے پہلے سردار اختر مینگل کی جماعت بی این پی کو بھی شکایت ہے کہ اس کے ساتھ جو چھ نکاتی تحریری معاہدہ کیا گیا تھا، اس کے چار نکات پر توجہ نہیں دی گئی۔ اختر مینگل کو شکایت ہے کہ سابق حکومت نے بجٹ میں بلوچستان کے لئے رقم رکھی، لیکن اس پر عمل نہیں کیا جبکہ ضمنی بجٹ میں بلوچستان کے لئے رقم نہیں رکھی گئی۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورۂ بلوچستان کے دوران صوبائی حکومت اور بلوچ رہنماؤں کو یقین دلایا کہ سی پیک کے منصوبوں میں بلوچستان کو زیادہ حصہ دیا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے سی پیک کے منصوبوں پر نظرثانی کے لئے بھی کہا ہے، اس کی زد میں کون سے منصوبے آئیں گے، اس کی تفصیلات کا تو فی الحال اندازہ نہیں، لیکن لگتا ہے کہ حکومت میں شامل امریکہ نواز لابی کو اتنی کامیابی ضرور حاصل ہوگئی ہے کہ سی پیک پر نظرثانی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ اس نظرثانی میں کون کون سے منصوبے متاثر ہوتے ہیں۔ کیا معلوم ان صنعت کاروں کی امیدیں بھر آئیں جن کی کمپنیوں کو بوجوہ سی پیک کے منصوبوں میں شرکت کا موقع نہیں ملا تھا، اب ان کی کمپنیاں بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں۔ سی پیک پر نظرثانی تو ہوتی رہے گی لیکن اگر ایم کیو ایم نے حکومت کے ساتھ تعاون پر نظرثانی کرلی اور بی این پی (مینگل) نے بھی اپنے تعاون پر دوبارہ سوچ بچار شروع کر دی تو پھر سوال یہ ہے کہ حکومت کتنے دن چل سکے گی، ویسے ایم کیو ایم کا ٹریک ریکارڈ تو یہ ہے کہ وہ اگر کسی حکومت سے ناراض ہوتی ہے تو جلد ہی مان بھی جاتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے ناراضی کو مستقل نہیں رکھی، لیکن اب پتہ نہیں تحریک انصاف کے پاس کوئی رحمان ملک بھی ہے یا نہیں جو ایم کیو ایم کو منانے میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں، حکومت کو چاہئے کہ اس مقصد کے لئے رحمان ملک کی خدمات مستعارلے، انہیں یہ کار خیر انجام اپنے پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہوگا۔
اپوزیشن اور ایم کیو ایم میں بعض دوسرے معاملات پر بھی اتفاق نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر فواد چودھری پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور اگر چیئرمین سینیٹ آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کریں تو وہ اسے بھی ناکام بنا دیتے ہیں۔ نیب کوئی گرفتاری کرے تو فوراً اعلان کر دیتے ہیں، ابھی اور بھی گرفتاریاں ہوں گی تاکہ شعلہ سرد نہ ہو۔ اس ماحول میں ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ حکومتی ٹیم انتشار کا شکار ہے اور اگر حکومت کوئی اچھا کام کرے بھی تو فواد چودھری اس پر پانی پھیر دیتے ہیں۔
ناراض